’’شبِ معراج‘‘ جب سرکارِ دو جہاںﷺ فرشِ زمیں سے عرشِ بریں تک پہنچے

April 03, 2019

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق

رحمۃ للعالمین سیدالمرسلین جناب نبی کریمﷺ سارے نبیوں کے سردارہیں،ہرنبی کواللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی معجزہ عطا فرمایا مگر حضوراکرمﷺ کودو معجزے ایسے عطافرمائے گئے جو پہلے کسی نبی کوعطانہ ہوئے۔ ایک معجزہ قرآن مجیدکا ہے جوآج تک اپنی اصلی حالت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور تاقیامت موجودرہے گا۔دوسرا عظیم معجزہ واقعۂ معراج ہے۔ جب نبی کریمﷺ بے کسی کے عالم میں مظلومانہ دین کی دعوت دے رہے تھے،مکہ مکرمہ میں کفارکے ہاتھوں آپ نے تمام تکلیفیں برداشت کی تھیں،انسانی تصورسے بالاتر مظالم کے پہاڑ آپ پر توڑے گئے تھے۔ شعب ابی طالب میں تین سال قیدوبنداورسوشل بائیکاٹ کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدآپ نے طائف کاسفرفرمایا،اس میں بھی کفارکی جانب سے وہ مظالم ڈھائے گئے، جن کابیان دشوارہے۔کوئی آپ کی دعوت، آپ کی بات سننے کو تیار نہ تھا، سوائے چندخوش نصیبوں کے،پھربھی آپ اللہ کاپیغام لےکر لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے، مگروہ آپ کی گفتگوکی طرف کان لگانے پرآمادہ نہ تھے۔غرض تکالیف کی تمام گزرگاہوں سے پارہوجانے کے بعدسن۱۱؍نبوی میںراجح قول کے مطابق ماہ رجب ۲۷؍ویں شب کواللہ تعالیٰ نے پیارے محبوبﷺ کورازونیازکے لئے عالمِ بالااورملائے اعلیٰ کی طرف بےداری میں اور جسدِ عنصری کے ساتھ اٹھایا اور معراج کروا کر دنیا والوں کو بتا دیا کہ! تم میرے محبوب پیغمبرکاپیغام نہیں سنتے، ان کی عزت اورقدر نہیں کرتے ،بلکہ ان کی توہین اورگستاخی کے مرتکب ہوئے ہو،دیکھ لواب ہم اپنے اس عظیم بندے کی کیاعزت کرتے ہیں اورانہیں کیامقام دیتے ہیں،کن عظمتوں اوربرکتوں سے نوازتے ہیں،تم انہیں زمین پرٹھکرارہے ہو،ہم انہیںعرش پربلائیں گے،تم انہیں سلام کرنے کے لئے تیارنہیں ،ہم انہیں فرشتوں کی سلامی دلائیں گے،تم انہیں اپنا امام نہیں مان رہے، ہم انہیں نبیوں ،رسولوں اور فرشتوں کا امام بنا کر دکھاتے ہیں۔ دیکھو بیت المقدس کے امام کوجس کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء ؑنمازپڑھ رہے ہیں،وہ مکہ اوراس کے اطراف کے گلی کوچوں میں دین کاپیغام پیدل پہنچارہے ہیں، ان کے پاس سواری کاکوئی انتظام نہیں ہے ،مگرہم انہیںبجلی سے تیزسواری دے رہے ہیں،روح الامین جس کی رکاب تھامے ہوئے ہیں ۔ تم میرے عظیم پیغمبر کو اہمیت نہیں دے رہے، ذرا دیکھو فرشتوں کا سردار ان کی غلامی کررہا ہے،جس کی حیثیت پہچاننے میں تمہاری نظریں خطا کررہی ہیں، میرے نزدیک وہ سب سے معززہے،اسے میں اپنا دیدار کرارہا ہوں۔

