قاضی صاحب! آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے

January 07, 2013

محترم قاضی حسین احمد کا آخری مضمون 31 دسمبر 2012ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔یہ مضمون پروفیسر غفور احمد کے بارے میں تھا۔ قاضی صاحب نے اپنے اس بزرگ ساتھی کی موت پر لکھے جانے والے مضمون کے آخر میں کہا تھا۔”اے ہمارے شفیق اور مہربان بھائی آپ ہم سے جدا ہوگئے لیکن آپ اب بھی ہمارے دلوں میں بستے ہوں“۔کون جانتا تھا کہ صرف چند دنوں کے بعد پروفیسر غفور احمد صاحب کے بارے میں لکھے گئے یہی الفاظ ہمیں قاضی حسین احمد صاحب کے انتقال پر یاد آئیں گے اور مجھے لکھنا پڑے گا کہ اے ہمارے شفیق اور مہربان بزرگ ! آپ ہم سے جدا ہوگئے لیکن آپ بھی ہمیشہ ہمارے دلوں میں بسے رہیں گے۔ قاضی حسین احمد ہمارے لئے صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ واقعی ایک ایسے شفیق بزرگ تھے جن سے میں سیاست پر کم اور دیگر موضوعات پر زیادہ گفتگو کیاکرتا تھا۔ قاضی حسین احمد کے ساتھ میری جان پہچان 1987ء میں شروع ہوئی۔ یہ وہ سال تھا جب میں نے میدان صحافت میں قدم رکھا اور قاضی حسین احمد بھی اسی سال جماعت اسلامی کے سربراہ بنے تھے۔ جنرل ضیاء الحق وطن عزیز پر حکومت کررہے تھے اور جماعت اسلامی کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی بی ٹیم کہا جاتا تھا۔ اس زمانے میں خوشنود علی خان روزنامہ جنگ لاہور کے چیف رپورٹر تھے۔ ایک دن چیف رپورٹر صاحب نے صبح کی میٹنگ میں اعلان کیا کہ آج سے جماعت اسلامی کی کوریج کی ذمہ داری حامد میر کی ہوگی۔ یہ اعلان میرے لئے کسی بم دھماکے سے کم نہ تھا کیونکہ جماعت اسلامی کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ میرے والد مرحوم پروفیسر وارث میر کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔جماعت اسلامی کے یہ رہنما جنرل ضیاء الحق کے حامی اور میرے والد جنرل ضیاء الحق کے بہت بڑے ناقد تھے اور جنرل ضیاء نے میرے والد کو اپنے دام الفت میں پھانسنے میں ناکامی کے بعد جماعت اسلامی کے انہی رہنماؤں کے ذریعہ بلیک میل کیا تھا۔ میرے والد کی زندگی کے آخری دنوں میں پروفیسرغفور احمد ان کی مدد کو آئے لیکن کچھ نہ کرسکے اور اسی دوران میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ہم جنرل ضیاء الحق اور جماعت اسلامی کو اپنے والد کی موت کا ذمہ دار سمجھتے تھے جبکہ خوشنود علی خان صاحب نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی جماعت اسلامی کو میرے سپرد کردیا تھا اور مجھے جماعت اسلامی کے سپرد کردیا تھا۔ یہ میری صحافتی تربیت کا آغاز تھا۔ مجھے اپنے ذاتی خیالات اور احساسات کو پس پشت ڈالتے ہوئے صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنی تھیں۔ میں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور جب میرے قدم جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ کی طرف بڑھے تو خوش قسمتی سے وہاں قاضی حسین احمد موجود تھے۔ قاضی صاحب کو سب کچھ معلوم تھا لیکن انہوں نے اپنی محبت اورشفقت کے ذریعہ ماضی کی تلخیوں کا ذکر کئے بغیر ان تلخیوں کو ختم کردیا۔ قاضی صاحب نے کئی دفعہ مجھے جماعت اسلامی کے حوالے سے ایسی خبریں دیں جو کسی اور کے پاس نہیں ہوتی تھیں۔ خود جماعت اسلامی کے لوگ میرے ساتھیوں سے پوچھتے پھرتے تھے کہ ہماری اندر کی خبریں حامد میر کو کیسے مل رہی ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں مجھے سمجھ آگئی کہ جنرل ضیاء کے بارے میں قاضی حسین احمد کے خیالات میاں طفیل محمد سے بالکل مختلف تھے۔یہ میاں طفیل محمد تھے جنہوں نے جنرل ضیاء کے ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔ پروفیسر غفور احمد اور قاضی حسین احمد اس ریفرنڈم کے حامی نہیں تھے لیکن جماعتی نظم و نسق کی وجہ سے خاموش رہے،جماعت اسلامی کی امارت سنبھالنے کے بعد قاضی حسین احمد نے آہستہ آہستہ جنرل ضیاء پر تنقید شروع کی اور جماعت اسلامی کو نئی پہچان دینی شروع کی۔
