چین کے ساتھ مذاکرات ناکام بھی ہوسکتے ہیں

March 18, 2019

واشنگٹن : جیمس پولی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی سربراہ رابرٹ لائتھزر نے خبرفار کیا ہے کہ چین کے ساتھ ٹیرف جنگ ختم کرنے کیلئے مذاکرات ناکام ہونے کا خطرہ تھا، انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے تک پہنچنے سے قبل بڑے بڑےمسائل حل ہونے کی ضرورت ہے، اور وہ اس موقع پر کسی کامیابی کی پیشن گوئی نہیں کرسکتے۔

سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے سامنے منگل کو امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹھزر نے کہا کہ بیجنگ کے ساتھ بات چیت کی رفتار تیز ہوگئی ہے اور شاید ان کے حتمی ہفتوں میں داخل ہوگئی ہے، جیسا کہ دونوں ممالک نے ساختی اصلاحات اور نفاذ کی شرائط پر مباحثہ کیا۔تاہم رابرٹ لائتھزر نے اشارہ دیا کہ معاہدہ طے ہونا ابھی حتمی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یا تو اچھے نتائج حاصل کرلیں گے یا ہم بہت طویل عرصے کیلئے برا نتیجہ حاصل کریں گے، لیکن میں کوئی مخصوص ٹائم فریم معین نہیں کررہا ہوں اور نہ یہ مجھ پر منحصر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں جتنی کوشش کرسکا کروں گا اور صدر یا چین مجھے بتائے گا کہ اب وقت پورا ہوچکا۔

رابرٹ لائتھزر نے کہا کہ انہوں نے اور وزیر خزانہ اسٹون منچن نے پیر کو بیجنگ کے حکام سے بات چیت کی، اور انہیں بدھ کو چینی حکام کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور دور کی توقع ہے۔

امریکی اور چینی دونوں حکام کو امید تھی کہ اس ماہ کے آخر میں جنوبی فلوریڈا میں مار اے لاگو ریزورٹ میں چینی صدر شی جنگ پنگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دستخط کیلئے ایک سربراہی اجلاس طے کرنے کیلئے وہ کافی پیش رفت کرسکتے ہیں، یہ مقررہ وقت فی الحال مشکوک ہے۔

بڑی رکاوٹوں میں سے ایک امریکا کا شرائط کے سخت نفاذ کا مطالبہ یہ یقینی بنانے کیلئے کہ اگر امریکا کو اندازہ ہوا کہ معاہدے کی تضحیک کی جارہی ہے تو چین پر نئے ٹیرف عائد کرنے کے حق سمیت، چین معاہدے میں اپنے وعدوں کو پوا کرے گا۔

رابرٹ لائتھزر نے کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ہمیں ٹیرف میں اضافہ کرنے کااپنا حق برقرار رکھنے کے قابل ہونا ہوگا ۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اپنی دلیل میں رابرٹ لائتھزر پر یہ کہنے کیلئے زور دیا گیا کہ آیا ٹھوس شواہد کہ چین صنعتی سب سڈیز کو لگام ڈالنے، ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی میں کمی اور دانشورانہ ملکیت کی چوری کو کچلنے کیلئے اپنے وعدوں کو پورا کررہا سے قبل یا اس کے بعد ، امریکا تقریبا 250 ارب ڈالر کے سازوسامان کو متاثر کرنے والا موجودہ ٹیرف چین پر سے اٹھالے گا۔تاہم امریکا کے تجارتی سربراہ نے کہا کہ یہ ابھی بھی مذاکرات کاموضوع ہے۔

سینیٹ کی سماعت رسمی طور پر عالمی تجارتی تنظٰیم کے مستقبل کیلئے وقف تھی، جو امریکی صدر کی جانب سے جنیوا کی باڈی کی جب تک تشکیل نو نہ ہو سے نکلنے کی دھمکی سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کی زد میں ہے۔

رابرٹ لائتھزر نے باڈی کی امریکی رکنیت کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا، کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ موجود نہیں تو اس کے اختراع کی ضرورت ہوگی۔

