چاروں طرف الاؤ ہے، داستاں کیسے کہوں

January 11, 2013

ابھی کراچی میں پولیو کے قطرے پلانے کے جرم میں لڑکیوں کے مارے جانے والے المیے میں آنکھوں میں اترا ہوا خون اور اپنی بے بسی پہ ندامت کم نہیں ہوئی تھی۔ پھردلّی میں جسمانی اذیتوں میں چور چور ماری جانے والی لڑکی کی موت کا غم، نہ سال نو منانے کی اجازت دیتا تھا کہ سال نو کا اذیت ناک دن چڑھا۔ صوابی میں وین میں سفر کرتی ہوئی سات لڑکیوں کو مار دیا گیا۔ این جی اوز میں کام کرنے والی لڑکیاں، اپنے گھروں کو چھوڑ کر، خاندانی آشوب کو ختم کرنے کے لئے دور دراز علاقوں کے فیلڈ ایریاز میں کام کرتی، دیہی لوگوں کے مسائل حل کرتی، اپنی غربت کو مسکراہٹ میں چھپا کر میلوں پیدل چلتی ہیں۔ دیہاتوں کی عورتوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے کتنی محبت اور دلداری کرنی پڑتی ہے یہ بھلا سیاست دان کیا جانیں۔ وہ بھی ایسے سیاست دان جو کہہ دیتے ہیں کہ عورت، اپنے شوہر سے زیادہ اپنے زیور سے پیار کرتی ہے۔ پاکستان کی بیشتر عورتیں اول تو اس مالی حیثیت میں ہی نہیں ہیں کہ سجنے سنورنے اور سونا پہننے کے خواب ہی دیکھ سکیں۔یہ پاکستان کی عورت کے بارے میں ایک پڑھے لکھے مرد کے یہ تاثرات ہوں گے تو کب جانیں گے وہ لوگ کہ کھیت سے لیکر دودھ دوھنے اور چارہ کاٹنے کا کام ایک طرف عورت کرتی ہے اور دوسری طرف کمپیوٹر چلانے سے لیکر گھر کی دال روٹی کی فکر بھی 80% عورتوں ہی کو کرنا ہوتی ہے۔ دلّی میں مرنے والی لڑکی نے ہوش میں آنے کے بعد ایک ہی فقرہ کہا تھا ”میں جینا چاہتی ہوں“ وہ بچیاں بھی جو صوابی میں فیلڈ ایریا کو جاتے ہوئے ماری گئیں ان کے خواب کن ظالموں نے چرا لئے، دہشت گردوں کو آزماتے ہوئے پورے بارہ سال ہو گئے ہیں ہمارے سارے سربراہان چاہے فوجی ہوں کہ سویلین، بار بار یہ کہتے ہیں کہ اب برداشت نہیں کیا جائے گا اس دوران وہ ایک اور حملہ کر دیتے ہیں۔ان لڑکیوں کے بعد صوابی میں ایک لڑکیوں کا اسکول بھی تباہ کردیا گیا۔ کراچی میں مسلسل بوری بند لاشیں مل رہی ہیں۔ شاہ زیب جیسے خوبرو نوجوان کو مار دینے کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کن ظالموں نے یہ حرکت کی ہے۔ میں بہت حد تک اپنی توجہ ان صدمات اور ہولناک واقعات سے ہٹانا چاہتی ہوں۔ کبھی پاکستان کو کرکٹ میں جیتتا دیکھ کر خوش ہونے اور خوش رہنے کی کوشش کرتی ہوں،کبھی اسلام آباد میں دھند سے بیزار ہوکر گیس کا چولہا جلانے کی کوشش کرتی ہوں مگر پائلٹ تک نہیں جلتا، کچی روٹی کھائی نہیں جاتی، بازار سے چھ روپے کی روٹی منگوائی نہیں جاتی پھر وہی ڈپریشن والی باتیں چلی آئیں آپ کو ایک نئے ادبی گروپ سے متعارف کراتی ہوں۔
