سیاست کے مِسنگ پرسنز

April 28, 2019

ایک زمانہ تھا، جب سیاست کو عبادت، خدمت اور اجتماعی بھلائی کا نام دیا جاتا تھا۔ شاید وہ ماضی کا کوئی بھلا زمانہ ہوگا، لیکن اب تو صرف یہی سُننے، دیکھنے اور پڑھنے میں آتا ہے کہ’’ سیاست بے رحم ہوتی ہے، اس کے سینے میں دِل نہیں ہوتا، یہ تو بے اعتبار اور بے اعتماد لوگوں کا کام ہے۔‘‘ درحقیقت جھوٹ، فراڈ، ریاکاری، احسان فراموشی، موقع پرستی اور مفاد پرستی جیسے عنوانات ہی ہمارے مُلک کی سیاست کا تعارف بن چُکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص، دوسرے سے کسی معاملے میں ریاکاری، عیّاری کررہا ہو، تو دوسرا ہنستے ہوئے کہتا ہے’’یار! میرے ساتھ سیاست نہ کر،سیدھی بات کر۔‘‘ شاید اسی سیاست کو دیکھتے ہوئے کہا گیا تھا؎ ’’میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو… گھِری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔‘‘ بہت سے شعرا نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی اور اُن کے ہاں بھی سیاست کے حوالے سے مثبت سوچ خال خال ہی ملتی ہے۔ تا ہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ساری صُورتِ حال کو تمام سیاست دانوں اور ہر سیاسی سرگرمی پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ ’’ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں‘‘ کہ مِصداق، دیانت دار، عوامی اور اجتماعی خدمت سے سرشار، مُلک و قوم کے لیے دردِ دل رکھنے والے وضع دار لوگ بھی اسی سیاست میں موجود ہیں۔بہرحال، اگر سیاسی وابستگی تبدیل کرنے والوں کا، جنہیں عرفِ عام میں ’’لوٹا‘‘ کہا جاتا ہے، ذکر کیا جائے، تو بات بہت طویل ہوجائے گی، پھر ہر ’’لوٹے ‘‘کے پاس اپنے ’’لوٹا‘‘ ہونے کی دلیل، جواز اور مجبوری کی داستان موجود ہے، البتہ ایسی شخصیات کا تذکرہ انتہائی اختصار سے کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے اپنی پارٹی کا اقتدار ختم ہونے یا پھر اپنی قیادت کو مصائب و ابتلا میں دیکھتے ہوئے اور یہ ادراک کرتے ہوئے کہ اُن کے اقتدار کا سورج شاید اب کبھی دوبارہ نہیں چمکے گا، پارٹی سے غیر محسوس لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے اور وہ پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ شاید ایسے افراد بہ تدریج اپنا طرزِ عمل تبدیل کرکے کسی نئے موقعے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ذیل میں کچھ ایسے ہی سیاست دانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں مذکورہ فہرست تشنہ ہو کہ اس میں مزید لوگوں کے نام ہونے چاہئیں، تو اسے جگہ کی تنگی سمجھ کر نظرانداز کردیجیے گا۔

قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کی مسلم لیگ سے لے کر میاں محمّد نواز شریف کی مسلم لیگ تک، ایک ہی جماعت سے وابستگی کسی پاکستانی سیاست دان کا منفرد حوالہ ہے، جو سرتاج عزیز کے حصّے میں آیا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوئے اور اہم بین الاقوامی عُہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے۔1984 ء میں وطن واپس آکر تین مرتبہ وزیرِ خزانہ، خارجہ اُمور، اور نیشنل سیکیوریٹی کاؤنسل کے مشیر رہے۔ نواز شریف کے تینوں ادوار میں مختلف محکموں کے وزیر بنائے گئے۔ چیئرمین سینیٹ بنے اور مختلف حیثیتوں میں پاکستان مسلم لیگ کے لیے تنظیمی خدمات بھی انجام دیتے رہے۔ سرتاج عزیز نے کم و بیش 40 سال تک پاکستان میں اہم وزارتوں اور اداروں میں سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور تقریباً 20سال بیرونِ ممالک بھی، لیکن سلام ہے کہ اس تمام عرصے میں اُن پر الزام تو دُور کی بات، اُن کے دامن پر الزام کی کوئی چھینٹ بھی نہیں ہے۔ اُنہیں عطا کیے جانے والے انعامات و اعزازات کی فہرست طویل ہے۔ پاکستان کی تاریخ اور معاشی موضوعات پر اُنہوں نے متعدّد کُتب تحریر کیں۔ پاکستان کی تاریخ پر اُن کی ایک اہم کتاب "Between Dream and Realities" آج بھی ایچی سن کالج کے نصاب میں شامل ہے۔ ممتاز ناول نگار، نثار عزیز بٹ اُن کی بڑی بہن ہیں۔ 90 سالہ سرتاج عزیز کی آخری حکومتی ذمّے داری وزارتِ خارجہ میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے مشیر کی تھی، جو28 جولائی 2017 ء کو ختم ہوئی۔ وہ آخری دن تک انتہائی مستعدی کے ساتھ اپنی ذمّے داریاں نبھاتے رہے۔ اس پیرانہ سالی میں جسمانی اور ذہنی طور پر ایسی فعالیت اور چُستی شاید اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کی ایمان دارانہ زندگی کا ثمر ہے۔ نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد سرتاج عزیز نہ صرف وزارتِ خارجہ سے لاتعلق ہو گئے، بلکہ اُنہوں نے خود کو مسلم لیگ نون کی تنظیمی سرگرمیوں سے بھی الگ تھلگ کر لیا۔ اس کی وجہ عُمر کی تھکن نہیں، بلکہ جس طرز کی سیاست شروع ہو چُکی تھی، وہ خود کو اس کے لیے موزوں سمجھتے تھے اور نہ مسلم لیگی قائدین۔ سرتاج عزیز صاحب اسلام آباد میں ہونے والی علمی، ادبی، تحقیقی یا خارجہ امور سے متعلق تقاریب میں کبھی کبھی نظر آجاتے ہیں۔ کاش حکومتی اور قومی سطح پر بھی اور کچھ نہیں، تو اُن کی بے داغ زندگی کے حوالے ہی سے اُن کی عظمت کا اعتراف کیا جاتا۔ اُن کے نام سے وزارتِ خارجہ کا کوئی گوشہ ہوتا۔ اسلام آباد کی کوئی شاہ راہ، اُن کے نام کا کوئی پودا ہی لگا دیا جاتا، لیکن بڑے لوگوں کی زندگی میں اُن کی بڑائی کے اعتراف اور اظہار کا کلچر ہمارے یہاںتاحال متعارف نہیں ہوسکا۔

خان عبدالغفار خان ایک بااصول شخص تھے۔اُنھیں باچا خان اور’’ سرحدی گاندھی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ زندگی بھر عدم تشدّد کے حامی رہے۔ خاندان والوں نے دبائو ڈال کر برطانوی فوج میں شامل کروا دیا، لیکن جب ایک برطانوی افسر نے پشتون فوجیوں کے ساتھ بدتمیزی کی اور نسل پرستی کا مظاہرہ کیا، تو اُنھوں نے نوکری چھوڑنے میں دیر نہ لگائی۔ اُن کے صاحب زادے، خان عبدالولی خان نے 1990ء کے عام انتخابات میں مولانا حسن جان سے شکست کھائی، تو انتخابی سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم، نواز شریف نے اُنہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا، تو وہ بھی یہ کہہ کر واپس کردیا کہ ’’جب مُلّا اور ادارے ہماری سیاست کی سمت متعیّن کرنے لگیں، تو بہتر ہے سیاست ہی کو خیرباد کہہ دیا جائے‘‘۔ خان عبدالولی خان کے بعد پارٹی صدارت اُن کے صاحب زادے، اسفندیار ولی کے حصّے میں آئی۔ وہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے رُکن کے علاوہ، سینیٹر بھی رہے۔ اس تمام عرصے میں اُن کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ یہ رہا کہ اُنہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعت ہونے کے ناتے آئین میں 18 ویں ترمیم منظور کروائی اور اپنے صوبے کو خیبر پختون خوا کا نام دلوایا۔ سیاست میں اُن کی وضع داری اور اصول پسندی کے ساتھ، حبّ الوطنی کی بھی کمی نہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے دادا اور والد پر غدّاری کے الزامات تو لگائے گئے، لیکن سیاسی بے ایمانی اور بدعنوانی کے حوالے سے اُن پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، جب کہ مخالفین اسفندیار ولی پر دبئی، ملائشیا اور امریکا میں اثاثے بنانے کے الزامات عاید کرتے ہیں، البتہ یہ الزامات ابھی عدالتوں میں سچ ثابت نہیں کیے جاسکے۔ اکتوبر2008 ء میں چارسدّہ کے ولی باغ میں عیدالفطر کے موقعے پر اسفند یار ولی اپنے مہمان خانے میں مہمانوں سے عید مل رہے تھے کہ ایک دہشت گرد نے اُن پر خودکُش حملہ کردیا۔ خوش قسمتی سے وہ بال بال بچ گئے، لیکن اس واقعے کے کچھ ہی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹر پر اہلِ خانہ کے ہم راہ اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ اس کے بعد کی تفصیلات طویل ہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس واقعے کا اُنہوں نے گہرا اثر لیا تھا۔ ویسے بھی طالبان، اے این پی کے مرکزی رہنمائوں کی جان کے دَرپے تھے، چناں چہ اسفندیار ولی نے نقل و حرکت بہت محدود کرلی اور تقریباً سات سال گزر جانے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ اہم تقاریب، کانفرنسز اور اجتماعات میں اُن کی عدم شرکت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ’’ اُن کی طبیعت خراب ہے اور وہ بلند فشارِ خون کا شکار ہیں۔‘‘ انتہائی ناگزیر حالات ہی میں وہ منظرِ عام پر آتے ہیں۔ اس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو، لیکن اُنہیں بھی ’’سیاسی مِسنگ پرسنز’’ ہی میں شمار کیا جانے لگا ہے۔

