کرکٹ کارنیول کا قصہ

March 26, 2019

پچھلے دنوں کرکٹ کارنیول کے آخری آٹھ میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلے گئے۔ کرکٹ کارنیول سے میری مراد ہے پاکستان سپر لیگ PSL۔ اچھا لگا، جیسے کراچی نے سکھ کا سانس لیا ہو۔ جیسے شہر کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ہو۔ بہت اچھا اس لئے بھی لگا کہ آٹھ دنوں تک سیاسی بک بک سننے سے ہمیں نجات مل گئی تھی۔ کرکٹ سے پیار کرنے والوں کو پاکستان کے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ دیارِ غیر میں اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی پرائی پرائی اور کھسیانی لگتی ہے۔ ایسے میں ہم میزبان کھمبا نوچتے رہتے ہیں۔ خالی خالی اسٹیڈیم میں سنچری بنانے سے وہ آنند نہیں ملتا جو آنند کھچا کھچ بھرے ہوئے اسٹیڈیم میں تیس چالیس رن بنانے سے ملتا ہے۔ جنگل میں ناچتے ہوئے بیچارے مور کو کون دیکھتا ہے! لیگ میچز میں کھیلنے کے لئے آٹھ دس کھلاڑی بیرونی ممالک سے آئے ہوئے تھے۔ ان میں عالمی شہرت رکھنے والے اے بی ڈویلیرز اور شین واٹسن شامل تھے۔ غیر ملکیوں میں سب سے نمایاں تھے سر ویون رچرڈز۔ وہ کھیلنے نہیں آئے تھے۔ اپنے دور کے سب سے پاور فل بیٹنگ کرنے والے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ دنیا کے تیز ترین بالرز کے چھکے چھڑا دیتے تھے۔ سر ایورٹن ویکس اور کلائیو والکاٹ کے بعد ویسٹ انڈیز میں شاید ہی اس قدر ہارڈ ہٹنگ (Hard Hitting) کرنے والا بیٹس مین پیدا ہوا ہو۔ سر گارفیلڈ سوبرز بھی زبردست بیٹس مین تھے، کلائیو لائیڈ اور ٹیسٹ و فرسٹ کلاس کرکٹ میں بیٹنگ کے ریکارڈ ہولڈر برائن لارا بھی بے انتہا اچھے بیٹس مین تھے، مگر ویون رچرڈز جیسا Brute Hitterکوئی نہیں تھا۔ اب وہ پینسٹھ ستر برس کے لگ بھگ ہیں۔ عمران خان کے ہم عصر ہیں۔ دنیائے کرکٹ کی معتبر شخصیات میں سے ایک ہیں۔ آپ نے برطانیہ میں سب سے بڑے سول اعزاز کا نام ضرور سنا ہوگا، Sir۔ جیسے سر رابندر ناتھ ٹیگور، سر سید احمد، سر محمد اقبال، سر ونسٹن چرچل اور سر ایڈمنڈ ہلیری جنہوں نے ہمالیہ کی چوٹی ایوریسٹ پر قدم رکھا تھا۔ اسی اعزاز سے ویون رچرڈز کو نوازا گیا تھا۔ سر ویون رچرڈز کو دیکھ کر اچھا لگا۔ سادہ سے، ہنس مکھ، کھلاڑی اور شائقین سے گھل مل گئے تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ذہنی تربیت اور حوصلہ افزائی کرنے آئے تھے۔

ماضی قریب کے سر ویون رچرڈز تنہا کھلاڑی تھے جو مجھے نیشنل اسٹیڈیم میں نظر آئے تھے۔ ہمارے اپنے ماضی قریب کے کھلاڑی کہاں تھے؟ کافی عرصہ تک چیف سلیکٹر رہنے والے انتخاب عالم کہاں تھے؟ آج سے تقریباً ساٹھ برس پہلے انیس سو ساٹھ اکسٹھ میں انتخاب عالم نے سولہ سترہ برس کی عمر میں پاکستان کی طرف سے کھیلتے ہوئے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ لیگ اسپن اور گگلی بالر تھے۔ انتخاب عالم نے اپنے پہلے ٹیسٹ کے پہلے overکی پہلی گیند پر آسٹریلیا کے بیٹس مین میکڈونلڈ کو کلین بولڈ کر دیا تھا۔ باصلاحیت تو وہ تھے ہی، باکردار، بااخلاق اور بہت اچھی شہرت رکھتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے انتخاب عالم پاکستان کرکٹ ٹیم کے کیپٹن بھی بنے تھے۔ برسوں بعد نیشنل اسٹیڈیم سجا تھا۔ محفل مچی تھی۔ رونقیں لوٹ آئیں تھیں مگر انتخاب عالم کہاں تھے؟ مجھے دکھائی نہیں دیئے۔