انبیاء علیہم السلام کے بلندمراتب ملاحظہ کیجئے، حضرت آدم علیہ السلام کی معراج سجودِملائک سے ہوئی،حضرے ابراہیم ؑکی معراج آگ کے گل گلزارہونے میں ہوئی،حضرت نوحؑ کی معراج عالمی طوفان میں ہوئی،حضرت اسماعیل ؑکی معراج چھری کے نیچے ہوئی،حضرت یحییٰ ؑکی معراج آرہ سے چیراکرہوئی،حضرت موسیٰ ؑکی معراج کوہِ طورپراللہ سے ہم کلامی میں ہوئی،حضرت عیسیٰؑ کی معراج یہودیوں کے حملہ کے وقت ہوئی،اوران سب سے بڑھ کرمعراج بلکہ معارج کی انتہاء ہمارے آقا و سردار سیدنامحمدمصطفیٰﷺ کو نصیب ہوئی،اور وہ بھی تمام وسائل اورآلاتِ جدیدہ کے بغیراس مقام وبلندیوں تک پہنچے ،جہاں سائنس کی رسائی بھی نہیں۔ محدث العصر علامہ سید محمدیوسف بنوریؒ لکھتے ہیں’’پھراس پربھی غور کیجئے کہ اربوں کھربوںتاروں میں زمین سے قریب ترچاند تھاجس کی دوری دولاکھ اڑتیس ہزارمیل بتائی جاتی ہے ،اس تک پہنچنے کے لئے ڈرتے ڈرتے کھربوں روپیہ خرچ کیا،سالہاسال تک اعلیٰ ترین دماغوں نے عرق ریزی کی، تب کہیں جاکرانسان چاند پر پہنچ کرکچھ ریت اورپتھرلے آیا،اگریہ رقم تمام عالم کے محتاجوں میں تقسیم کی جاتی توشایددنیامیں کوئی فقیر نہ رہتا۔ دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کی بلندیٔ مراتب کاتصورکیجئے،خاتم الانبیاء علیہ السلام کوان اسباب وتدابیر،آلات و وسائل کے بغیرجب چاہا آسمانوں کی سیر کرادی، فضائے بسیط کاسارافاصلہ چندلمحوں میں طے کرادیا اور آنًافانًا تمام آسمانوں سے اوپر پہنچادیا، رفعتِ انسانی کی تمام حدیں پست رہ گئیں،اورملکوتِ الہٰیہ کے وہ عجائبات دکھلادیئے کہ نسلِ انسانی اسباب کے دائرے میں کروڑوں برس تک تحقیقات اورمحنت کرے، مگرناممکن ہے کہ اس کالاکھواں حصہ بھی حاصل کرسکے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ سرورکونین ﷺ کواللہ نے خودآسمانوں پربلایا، نبیوں فرشتوں کاامام بنایا،آسمانوںپرفرشتوں سے استقبال کرایا،نبیوںسے ملاقات کرائی،جنت ودوزخ دکھلائی،اعمال نیک وبدپرملنے والی جزاوسزادکھائی،ملکوت ارض وسماء دکھائے،عرش دکھایا،کرسی دکھائی اورپھراپنے دیدارکاشرف عطاکرکے خصوصی ہم کلامی کی دولت عظمیٰ سے نوازا،اہم احکامات عطا فرمائے، نماز ملی اورمشرک کے علاوہ سب کے لئے معافی کاپروانہ ملا۔کچھ شک نہیں کہ معراج نبی کریم ﷺکے مقامات اعلیٰ میں سے ایک اونچامقام ہے ،لیکن یہ بات بھی غورطلب ہے کہ اس واقعے کے ذکرمیں اللہ تعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اورسورۂ نجم میں بھی ’’عبد‘‘کالفظ استعمال فرمایاہے،رسول اللہ ﷺکی شان عبدیت کوبیان فرمایاہے،تاکہ مخلوق الہٰی خوب سمجھ لیں اوراچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اس مقدس ہستی کے لئے بھی جس کی شان’’بعدازخدابزرگ توئی قصہ مختصر‘‘سے آشکاراہے،سب سے بلندترین مقام عبودیت ہی کاہے اورکسی کویہ وہم نہ ہوجائے کہ آپ کی حیثیت عبدیت سے آگے بڑھ گئی،اورآپ کی شان میں کوئی ایسااعتقادنہ کرلے کہ مقام عبدیت سے آگے بڑھاکراللہ تعالیٰ کی شانِ الوہیت میںشریک قرارنہ دے دے اور جیسے نصاریٰ حضرت عیسیٰ ؑکی شان میںغلوکرکے گمراہ ہوئے، اس طرح کی کوئی گمراہی امت محمدیہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والسلام میں نہ آجائے۔اورامت محمدیہ کو بھی ا سی مقام عبودیت میں ارتقاء کی ہدایت کی گئی ہے۔ بے شک حضورﷺ کے اس فرمان کہ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘کے معانی بھی اس نکتے سے حل ہوتے ہیں ،کیونکہ اظہارِعبودیت وبیان عجزوافتقاراورتشکل بندگی کے لئے نمازسے بڑھ کر اور کوئی صورت نہیں۔

