پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کا جائزہ

April 15, 2019

آزاد تجارتی معاہدہ (FTA)دو یا دو سے زائد ممالک کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت متعلقہ ممالک ٹیرف کی پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے آپس میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی 60فیصد سے زائد تجارت تقریباً 300سے زائد باہمی اور علاقائی معاہدوں کے تحت ہورہی ہے، پاک چین آزاد تجارتی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پاکستان اور چین نے تجارت کے فروغ کیلئے دونوں ممالک کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ (CPFTA)نومبر 2006ءکو کیا تھا، جس پر 2007سے عملدرآمد شروع کیا گیا، جس میں پاکستان نے چین کو 6711اور چین نے پاکستان کو 6418 مصنوعات پر ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دی تھی۔ یہ معاہدہ 5سالوں کیلئے تھا، جس کی مدت 2012ءمیں ختم ہو گئی، جس کے بعد آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کیلئے مذاکرات کے 7رائونڈ ہوئے لیکن 2017 تک انہیں کوئی حتمی شکل نہیں دی جا سکی۔ پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کے فیز 1میں بزنس کمیونٹی کو بے انتہا تحفظات تھے کہ معاہدے کو اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر جلدی میں سائن کیا گیا، جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ کیلئے مناسب حفاظتی اقدامات (SGM)نہیں کئے گئے اور چین سے امپورٹ بڑھنے کی صورت میں ادائیگیوں کی مشکلات اور معاہدے کے جائزے کیلئے کوئی شق نہیں رکھی گئی، جو WTOکے تحت FTAsمیں رکھی جاتی ہیں۔ انڈرانوائسنگ کے باوجود چین کی پاکستان ایکسپورٹ 16.9ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ بمشکل 2.2ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکی ہے، جس میں زیادہ تر کاٹن یارن اور فیبرک شامل ہیں۔ اس طرح پاک چین تجارت میں 14.7ارب ڈالر سالانہ سرپلس چین کے حق میں ہے۔ چین نے FTAمراعات کا 60فیصد جبکہ پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا، جس کی وجہ سے چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ 4.2ارب ڈالر سے بڑھکر 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ 0.6ارب ڈالر سے بڑھ کر صرف 2ارب ڈالر تک پہنچ سکی ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تجارتی معاہدے سے چین کوزیادہ فائدہ ہوا جبکہ پاکستان نے ڈیوٹی فری رسائی دے کر نہ صرف کسٹم ڈیوٹی کی مد میں خطیر ریونیو کا نقصان کیا بلکہ سستی چینی مصنوعات سے بے شمار مقامی صنعتیں غیر مقابلاتی ہونے کی وجہ سے بند ہو گئیں۔ فیز 2معاہدے میں چین پاکستان کی 1059مصنوعات میں سے 520مصنوعات کو (49فیصد)رعایتی ڈیوٹی ایکسپورٹ کرنے کیلئے رضامند ہو گیا ہے جبکہ پاکستان نے چین کو 1349مصنوعات میں سے 797مصنوعات کو (59فیصد) کی رعایتی ڈیوٹی ایکسپورٹ کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ پاکستان نے 313مصنوعات جس میں ٹیکسٹائل مصنوعات بھی شامل ہیں، پر چین سے آسیان ممالک کا ٹیرف مانگا ہے۔ یہ 313مصنوعات پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ کا 51.5فیصدہیں۔

پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ میں کمی کی ایک اہم وجہ چین کا آسیان ممالک جن میں انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، ملائیشیا، فلپائن، ویت نام، کمبوڈیا، برونائی، میانمار اور لائوس شامل ہیں، کو چین کا ڈیوٹی فری ٹیرف دینا ہے، جس کی وجہ سے آسیان ممالک کی چین کو ایکسپورٹ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان آسیان کا ممبر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی مصنوعات چین ایکسپورٹ کرنے پر 10فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر حلال گوشت یا چاول اگر آسیان ممبر ویت نام سے چین ایکسپورٹ کرے تو ان پر کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں لیکن ان کی پاکستان سے چین ایکسپورٹ پر ڈیوٹی ہے۔ پاکستان نے آسیان کی ممبر شپ کیلئے کوشش کی تھی لیکن سنگاپور کے بھارتی نژاد وزیر کی مخالفت پر ممبر شپ نہیں دی گئی لہٰذا آسیان کی مراعات حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو آسیان ممالک کے ساتھ بھی PTAیا FTAسائن کرنا ہو گا۔ جس طرح چین، جنوبی کوریا، جاپان، بھارت اور نیوزی لینڈ کے ساتھ آسیان نے FTAسائن کئے ہیں جس کی بنیاد پر ان ممالک کو آسیان ممبر ممالک کی مراعات حاصل ہو گئی ہیں جس سے بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چین جو پاکستانی کاٹن یارن کی سب سے بڑی مارکیٹ تھی لیکن بھارت کے مقابلے میں پاکستانی یارن پر 4فیصد کسٹم ڈیوٹی ہونے کی وجہ سے اب چین بھارتی یارن کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا ہے۔ پاکستان نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کو بھی آسیان ممالک کا رعایتی ٹیرف دے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے انڈرانوائسنگ کنٹرول کرنے کیلئے چین سے تمام شپمنٹ پر الیکٹرونک ڈیٹا ایکسچینج (EDE)سسٹم کے تحت پاکستان کسٹم کو معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ انڈرانوائسنگ کو روکا جا سکے۔ پاکستان کی مختلف ایسوسی ایشنز نے پاک چین آزاد تجارتی معاہدے فیز 2کیلئے 1428مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنیکی درخواست کی تھی، جس میں سے 1171 مصنوعات کو تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ اسکے علاوہ چین پاکستان سے ایک ارب ڈالر کی شکر، چاول اور کاٹن یارن کی ایکسپورٹ کے علاوہ گیہوں، آلو، پیاز اور چیری کو بھی مارکیٹ رسائی دینے پر تیار ہو گیا ہے۔ اس موقع پر میں وزارت تجارت کے ایڈیشنل سیکریٹری جاوید اکبر بھٹی اور جوائنٹ سیکریٹری شفیق شہزادجو وزیراعظم کے مشیر رزاق دائود کے ساتھ گزشتہ دنوں پاک چین آزاد تجارتی معاہدے فیز 2پر مشاورت کیلئے کراچی آئے تھے، جنہوں نے پاک چین آزاد تجارتی معاہدے فیز 2کیلئے چین کے ساتھ موثر مذاکرات کئے۔ وزیراعظم عمران خان ممتاز بزنس مینوں کیساتھ 27اپریل کو دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کیلئے چین جا رہے ہیں، جہاں وہ پاک چین آزاد تجارتی معاہدے کے فیز 2پر بھی دستخط کریں گے جس کیلئے وزارت تجارت کی مذاکراتی ٹیم پہلے ہی بیجنگ میں موجود ہے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ نئے معاہدے کے بعد پاک چین تجارت کا حجم 20ارب ڈالر ہوجائے گا اور تجارتی توازن پہلے کے مقابلے میں پاکستان کے حق میں بہتر ہوگا۔

وضاحت: میرے گزشتہ کالم میں ایمنسٹی اسکیم کی آخری تاریخ غلط تحریر ہو گئی تھی۔ صحیح تاریخ 30جون 2018تھی، جس کو بڑھاکر 31جولائی 2018کردیا گیا تھا۔