دولتانہ خاندان کی دبنگ خاتون، تہمینہ دولتانہ، میاں نواز شریف کے خاندان سے ذاتی تعلق بھی رکھتی ہیں۔ براہِ راست الیکشن جیت کر اور پھر مخصوص نشستوں پر بھی کئی مرتبہ قومی اسمبلی کی رُکن رہیں۔ ایوان میں کسی بھی متنازع معاملے پر اُن کا ردّ ِعمل اور احتجاج انتہائی جارحانہ ہوتا تھا اور پارلیمانی قواعد و ضوابط کی بھی پروا نہیں کیا کرتی تھیں۔ ایک موقعے پر دوران احتجاج انھوں نے ڈائس کے قریب آ کر اپنی چوڑیاں اُتار کر اسپیکر کی طرف اچھال دیں۔نیز، ایک اور موقعے پر احتجاج کے دَوران نعرے لگاتے ہوئے چوڑیاں اور اپنا دوپٹا صدرِ مملکت کی جانب پھینکا، جب وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اُنھیں سپریم کورٹ میں پیشی کے وقت مریم نواز کو گلے لگا کر آنسو بہاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، لیکن آج کل کہاں ہیں؟ کچھ علم نہیں۔ البتہ ،مَری میں اُن کا ایک انتہائی پُرتعیّش ہوٹل ہے، جہاں مسلم لیگ نون کے ارکان کو خاص رعایت اور تمام سہولتیں دست یاب ہیں۔

دانیال عزیز کو میاں نواز شریف کا بھرپور دفاع کرنے والے مرکزی کرداروں کی صف میں رکھا جائے، تو غلط نہ ہو گا۔ قومی اسمبلی ہی نہیں، سپریم کورٹ کے باہر اور ٹی وی ٹاک شوز کے دَوران بھی وہ میاں نواز شریف اور اپنی حکومت کے دفاع میں تمام حدود سے تجاوز کر جاتے تھے۔ قومی اسمبلی میں اُن کی تقاریر کے دَوران ہنگامہ ہوتا، تو ٹی وی ٹاک شوز میں اُن کی وجہ سے بدنظمی ، اکثر اوقات اُن کی قابلِ اعتراض گفتگو پر’’سینسر ببپر‘‘ لگانے پڑتے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں ،جہاں اُن کے ساتھ عمران خان کے معتمدِ خاص، نعیم الحق بھی بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے قائد کا دفاع کر رہے تھے، حکومتی رُکنِ اسمبلی کی حیثیت سے دانیال عزیز نے اُن کے بارے میں قابلِ اعتراض ریمارکس دیئے، جس پر نعیم الحق نے براہِ راست پیش کیے جانے والے اس پروگرام میں اُن کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔ عدالتوں کے بارے میں غیر ذمّے دارانہ ریمارکس دینے پر سپریم کورٹ نے اُنہیں پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا، اس لیے وہ اب پانچ سال پورے ہونے کے بعد ہی الیکشن لڑ سکیں گے۔ دانیال عزیز کے اس بچگانہ، جذباتی اور جارحانہ عمل کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں، جن میں ایک یہ بھی کہ نواز شریف کے لیے مار دھاڑ، شور شرابے، اپوزیشن کو گالیاں دینے اور ایوان میں مسلسل ہنگامہ آرائی کرنے کے باوجود اُنہیں وزیر نہیں بنایا گیا تھا، اُن کے اس طرزِ عمل کو وزارت کے حصول کی خواہش اور کوشش سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے اُس وقت کے اپوزیشن ارکان طنزاً وزیرِ اعظم، نواز شریف سے سفارش کرتے تھے کہ’’ دانیال عزیز کو وزیر بنا دیا جائے۔‘‘ پھر جب اُنہیں وزیرِ مملکت بنایا گیا، تب بھی وہ ناراض ہو گئے اور دھمکی دی کہ اگر اُنہیں وفاقی وزیر نہ بنایا گیا، تو پارٹی چھوڑ دیں گے، جس پر اُنہیں وفاقی وزیر برائے نجکاری بنا دیا گیا۔ دانیال عزیز کا شمار بھی اب گم نام سیاست دانوں میں ہوتا ہے، نہیں معلوم کہ آج کل وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ بات چلی ہے، تو اُن کے والد کا بھی کچھ تذکرہ ہوجائے۔ انور عزیز چوہدری کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ وہ محمّد خان جونیجو کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے اور یہ بھی کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے وزیر تھے، جنہیں بدعنوانی کے الزام میں کابینہ سے نکالا گیا تھا۔

