آئی ایم ایف کے اربوں کے بیل آئوٹ پیکیج، پاکستان منظم شرح مبادلہ کو مارکیٹ بنیاد پر لچکدار شرح مبادلہ سے تبدیل کرنے کو تیار

March 19, 2019

اسلام آباد(مہتاب حیدر)پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف کی سطح پر معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے آئندہ ماہ آئی ایم ایف وفد کی اسلام آباد آمد متوقع ہے۔پاکستان اربوں کے بیل آئوٹ پیکیج کے لیے منظم شرح مبادلہ کو مارکیٹ بنیاد پر لچکدار شرحمبادلہ سےتبدیل کرنے کو تیار ہے۔جس کے اطلاق کے بعد ہر سہ ماہی کے اختتام پر کرنسی مارکیٹ میں مرکزی بینک کی مداخلت خالص صفر ہوجائے گی۔اس پالیسی کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں توازن برقرار رکھنے کی راہ ہموار ہوجائے گی اور شرح مبادلہ میں توازن حاصل کرلیا جائے گا۔اس ضمن میں آئی ایم ایف وفد سے مذاکرات آئندہ ماہ کے وسط میں اس وقت ہوں گے جب آئی ایم ایف وفد پاکستان کا دورہ کرے گا۔آئی ایم ایف وفد کے نومنتخب چیف ارنیسٹو ریمی ریز ریگو آئندہ ہفتے پاکستان آئیں گے، جس کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ گھبراہٹ کا شکار ہےکیوں کہ یہ توقع کی جارہی ہے کہ مارکیٹ کی بنیاد پر لچکدار شرح مبادلہ کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دبائو بڑھ جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شرح مبادلہ کی کوئی حد نہیں ہےکیوں کہ ہم جس حقیقی موثر شرح مبادلہ کے ماڈل کو چلا رہے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 2اعشاریہ80روپے زیادہ ہے اور اس طرح کا توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔وزیر خزانہ اسد عمر بھی آئی ایم ایف/ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے 10سے12اپریل کو واشنگٹن جائیں گے۔تاہم ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ مارکیٹ زیادہ بڑی نہیں تھی اور شرح مبادلہ کا آزاد بہائو قیاس آرائیاں پیدا کرسکتا ہے۔ابتدائی اندازے کے مطابق مارکیٹ کی بنیاد پر لچکدار شرح مبادلہ کے باعث آئنے والے دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 150روپے تک پہنچ سکتی ہے۔تاہم، اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک مارکیٹ کے روزمرہ معمولات پر دخل اندازی کرسکتا ہےلیکن مخصوص اوقات ہر سہ ماہی کے اختتام کی بنیاد پر کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی کیوں کہ پاکستان کی کرنسی مارکیٹ خاصی غیر مستحکم ہے اور مکمل آزاد بہائو کے نتیجے میں قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ایک اعلیٰ عہدیدار نے پیر کے روز دی نیوز کو بتایا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ پاکستانی روپیہ اب بھی دو سے تین فیصد زائد قیمت ہے لہٰذا اسے عدم توازن کی حد میں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے دو مقاصد ہونے چاہیئے، پہلا کرنسی مارکیٹ کا تحفظ اور دوسرا غیر ملکی کرنسی ذخائر میں اضافہ۔جب پاکستان کے پاس وافر ذخائر ہوجائیں گے تو وہ اپنی مارکیٹ کا تحفظ کرلے گا ، لیکن ابھی غیر ملکی کرنسی ذخائر میں کمی واقع ہورہی ہے ، اس لیے لمبے عرصے تک کرنسی کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کا خیال ہے کہ شرح مبادلہ کا موثر انتظام مفافع بخش رہا ہےکیوں کہ جاری کھاتے کا خسارہ دسمبر 2018کے 1اعشاریہ2ارب ڈالرز سے کم ہوکر جنوری 2019میں 80کروڑ ڈالرز سے زیادہ ہوگیا ہےاور فروری 2019میں یہ 35کروڑ60لاکھ ڈالرز تک پہنچ چکا ہے۔جب عہدیدار کا اس بات کی یاددہانی کرائی گئی کہ غیر ملکی کرنسی ذخائر اب بھی گر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ بھاری ادائیگیاں ہیں ، جس نے غیر ملکی زرمبادلہ پر دبائو ڈالا ہوا ہے۔آئی ایم ایف نے اپنی ابتدائی تشخیص میں کہا تھا کہ پاکستان کو بڑھتی ہوئی میکرو اکنامک صورتحال کا سامنا ہے، جس میں ادائیگی کے توازن کا بڑا خلاء ، مالیاتی خسارہ اور سرکاری اداروں میں بڑھتا ہوا خسارہ موجود ہے۔معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا پیر کے روز کہنا تھا کہ مبادلہ کا آزاد بہائوقیاس آرائیوں میں اضافے کا باعث ہوسکتا ہے۔اس لیے پاکستان کو موثر شرح مبادلہ کی جانب جانا چاہیئے، جو یہ ظاہر کررہا ہے کہ روپیہ اب بھی 3فیصد کے قریب زائد قیمت ہے۔انہوں نے وزارت خزانہ کی صلاحیتوں پر تنقید کرتےہوئے کہا کہ جاری کھاتے کے خسارے میں کمی خوش آئند ہےتاہم روایتی ساتھیوں کی مدد سے ڈالر کے بہائومیں بہتری لانا بری طرح ناکام ہوچکا ہےاور اب حکومت کو بیرونی محاذ پر غفلت سے کام نہیں لینا چاہیے۔