ادارے کون ٹھیک کرے گا؟

April 20, 2019

پاکستان اِس وقت جس ڈگر پر رواں دواں ہے، اُس پر چین چار دہائیاں قبل روانہ ہوا تھا۔ بے راہروی کی شکار قوم کو صرف ایک لیڈر مائوزے تنگ نے ترقی کی ایسی راہ پر گامزن کیا، جس نے آج پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ مائوزے تنگ نے اِس سفر کا آغاز کرپشن کے خلاف سخت فیصلوں سے کیا اور جلد ہی اُس نے چین سے کرپشن ختم کرکے اُسے ایک عظیم طاقت بنا دیا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی اِس وقت چین کی طرح کرپشن کے خاتمہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عمران خان نے سیاسی و فکری انقلاب کے ذریعے قوم کو یہ سمجھا دیا ہے کہ اُن کے حقوق کیا ہیں اور اُن پر ڈاکہ کیسے ڈالا جاتا ہے۔ عمران خان فلاحی ریاست کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنے وژن پر عمل پیرا ہیں، وہ سچے دل سے نئے پاکستان کے قیام میں اپنی تمام تر توانیاں صرف کر رہے ہیں۔ وہ عوام کے مسائل بخوبی جانتے ہیں، جن کے ازالہ کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں عوام کی خدمت کا جو موقع دیا ہے، اُس پر پورا اترنے کیلئے وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گے۔ اِسی لئے اُنہوں نے اپنی کابینہ کے اہم رکن اسد عمر کو وزارتِ خزانہ کی مسند سے ہٹا دیا ہے کہ آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی وہ عوام کی مشکلات میں کوئی کمی اور ملکی معیشت میں بہتری نہیں لا سکے۔

مملکت ِخداداد پاکستان، مسلمانانِ برصغیر کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آئی۔ علامہ اقبالؒ کا خواب اور قائداعظم ؒ کا تصورِ پاکستان ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا، جو خود مختار ہو، جہاں حقیقی جمہوری نظام قائم ہو، معاشی مساوات، عدل و انصاف، حقوقِ انسانی کا تحفظ، قانون کا احترام اور امانت و دیانت جس کی نمایاں معاشرتی خوبیاں ہوں۔ جہاں کی بیورو کریسی عوام کی خادم ہو، جہاں کی پولیس اور انتظامیہ عوام کی محافظ ہو۔ الغرض یہ ملک ایک آزاد، خود مختار، مستحکم، اِسلامی، فلاحی ریاست کے قیام کے لئے بنایا گیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ روایتی افسر شاہی کے نظام میں بہتری حکومت کی اولین ترجیح ہو گی لیکن ایسا کچھ بھی حکومتی ترجیحات میں نظر نہیں آ رہا۔ جب عمران خان صاحب عوام کی فلاح کیلئے اتنا فکر مند ہیں اور اپنے تئیں تمام تر کوششیں بھی کر رہے ہیں تو میں یہاں جناب وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کی توجہ ملکی اداروں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں، جہاں آج بھی وہی پرانا افسر شاہی نظام رائج ہے جہاں سفارش کے بغیر کسی غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں، جہاں آج بھی کسی فائل کو کلیئر کروانے کیلئے اُسے نوٹوں کے پہیے لگائے جاتے ہیں، جہاں آج بھی قابل افسران کو پروٹوکول نہ دینے پر او ایس ڈی بنایا جا رہا ہے، جہاں آج بھی من پسند لوگوں کو من پسند سیٹوں سے نوازا جا رہا ہے، جہاں آج بھی میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں، جہاں آج بھی کئی کئی ماہ سے افسران، اُساتذہ اور کلرک گھر بیٹھے سرکاری تنخواہوں کے مزے لوٹ رہے ہیں، اگر نئے پاکستان میں بھی اسی فرسودہ سسٹم نے چلنا تھا تو پُرانے پاکستان میں کیا قباحت تھی؟

مسلم ہینڈز کے منو بھائی فورم کے ظہرانے سے روایات کے امین مجیب الرحمٰن شامی اور تعلقات کے پاسدار عطاء الحق قاسمی مشترکہ طور پر کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے پہلے چار عشروں کے دوران اس کی معیشت، ترقی پذیر ملکوں میں سب سے زیادہ تیزی سے نمو پا رہی تھی مگر 1990کے عشرے میں اُس کی شرح نمو 6.5سے 4.5فیصد تک آگئی۔ ایسا نہ تو سیکورٹی کی صورتحال کے باعث ہوا اور نہ ہی غیر ملکی امداد اور اخراجات میں عدم توازن کے وجہ سے، تاہم سرکاری اداروں میں انحطاط کی وجہ سے ملک کی اقتصادی صورتحال میں تنزلی آئی۔ حکومت کی کارکردگی میں ہر سرکاری ادارے کا عمل دخل ہوتا ہے، تاہم اُس کی ابتدا پارلیمان سے ہوتی ہے، جہاں سیاسی لیڈران پالیسی کے اہم فیصلوں میں حصہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ عدلیہ، نیب اور ایف بی آر کے علاوہ بھی پاکستان میں بیسیوں ادارے ہیں، جن کو مکمل فعال بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے سرکاری اداروں کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگر آج اُن میں اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہئے کہ ہر ادارے کے افسرانِ بالا کی ایک میٹنگ بلائیں، جس میں اُنہی افسران کو اپنے ادارے کے حوالے سے ایس او پیز بنانے کا حکم صادر کیا جائے، اُن ایس او پیز میں متعلقہ ادارے کے اوپر سے نیچے تک ہر افسر اور ملازم کی ڈیوٹیوں کا تعین کیا جائے، افسرانِ بالا اِس ضمن میں اپنے ماتحتوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں لیکن ایک مرتبہ جب وہ ایس او پیز طے پا جائیں تو پھر اُن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والے کسی بھی شخص کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔

افسروں پر مقامی سیاستدانوں کا اثر ختم کرنے کیلئے ایسے سیاستدانوں کے تعامل کا طریقہ کار بھی واضح ہونا چاہئے تاکہ افسروں کو خواہ مخواہ پریشانیوں کا سامنا نہ ہو۔ افسران کی شنوائی کا نظام بھی نہیں، وہ کس سے شکایت کریں، اپنی مشکلات کا رونا کس کے سامنے روئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم صاحب تمام اداروں کو قائداعظم کے فرمان کے مطابق ڈھالیں۔ سول سروس کا از خود جائزہ لیں۔ نظام کو بہتر بنائیں تاکہ آئندہ کوئی بیورو کریٹ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش نہ کرے، جب تک ایسے افراد ہمارے اداروں میں موجود رہیں گے تب تک ہمارے ملک کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور نہ ہی عوام کی حالت میں کوئی بہتری آ سکے گی۔