سینٹ پیٹرکس اسکول کے وکٹ کیپر، جنہوں نے کئی برسوں تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے وکٹ کیپنگ کی تھی، پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تھے، اور برسوں تک چیف سلیکٹر رہے تھے، وسیم باری سپر لیگ کے آٹھ میچز اور خاص طور پر فائنل میچ کی رات نیشنل اسٹیڈیم میں دکھائی نہیں دیئے۔ کہاں تھے وسیم باری؟ کیوں فائنل دیکھنے نہیں آئے؟ اگر آئے تھے تو ان کو کہاں بٹھایا گیا تھا؟

ظہیر عباس کہاں تھے؟ بے مثال بیٹس مین کیپر، امتیاز احمد کے بعد ہم نے ظہیر عباس کو Back-Footپر کھیلتے ہوئے کور ڈرائیو، اسکوائر کٹ، ہُک اور پُل شاٹ کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ رن بنانے کی مشین تھے۔ بہت بڑا اعزاز تھا ظہیر عباس کے لئے جب ان کو پیار سے ایشیا کا بریڈمین کہا اور لکھا جاتا تھا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں ان کےنام کا انکلوژر تو دکھائی دیا مگر ظہیر عباس دکھائی نہیں دیئے۔ چیف سلیکٹر رہ چکے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے اعلیٰ عہدہ پر بھی فائز رہے۔ سپر لیگ کے منتظمین نے اگر ان کو بلایا تھا تو پھر ان کو کہاں چھپا کر بٹھایا تھا؟ آج کے نوجوانوں کو اپنے دور کے بے مثال کھلاڑیوں سے ملوانا لازمی ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ میں کھیلنے جانے والے میچز کے دوران ماضی کے نامور کھلاڑیوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان کو عزت اور احترام سے بٹھایا جاتا ہے۔ ان ممالک کے کئی ایک اسٹیڈیمز میں نامور کھلاڑیوں کو بٹھانے کے لئے وی آئی پی کیبن بنے ہوئے ہیں۔ وہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوتے ہیں۔

تیز طرار کرکٹنگ ذہن رکھنے والے جاوید میانداد دکھائی نہیں دیئے۔ نوجوان میڈیا والے میچ کے دوران بار بار سپر لیگ میں کھیلنے والی ٹیموں کے مالکان کو دکھا رہے تھے، سیاستدانوں کو دکھا رہے تھے لیکن بھولے سے بھی میڈیا والوں نے ماضی اور ماضی بعید کے بے مثال کھلاڑیوں کی ایک جھلک نہیں دکھائی۔ یہ کیمرہ مین آصف اقبال کو جانتے ہیں؟ وہ مشتاق محمد اور صادق محمد کو پہچانتے ہیں؟ لیگ انتظامیہ نے ان کو بلایا تھا؟ مشتاق محمد اور صادق محمد چھوٹے بھائی ہیں حنیف محمد کے۔ مایہ ناز بیٹس مین تھے۔ اگلے وقتوں میں آج کی طرح گندی سیاست آڑے نہ آتی تو 1950اور 60کی دہائی میں چار بھائی وزیر محمد، حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد ایک ساتھ پاکستان کے لئے کھیل رہے ہوتے، ایک عالمی ریکارڈ بناتے۔ کرکٹ میں سیاسی ڈکٹیٹروں نے سب سے چھوٹے بھائی صادق محمد کو نمائندگی کا جائز حق تب دیا تھا جب انہوں نے حنیف محمد کو ریٹائر ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ کرکٹ کھیل کھیلنے والے ممالک میں All time greatsچار پانچ کھلاڑی ہوتے ہیں جن کا ذکر وہ عزت اور احترام سے کرتے ہیں اور ان کے حیرت انگیز کارناموں سے نئی نسل کے کھلاڑیوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں حنیف محمد آل ٹائم گریٹ کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ اگلی کسی کتھا میں مَیں حنیف کی ساٹھ برس پہلے کھیلی گئی ایک ایسی اننگز کا ذکر کروں گا جیسی اننگز کرکٹ کی تاریخ میں پہلے کسی نے نہ کھیلی تھی اور نہ آج تک کھیلی گئی ہے۔