سدرۃُ المنتہیٰ

’’سدرہ‘‘ بیری کا ایک درخت ہے، جس کی جڑیں چھٹے آسمان میں اور تنا ساتویں آسمان میں ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر مقامِ حجر کے مٹکوں کے برابر بیر ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر ہیں اور اس کے تنے سے دو دریا ظاہری اور دو باطنی نکل رہے ہیں۔باطنی دریا تو جنت میںہے،جب کہ ظاہری دریا فرات اور دجلہ ہیں۔(صحیح مسلم)

سدرہ میں تین اوصاف ہیں (۱)اس کا سایہ بہت لمبا ہے (۲)اس کے پھلوں کا ذائقہ بہت لذیذ ہے۔(۳)اس کی خوشبو انتہائی نفیس ہے۔

سدرہ کو سونے کی دھات سے بنے پروانوں نے ڈھانپ رکھا ہے۔(صحیح مسلم)

سدرہ کو منتہیٰ کہنے کے متعلق مختلف اقوال ہیں ۔ حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا:تمام انبیاء(سوائے تاجدارِ انبیاءﷺ )کے علوم کی انتہا سدرہ پر ہوتی ہے۔ حضرت ضحاک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اعمال کے اوپر چڑھنے کی انتہا سدرہ پر ہوتی ہے، وہاں سے انہیں وصول کر لیا جاتاہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مسلمانوں کی روحوں کی انتہا سدرہ پر ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے والے ہر شخص کی انتہا سدرہ پر ہے۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:فرشتوں اور عام نبیوں کی انتہا سدرہ پر ہے۔

بیت المقدس میں انبیائےسابقین ؑکے خطبات

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بایں الفاظ اللہ رب العزت کی حمد و ستائش کی:’’تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیں‘ جس نے ابراہیم ؑکو خلیل بنایا اور جس نے مجھے عظیم ملک دیا اور مجھے اللہ سے ڈرنے والی امت بنایا۔ میری پیروی کی جاتی ہے، مجھے آگ سے بچایا اور اس آگ کو میرے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کردیا‘‘۔پھر حضرت دائود علیہ السلام نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے کہا:’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیںجس نے مجھے حکومت کی نعمت دی اور مجھ پر زبور نازل کی اور لوہے کو میرے لیے نرم کردیا، پرندوںاور پہاڑوںکو میرے لیے مسخر کردیا اور مجھے حکمت دی اور فیصلہ سنانے کا منصب دیا‘‘۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیں ،جس نے میرے لیے ہوائوںکو‘جنّاتکو اور انسانوںکو مسخر کردیا، میرے لیے شیاطین کو مسخر کردیا جو عمارتیں اور مجسمے بناتے تھے ، مجھے پرندوںکی بولی سکھائی اور ہرچیز سکھائی‘ میرے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور مجھے ایسا عظیم ملک دیا جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب کی ثنا کرتے ہوئے کہا:’’تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیں،جس نے مجھے تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور مجھے مادر زاد اندھوںاور برص والوںکو ٹھیک کرنے والا بنایا ، میںاس کے اذن سے مُردوںکو زندہ کرتا ہوں ، مجھے آسمان پر اٹھایا اور کفار سے نجات دی ، مجھے اور میری والدہ کو شیطان رجیم سے محفوظ رکھا، اور شیطان کا ان پر کوئی زور نہیںہے‘‘۔ سب سے آخر میں سالارِانبیاء احمد مجتبیٰ محمد ِ مصطفیٰ ﷺنے اپنے رب کی تعریف وثناء ان الفاظ میں فرمائی :’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں،جس نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا اور تمام لوگوںکے لیے مجھےبشیر اور نذیر بنایا ، مجھ پر قرآن مجید نازل کیا جس میںہر چیز کا واضحبیان ہے اور میری امت کو تمام امتوںسے بہتر بنایا اور میری امت کو امت وسط بنایا ، میری امت کو امت اول بنایا اور میری امت کو امت آخر بنایا اور میرا سینہ کھول دیا اور مجھ سے بوجھ اتاردیا اور میرا ذکر بلند کیا اور مجھے ابتداء کرنے والا اور انتہاء کرنے والا بنایا۔