رابرٹ لائتھزر نے کہا کہ عالمی تجارتی تنظیم ایک قابل قدر ادارہ ہے، اور امریکا کو تجارت پر اپنے مفادات کیلئے پیشرفت کیلئے متعدد مواقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ اس کے سنگین مسائل ہیں ،جو اارے کے دیگر اراکین کی جانب سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عالمی تجارتی تنظیم میں اس امید کے ساتھ شامل ہوئے تھے کہ یہ مستحکم اور مزید مؤثر مارکیٹ کے فروغ کیلئے ہماری مدد کرے گی۔ بدقسمتی سے یہ امیدیں اکثر مایوسی میں بدل گئیں۔

امریکا عالمی تجارتی تنظیم کی تنازع کے حل کے طریقہ کار بلاخصوص اس کی اپیلیٹ باڈی کی اصلاح چاہتا ہے،کہا کہ یہ عدلیہ تحریک کی مجرم ہے اور جو اصول وضع کیے تھے ان پر کانگریس نے کبھی بھی دستخط نہیں کئے تھے۔

امریکا نے اپیلیٹ باڈی کیلئے نئے ججوں کی تقرری کو روک رکھا ہے،ناکافی پینالسٹ ہونے کی وجہ سے جس نے دسمبر میں اس کے فرائض شروع کرنے کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔ تاہم رابرٹ لائتھزر نے مذاکراتی فورم کے طور پر اس کی فعالیت میں کمی کیلئے، تجارت کیلئے نئی رکاوٹوں کی باڈی کی نشاندہی کیلئے ممالک کو مجبور کرنے میں اس کی کمزوری کیلئے ، ابھرتی ہوئی بڑی مارکیٹوں کو ان کا بلند ٹیرف برقرار رکھنے کی اجازت دینے کیلئے اور بڑی معاشی ترقی کے باوجود ترقی پذیر ملک کی حیثیت پر عالمی تجارتی تنظیم پربھی تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اقدامات عالمی تجارتی تنظیم کو نقصان پہنچانے کیلئے نہیں لیے ہیں، بلکہ یہ یقینی بنانے کیلئے کہ یہ ابھی بھی تیزی سے بدلتی دنیا کیلئے موزوں ہے۔ مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے ہمیں اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔

جبکہ ناقدین نے امریکا کے تخلیق کردہ کثیر جہتی نظام جس سے اس نے فائدہ اٹھایا کو سبوتاژ کرنے پر رابرٹ لائھزر کے عالمی تجارتی تنظیم کی جانب جارحانہ انداز پر حملہ کیا ہے، رابرٹ لائتھزر کا مؤقف کو دونوں اہم سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں کی جانب سے ہمدردانہ طور پر سنا گیا۔

اوریگان سے ڈیموکریٹک سینیٹر رون ویڈن نے کہا کہ چین نے علامی تجارتی تنظیم کے نظام میں کمزوریاں پہچان لیں اور اپنے اقتصادی فائدوں کیلئے ان پر قابو پالیا۔ عالمی تجارتی تنظیم کی تجدید کرنا ایک مسئلہ ہے جہاں انتظامیہ بہت سخت باتوں کے بعد ناکام نہیں ہوسکتی ہے۔

آئیوا سے پینل کی ریپبلکن سربراہ چک گراسلے نے کہا کہ یہ بدقسمتی تھی کہ امریکا نے عالمی تجارتی تنظیم کی اصلاحات کیلئے توجہ حاصل کرنے کیلئے جارحانہ حکمت عملی کا استعمال کرنا پڑا تھا، تاہم پریشانیاں جائز تھیں۔

چک گریسلے نے کہا کہ میں لازمی اس نکتہ نظر کی توثیق نہیں کررہا ہوں ، لیکن اب ہم یہاں ہیں ہم حکمت عملی کا واویلا کرکےوقت ضائع نہیں کرکرسکتے ہیں۔ عالمی تجارتی تنظیم کے اراکین کو امریکا کو سنجیدگی سے لینا ہوگا اور معقول طور پر ہماری تشویش پر توجہ دینے کا وعدہ کرنا ہوگا۔