پاک ملائیشیا تعلقات: نئے دور کا آغاز

March 24, 2019

یومِ پاکستان کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر جدید ملائیشیا کے معمار وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر بن محمد کی آمد اور دونوں ملکوں کے درمیان ٹیلی کام، انفارمیشن ٹیکنالوجی، حلال فوڈ اور آٹو سیکٹر میں پانچ معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط، جے ایف 17تھنڈر طیاروں اور میزائل کی خریداری میں ملائیشیا کی دلچسپی نیز ٹیکنالوجی کے تبادلے، باہمی تجارت کے فروغ اور انسدادِ بدعنوانی اور اسلامو فوبیا سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال اور اتفاقِ رائے علاوہ ازیں صدرِ مملکت کی جانب سے وزیراعظم ملائیشیا کو ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشانِ پاکستان دیا جانا فی الحقیقت دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک بامقصد، سرگرم و پرجوش نئے دور کی تمہید ہے۔ ملائیشیا عالمِ اسلام کا وہ ملک ہے جس نے پچھلی صدی کے آخری دو عشروں میں مہاتیر محمد کی قیادت میں ترقی کا سفر نہایت تیز رفتاری سے طے کرکے دنیا کے تمام ترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی ہے۔ غیر معمولی تدبر و فراست اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل اس لیڈر نے 1981ء سے 2003ء تک چار آئینی میعادوں میں ملک کے چوتھے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے محض ربر اور ٹن برآمد کرنے والے ملک کو موٹر کاروں، برقی آلات حتیٰ کہ کمپیوٹر چپس تک برآمد کرنے والا ملک بنا دیا۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے انہوں نے پہلے دس سال اپنے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرکے اور نوجوانوں کو مہارت کے حصول کے لیے بیرونِ ملک بھیج کر مختلف شعبوں کے لیے ماہرین تیار کرنے کا کام کیا اور پھر صنعتی ترقی پر بھرپور توجہ دے کر اور بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لاکر ملائیشیا کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل کر دیا۔ ان کے پچھلے دورِ حکومت میں جب ایشیائی ممالک مالی بحران سے دوچار ہوئے اور اس کے چند برس بعد جب عالمی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا ہوا تو انہوں نے کمال فراست سے اپنے ملک کو ان بحرانوں کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ مہاتیر نے ڈالر کے بجائے بارٹر یعنی مختلف ملکوں سے اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کا طریقہ اختیار کرکے مالی بحران سے بچنے کی راہ نکال لی۔ اپنی شاندار کامیابیوں اور غیر معمولی کارکردگی کے سبب وہ بیس برس اقتدار میں رہنے کے بعد بھی مقبولیت کی معراج پر تھے اور پانچویں بار بھی بآسانی وزیراعظم بن سکتے تھے لیکن نئی قیادت کی تیاری اور تربیت کے لیے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی، تاہم گزشتہ سال 93سال کی عمر میں انہیں پندرہ برس بعد دوبارہ سیاست میں آنے اور ملک کی زمامِ اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اس کا سبب اس وقت کے وزیراعظم سمیت ذمہ داران حکومت کا مبینہ طور پر قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہو جانا تھا۔ پاکستان کی ترقی میں بھی پچھلے کئی عشروں سے سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہی ہے۔ پچھلے پندرہ سولہ برسوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے مسئلے پر بڑی حد تک قابو پانے کے بعد آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کو بالعموم ووٹ اسی وعدے کی بنیاد پر ملے ہیں کہ وہ ملک کو کرپشن سے نجات دلاکر تمام قومی وسائل کا ملکی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال یقینی بنائے گی۔ لہٰذا ملائیشیا اور پاکستان کے وزرائے اعظم کا بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کا فیصلہ امید ہے کہ دونوں ملکوں کے لیے نہایت مثبت نتائج کا باعث بنے گا۔ دونوں قائدین نے انسدادِ بدعنوانی میں تعاون کے دائرے کو دوسرے ملکوں تک وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا ہے، ایسا ہو جائے تو بدعنوانی کے مسئلے پر قابو پانے میں مزید مدد ملے گی۔ پاکستان کی دفاعی صنعت میں ملائیشیا کی دلچسپی اس صنعت کے فروغ اور قومی معیشت کے استحکام میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ اسلامو فوبیا اور دہشت گردی کے معاملات میں مہاتیر محمد اور عمران خان کا یک زبان ہونا عالمی برادری کے سامنے پوری انسانیت کے اتحاد اور فلاح پر مبنی اسلام کے اصل پیغام کی اشاعت کے امکانات کو روشن کرتا ہے اور اسے حقیقت بنانے میں پوری مسلم دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