دوحہ مذاکرات اور پاکستان

April 13, 2019

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والے دو روزہ امن مذاکرات میں پاکستان شریک نہیں ہوگا، تاہم ماضی کی طرح آئندہ بھی پاکستان برادر ملک میں پائیدار امن کی کوششوں کی حمایت اور اس کے لئے سہولت کاری جاری رکھے گا، پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں گزشتہ روز کی گئی اس صراحت سے واضح ہے پاکستان کی اصل دلچسپی افغانستان میں عشروں سے جاری بدامنی و خوں ریزی کے جلد از جلد خاتمے میں ہے اور اس مقصد کا حصول جس طرح بھی ممکن ہو، پاکستان اس میں تعاون کرنے کو تیار ہے لیکن امریکہ کی خواہش کے مطابق طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان نے جو بنیادی کردار ادا کیا ہے، اس کے پیش نظر مذاکراتی عمل کے موجودہ مرحلے سے پاکستان کا باہر رہنا بہرحال وضاحت طلب ہے۔ اس فیصلے کا کوئی سبب پاکستانی حکام نے تو نہیں بتایا لیکن برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ سے اس کا کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے گزشتہ ہفتے اپنے دورۂ اسلام آباد سے قبل افغانستان میں اپنے ایک وڈیو بیان میں کہا تھا ’’پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہوں گے جب تک اسلام آباد، کابل میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی نہیں کرتا‘‘۔ اس بیان میں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ’’افغانستان میں امن کے لیے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بھی ایک معاہدہ طے پائے گا جس کا مقصد پاکستان کا افغانستان میں تعمیری کردار اور پاکستان کی طرف سے افغانستان میں مداخلت کو روکنا ہوگا‘‘ جبکہ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے زلمے خلیل زاد کی آمد پر اس موقف کو دہرایا تھا کہ ’’پاکستان اپنے قومی مفاد کا خیال رکھے گا‘‘۔ پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر کو ہوا دینے والے اس بیان کے بعد اسلام آباد میں امریکی نمائندہ خصوصی اور وزیر خارجہ پاکستان کی سربراہی میں امریکی اور پاکستانی وفود کے درمیان مذاکرات ہوئے جن میں افغان مفاہمتی عمل میں ہونے والی پیشرفت سمیت، خطے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے اہم دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ زلمے خلیل زاد نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ پاکستان سے واپسی پر انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ایک بیان میں پاکستان کی جانب سے طالبان رہنماؤں کو سفری سہولتیں دینے پر شکر گزاری کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ افغان امن کے لیے پاکستان اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا۔ مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے پاکستان کے عزم کو سراہتے ہوئے اپنے بیان میں انہوں نے افغان امن عمل کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا۔ زلمے خلیل زاد کے دورۂ پاکستان کے حوالے سے امریکی سفارت خانے کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکی نمائندہ خصوصی نے 5اور 6اپریل کو پاکستان کا دورہ کیا اور اعلیٰ سول اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے، امریکہ توقع رکھتا ہے کہ پاکستان اس عمل میں اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا۔ زلمے خلیل زاد کی جانب سے افغانستان میں پاکستان کے بارے میں منفی تاثر پر مبنی اظہارِ خیال اور دورۂ پاکستان کے بعد پاکستان سے مثبت رویے کے جاری رکھنے کی توقعات کا اظہار واضح طور پر متضاد طرزِ عمل ہے جس کی اصلاح ناگزیر ہے۔ اگر پاکستانی حکام نے اس بنا پر امن مذاکرات کے نئے مرحلے میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ یقیناً قومی خودداری کا اچھا مظاہرہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے جس کا مناسب ترین فورم پارلیمنٹ ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس منتخب پالیسی ساز ادارے میں معاملے کے تمام پہلو زیر بحث لاکر قومی مفاد کے مطابق حکمت عملی وضع کی جائے۔