ای او بی آئی کا غیر قانونی ادارہ ’پرائماکو‘ شعبہ تعمیرات میں مصروف

April 17, 2019

کراچی (اسد ابن حسن) 800ارب کی مالی حیثیت رکھنے والے ادارے ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) حالیہ برسوں میں پنشنرز کو ان کی پہلے 5500 اور اب 6500 ماہانہ ادا کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کررہا ہے، مگر اس کے باوجود اربوں روپے کی رئیل اسٹیٹ جس میں کمرشل پلازے (ماضی میں کراچی کے عوامی مرکز کو چلانے کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے اور اب وہ ڈیفالٹ ہونے کی نہج پر پہنچ گیا ہے۔) سینما اور ہوٹل کی تعمیر میں مصروف ہے۔ یہ پراجیکٹس 2008ء سے 2012ء تک شروع کیے گئے جن کی تعمیری لاگت 15ارب روپے کی تصور کی گئی مگر 7برس گزرنے کے بعد اور تعمیری لاگت بڑھنے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکے ہیں، مذکورہ تعمیرات اب ای او بی آئی کے غیر قانونی طور پر بنائے گئے ذیلی ادارے ’پرائماکو‘ کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے ادارے کے سربراہ اظہر حمید کا کہنا تھا کہ ادارے کو ادائیگیوں میں مشکلات اٹھارویں ترمیم کے بعد پیش آرہی ہیں اور ذیلی ادارہ ’پرائماکو‘ ’’قانون‘‘ کے مطابق وجود میں آیا اور بالکل ٹھیک کام کررہا ہے۔ ’’جنگ‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق 2007ء تک ای او بی آئی ایک منافع بخش ادارہ سمجھا جاتا تھا اور پنشن کی ادائیگیاں بھی کافی حد تک وقت پر کی جاتی تھیں پھر جب سابق چیئرمین ظفراللہ گوندل اور ان کے حواریوں نے امانتی رقم میں ہیر پھیر شروع کی اور مبینہ طور پر ادارے کا بیشتر پیسہ اراضی کی خریداری پر خرچ کرنا شروع کیا، درجنوں اراضی مارکیٹ ویلیو سے کہیں زیادہ پر خریدیں، ایک قطعہ اراضی کی ویلیو ایک ارب تھی اس کو دو ارب میں خرید لیا کیونکہ ایک ارب سب کرپٹ افسران میں تقسیم ہونا تھا، اس طرح ادارے کے سینکڑوں ایکڑ اراضی کی غیر شفاف خریداری سے 100ارب سے زائد کا مبینہ نقصان پہنچایا گیا۔ ان گھپلوں پر ادارے کے افسران پر 50سے زائد مقدمات قائم ہوئے جس میں صرف 18 زمینوں کی خریداری سے متعلق ہیں اور تمام مقدمات میں مرکزی ملزم ظفراللہ گوندل اور ان کے حواری، 10دیگر ملازمین نامزد ہوئے اور تمام مقدمات زیرالتوا ہیں۔ اس دور کی تمام بدنامی، بے عزتی اور مقدمات کے باوجود ای او بی آئی کے ملازمین اور ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور لوٹ مار جاری رکھی۔ دستاویزات کے مطابق ای او بی آئی ایکٹ1976کے تحت ادارہ منافع کمانے کیلئے 25فیصد رئیل اسٹیٹ میں، 25فیصد اسٹاک مارکیٹ میں اور 50فیصد گورنمنٹ سکیورٹیز میں سرمایہ کاری کرنے کا پابند تھا مگر زیادہ تر رقم رئیل اسٹیٹ میں مشکوک خریداریوں میں لگا دی گئی۔