علامہ اقبال ؒ اور دفاع وطن

April 21, 2019

پروفیسر ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم

علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کے لئے ایک الگ خودمختار مملکت کا جو خواب دیکھا اس کے لئے دعوت انقلاب بھی دی وہ کہتے ہیں ؎

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی

روح امم کی حیات کشمکش انقلاب

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم

کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب

انہوں نے مزیدکہا :

اس سے بڑھ کر اور کیا فکروعمل کا انقلاب

پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ سرزمیں

اقبال کا نظریہ انقلاب، معرفت تک رسائی کرتا ہے خدا خودی اور کائنات کو ایک لڑی میں پرو کر برسرپیکار انسان سروں سے کفن باندھ کر جب بڑھتا ہے تو راہیں تراشتا چلا جاتا ہے ۔ اقبال نے خدا ،خودی اور کائنات کا جو واضح تصور پیش کیا ہے وہ دنیا کے دیگر مفکرین اسے پیش کرنے سے قاصر ہیں :

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

...............

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

...............

آج بھی ہو اگر براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا

ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ نے اپنے خواب کی تعبیر کے لئے محمد علی جناح کا انتخاب کیا۔ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقبال کی بصیرت نے مسلمانوں کو ایک عظیم لیڈر عطا کیا ۔اقبال کے خطوط جناح کے نام، نے برعظیم پاک وہند کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔

چشم فلک نے دیکھا کہ اسلامی انقلاب دبانے والے خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام قوم اسلام کا مظہر ثابت ہوا اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان میں سبھی کچھ ہے۔

ہم زندگی کی دوڑ میں بسااوقات ہار تو جاتے ہیں لیکن پسپا نہیں ہوتے من کی دنیا روشن ہو تو تن کی دنیا کا اجالا نظر آتا ہے بقول اقبال ؎

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رک سنگ

محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگ تاک

ہمارا ملک ایک نظریاتی مملکت ہے اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ہمارے ایمان و افقان کا حصہ ہے ۔اقبال ہمیں پیغام دے رہے ہیں۔

آشنا اپنی حقیقت سے اے دہقاں ذرا

دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو،

آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو، راہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا

ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو

دیکھ آکر کوچہ چاک گریباں میں کبھی

قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو محمل بھی تو

وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا

مے بھی تو مینا بھی تو، ساقی بھی تو محفل بھی تو

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرباطل بھی تو

بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

ڈاکٹر علامہ اقبال دور حاضر کے حالات کے تناظر اور مسلمانوں کے طرز عمل کے بارے میں کہتے ہیں۔

دل مردہ ، دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

وہ چشم باک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے

نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا زاویہ نظر ہے کہ دفاع سے غافل قوم کو وقت جینے کا موقع نہیں دیتا کمزور اقوام حرف غلط کی طرح مٹ جاتی ہے ۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

یہ تو کل کی بات ہے کہ لبنان، شام، عراق، افغانستان، فلسطین اور کویت ایسے کئی ممالک میں سول ڈیفنس کا وجود تک نظر نہیں آیا۔ہوائی حملوں سے بچائو کے طریقوں سے غافل شہری دشمن کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہے۔

انسان ہر بات جھٹلا سکتا ہے لیکن موت سے مفر نہیں ہو سکتا۔اگر ہماری یہ جان دفاع وطن کے کام آجائے تو زندگی کا حق ادا ہو جائے۔

مٹی ہی میں مٹی جو ملانی ہے بدن کی

بہتر ہے ملا دو اسے مٹی میں وطن کی

ایسے رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو

ایسا چلن چلو کہ زمانہ مثال دے

علامہ اقبال نے جس آزاد مملکت کا خواب دیکھا تھا اس میں عسا کر پاکستان کے لئے خودی مرکزی پیغام ہے ۔خودی کی حامل قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی ۔

یہ زورِ دست و ضربت کاری کا ہے مقام

میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ

خونِ دل و جگر سے ہے سرمایہ حیات

فطرت لہو ترنگ ہے غافل، نہ جل ترنگ

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر

موت مومن کے لئے رب سے ملاقات کا دوسرا نام ہے ۔اس لئے دفاع وطن کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والے مرد مجاہد مرتے نہیں بلکہ شہادت کا ایسا جام پی جاتے ہیں کہ وہ دنیا میں بہادری و شجاعت کی مثال بن کر زندہ رہتے ہیں اور میدان حشر میں جب انہیں اٹھایا جائے گا تو ان کی خواہش ہو گی کہ کاش وہ ایک بار پھر شہادت کا لطف اٹھا سکیں۔وطن کی خاطر جانوں کی قربانی دینے والے مومن مجاہدین جانتے ہیں کہ انہیں ا للہ تبارک و تعالیٰ ایک ابدی حیات دینے والے ہیں اس لئے ان کے دلوں میں دفاع وطن کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ۔علامہ اقبال بھی مسلمانوں میں خودی اور غیرت ملی کا جذبہ بیدار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں دوسروں کے لئے جینا ہی اصل جینا ہے۔علامہ اقبال کا فلسفہ خودی اور دفاع وطن دراصل ایک ہی تصویر کے دو نام ہیں۔علامہ محمد اقبال مومن کے دل میں جذبہ شہادت بیدار کرنے کی سعی کرتے ہیں اور یہی وجہ جذبہ ہے جو دفاع وطن کے لئے سنگ میل ثابت ہوتا ہے ۔

حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو

لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

مسلمان کائنات پر اللہ کا خلیفہ بن کر آیا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ بقرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔انسان اس نیابت الٰہی کی ذمہ داریوں کو آخر کس طرح پورا کرے ؟ اقبال اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر تو ضعیف ہے تو یاد رکھو کہ اس دنیا میں تمہاری کوئی جگہ نہیں۔مغرب والے اس نکتے سے ناواقف ہیں ۔اقبال نے مسلم فوج کے کمانڈر میں جس قسم کی قائدانہ صلاحیتوں اور خوبیوں کی تمنا کی تھی وہ انہوں نے ویسے تو اپنی کئی غزلوں اور نظموں میں ذکر کیا ہے لیکن ضرب کلیم کی آخری نظم میں محراب گل کی صورت میں اقبال نے گویا ایک مثالی مسلم سپہ سالار کو مجسم کر دیا ہے انہوں نے محراب گل کی سیرت کے مندرجہ ذیل آٹھ پہلوئوں پر تبصرہ کیا ہے وہ یہ ہیں ۔صاحب خلافت، صاحب تقدیر، صاحب یقین، صاحب ایجاد، صاحب فن، صاحب قوت، صاحب مرکز، صاحب کردار

صیاد ہے کافر کا، نخچیر ہے مومن کا

یہ دیر کہن یعنی بت خانہ رنگ و بو

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

اے مرے فقر غیور فیصلہ تیرا ہے کیا

خلعتِ انگریز یا پیرہن چاک چاک ؟