1987ء سے پہلے جماعت اسلامی کو عوامی پارٹی نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کے منشور کو عام فہم بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے سیاست اور صحافت میں اپنے کئی ناقدین کے دلوں میں محبت و احترام حاصل کیا۔ ہمارے دوست سہیل وڑائچ جماعت اسلامی کے ناقدین میں شمار ہوتے تھے لیکن اپنا نکاح پڑھانے کے لئے ا نہوں نے قاضی حسین احمد کو درخواست کی اور قاضی صاحب نے بڑی خوشی کے ساتھ سہیل وڑائچ کا نکاح پڑھایا۔ قاضی حسین احمد نے1993ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے مقابلے پر پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے ایک تیسری سیاسی طاقت کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ محمد علی درانی ان کی میڈیا مہم کے انچارج تھے اور انہوں نے یہ نعرہ متعارف کرایا”ظالمو! قاضی آرہا ہے“ اس الیکشن میں اسلامک فرنٹ زیادہ نشستیں نہ حاصل کرسکی لیکن قاضی صاحب دینی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے قیام میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو مشرف نے جماعت اسلامی کی حمایت کے لئے قاضی حسین احمد سے ملاقات کی۔ قاضی صاحب نے ملاقات تو کرلی لیکن بڑا محتاط رویہ اختیار کیا۔ اپریل 2001ء میں مجھے قاضی حسین احمد کے ہمراہ تہران میں ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ ان دنوں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار تہران میں مقیم تھے۔ اپنے مہربان بخت زمین خان کے ذریعہ میں تہران میں گلبدین حکمت یار کا انٹرویو کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اگلے روز گلبدین حکمت یار نے مجھے اور قاضی صاحب کو ظہرانے پر بلایا۔ اس ظہرانے میں قاضی صاحب کی شخصیت کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا۔ قاضی حسین احمد نے میری موجودگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گلبدین حکمت یار کے کچھ فیصلوں پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اگر حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی آپس میں لڑنے سے گریز کرتے تو طالبان وجود میں نہ آتے اور آج افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہوتی۔ گلبدین حکمت یار اپنے مہمان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بڑے مدلل انداز میں اپنا موقف بیان کرتے رہے لیکن قاضی صاحب کا اصرار تھا کہ شمالی اتحاد اور طالبان کو آپس میں مذاکرات کرنے چاہئیں ورنہ امریکہ افغان گروپوں کے اختلافات کا فائدہ اٹھا کر افغانستان پر حملہ کردے گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گلبدین حکمت یار نے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔قاضی حسین احمد نے پاکستان واپس آکر مولانا سمیع الحق سے درخواست کی کہ وہ طالبان اور شمالی اتحاد میں فاصلے کم کرنے کے لئے اہم کردار ادا کریں۔ فاصلے کم کرنے کے لئے مذاکرات شروع ہوگئے لیکن گیارہ ستمبر 2001ء کو نیویارک اور واشنگٹن میں حملوں کے بعد دنیا بدل گئی۔2002ء میں قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن نے مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں دینی جماعتوں کا ایک اتحاد قائم کیا جسے متحدہ مجلس عمل کا نام دیا گیا۔ اس اتحاد نے انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی لیکن جنرل پرویز مشرف اس اتحاد کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔ بظاہر تو کچھ یاران نکتہ داں ایم ایم اے کو ملاُ ملٹری الائنس قرار دیتے تھے لیکن مولانا شاہ احمد نورانی مجھے بتایا کرتے کہ مشرف اس اتحاد کے خلاف کیا کیا سازشیں کرتا تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد اس اتحاد میں دراڑیں پڑگئیں اور یہ قائم نہ رہ سکا۔ اکبر بگٹی کی شہادت اور لال مسجد میں آپریشن کے بعد قاضی حسین احمد اسمبلیوں سے مستعفی ہونا چاہئے تھے لیکن ایم ایم اے میں اتفاق نہ ہوسکا لہٰذا قاضی حسین احمد ذاتی حیثیت میں اسمبلی سے مستعفی ہوگئے ۔قاضی حسین احمد اکیس سال تک امیر جماعت اسلامی رہے لیکن2008ء میں انہوں نے دوبارہ امیر بننے سے معذرت کرلی۔ پچھلے پانچ سال سے وہ ادارہ فکر و عمل کے نام سے ایک تھنک ٹینک چلارہے تھے جس کا بنیادی مقصد اتحاد امت تھا۔ پچھلے سال نومبر میں انہوں نے اسلام آباد میں ایک کامیاب اتحاد امت کانفرنس کا انعقاد کیا۔
5اور6جنوری کی درمیانی شب قاضی حسین احمد ہم سے جدا ہوگئے۔ صبح فجر کے وقت آنکھ کھلی تو موبائل فون پر ان کی وفات کا پیغام پڑھ کر آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ مجھے وہ دن یاد آئے جب وکلاء تحریک کے دوران جیو ٹی وی کے دفتر پر حملہ ہوا اور اگلے دن قاضی صاحب مجھے کہہ رہے تھے گھبرانا نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد مجھے دھمکیاں دی گئیں تو قاضی صاحب نے فون پر کہا کہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنیوالے اور آپ کو دھمکیاں دینے والے وحشی ہیں لیکن گھبرانا نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ قاضی صاحب اپنے مرشد علامہ اقبال کی طرح اسلام اور جمہوریت کا حسین امتزاج تھے انکا دنیا سے جانا صرف انکے اہل خانہ اور جماعت اسلامی کیلئے نہیں میرے سمیت لاتعداد پاکستانیوں کیلئے بہت بڑا سانحہ ہے۔قاضی صاحب آپ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