یہ لوگ کوئی رسالہ نہیں نکالتے، کمپیوٹر پہ ہر تین ماہ بعد، دنیا بھر کے نمائندہ ادیبوں کی تخلیقات مجتمع کر کے، رسالہ بنا لیتے ہیں۔ پہلے یہ ایک مخصوص حلقہ تھا اب تو یہ دنیا بھر میں پھیل گیا ہے۔ اس رسالے میں زیادہ تر شاعری ہوتی ہے۔ طریق کار یہ ہے کہ کوشش کرتے ہیں کہ نظم کے ہر مصرعے کا معنوی اور لغوی مطلب پہلے سمجھ لیا جائے پھر اس کو نظم کی صورت میں مرتب کر لیا جائے، علاوہ ازیں جو لوگ ترجمہ کر کے بھیج دیں ان کی شاعری کی پرت اور چولیں ٹھیک طرح چیک کر کے پھر اسے شمارے میں شامل کیا جاتا ہے۔ ویسے تو اب نیوز ویک بھی پرنٹ آرڈر میں شائع نہیں ہوتا ہے۔ آپ اس کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں بڑا اچھا یہ ہے کہ اب تو پاکستان کے سارے اخباروں میں پڑھنے کی خبر تو ہوتی نہیں کہ وہ میڈیا پہ اتنی مرتبہ آپ سن چکے ہوتے ہیں کہ کان پک گئے ہوتے ہیں۔ اگرکوئی چیز قابل توجہ ہوتی ہے تو وہ چند کالم اب تو تمام اخبار آن لائن ہونے کے باعث نیٹ پر پڑھے جا سکتے ہیں۔
شاعری کا شمارہ جس کا نام بڑا مشکل ہے ریاضی کی ایک ٹرم ہے جس میں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ دو لائنیں متوازی بھی نہیں مگر آپس میں ملتی بھی نہیں، یہی حال ترجمے کا بھی ہوتا ہے۔ بہت مشہور شاعروں اور ناول نگاروں مثلاً نرودا اور مارکیز کے مترجم جب احوال سناتے ہیں کہ ترجمہ کرتے ہوئے انہیں کس طرح اس علاقے کی تہذیب، معاشرت اور لوگوں کی عام بول چال کو سمجھنا پڑا۔ پھر ترجمے کی جانب رخ کیا میری کتاب ” بری عورت کی کتھا“ کا جب ترجمہ سومرو کر رہی تھیں تو وہ ہر روز فون کر کے کبھی ”پجمیا“ کا مطلب پوچھتیں تو کبھی ”دریا میں نیم جمانے آئی تھیں“ کا مطلب پوچھتیں۔ اسی طرح کھانوں کے نام اور انگریزی مصنفین کے نام کے اصل اسپیلنگ بھی پوچھتیں۔ نیٹ پر تلاش کرتیں اور لائبریریوں میں جا کر ڈھونڈتیں۔ گویا ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہمارے ہاں دہری قباحت ہے کچھ لوگ اپنی مرضی سے ترجمہ کر لیتے ہیں یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کس ثقافت کی نمائندہ نظم ہے۔ ایک اور ترجمہ کا انداز ہے کہ اردو شاعری کے وزن میں اس نظم کا ترجمہ کرتے ہیں اور اصل مطلب کو بھول کر اپنے قافیے اور اپنی ردیف استعمال کرتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کوئی دارالترجمہ ہے ہی نہیں۔ کوئی ورکشاپ بھی نہیں ہوتی، جس کے ہاتھ جو نظمیں لگ جائیں وہ فوراً کاغذ قلم لیکر بیٹھ جاتا ہے اور اتنی ہی تیزی سے کسی رسالے کی جانب روانہ کر دیتا ہے، لوگ ہیں کہ آج تک شیکسپیئر اور آسکر وائلڈ کا ترجمہ کر رہے ہیں اب ہم کہتے تو ہیں کہ War & Peace کا بہت اچھا ترجمہ حمید شاہد نے کیا ہے مگر اتنے بڑے ناول کا تقابلی مطالعہ کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ہے۔ مسعود اشعر کا ادارہ بھی تراجم کا کام ہی کرتا ہے مگر صحت معنی کا شکوہ ہر ترجمے میں موجود رہتا ہے۔ اسی طرح جب کسی کو نوبل انعام ملتا ہے تو فوراً اس کے ترجمے ہو کر ساری دنیا کے ایئرپورٹ کی دکانوں سے لیکر عام بازار میں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس سال کے نوبل انعام یافتہ مویا کی کتابیں پڑھ کر لگتا ہے سیاست اور سفارش دونوں ہی ہرجگہ کام کرتی ہیں۔