1960ء اور 70ء کی دہائی میں صوبہ سرحد میں رہنے والے پختون بہتر ذریعۂ معاش کے لیے کراچی کا رُخ کیا کرتے تھے، جس طرح اب دُبئی اور دیگر ممالک جاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں سے مزدوری کا آغاز کرکے رکشہ، ٹیکسی چلانے پر آگئے اور پھر شب و روز کی محنت سے کرائے کے ڈیروں سے چھوٹے گھروں میں منتقل ہونے لگے۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے ان لوگوں نے کئی شعبوں ،بالخصوص ٹرانسپورٹ میں نمایاں حیثیت حاصل کرلی۔ شاہی سیّد بھی اُسی زمانے اور حالات کے ایک فرد ہیں، جن کے بارے میں مشہور رہا کہ وہ ابتدا میں رکشہ چلایا کرتے تھے، بعدازاں قسطوں پر رکشے دینے کا کاروبار کیا، پھر ترقّی کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے کہ پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹینشز کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔ وسیع کاروبار اور انتہائی پُرتعیّش زندگی کے بعد 2001ء میں عوامی نیشنل پارٹی جوائن کی۔ پختون ایکشن کمیٹی اور پختون لویہ جرگہ کے چیئرمین رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی، سندھ کے صدر بنے اور پھر تین مرتبہ سینیٹر بھی بنے۔ کراچی میں اُن کی اقامت گاہ’’مَردان ہاؤس‘‘ اُن کی حیثیت، مرتبے اور شان دار زندگی کی غمّازی کرتی ہے، لیکن وہ شاہی سیّد، جو اُس وقت کی مضبوط جماعت ایم کیو ایم کے سامنے کھڑے ہوکر حالات کا مقابلہ کرتے تھے، الیکشن لڑتے تھے، ٹی وی ٹاک شوز، جلسے، جلوسوں اور سڑکوں پر مزاحمت کرتے تھے، اب کہاں ہیں؟ کچھ اَتا پتا نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے زندگی میں جو خواہشیں کی تھیں، اُن کی تکمیل ہوچُکی ہے۔ مردان کے ایک پس ماندہ گاؤں، بابو زئی سے کراچی ہجرت، کاروبار کی ابتدا اور کام یابی کی انتہا۔ حالات کی مجبوری اور محدود وسائل کی زندگی کے بعد آج مُلک کے سب سے بڑے شہر میں انتہائی آسودہ زندگی، رکشے کے سفر سے تین، تین کروڑ کی گاڑیوں میں آمدورفت، اب نہ تو اُنہیں کسی سیاسی شہرت کی ضرورت ہے اور نہ مزید وسائل کی۔ اِس لیے اب وہ تماشائے اہلِ سیاست دیکھتے ہیں۔

اگست1988ء میں اپنے والد، جنرل محمّد ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی خبر سُن کر اعجازالحق دبئی سے فوری طور پر وطن پہنچے۔وہ اُس وقت وہاں کے سٹی بینک میں پریزیڈنٹ تھے ۔ اُن کا ارادہ والد کے چہلم تک پاکستان میں قیام کا تھا اور اپنے اس ارادے کے پیشِ نظر بینک سے چھٹیاں لی تھیں۔اُنہوں نے والد کے آخری سفر میں سوگواران کا ازدحام دیکھا، جو محتاط اندازے کے مطابق کئی لاکھ افراد پرمشتمل تھا۔ غیر سیاسی ذہن رکھنے والے اعجاز الحق نے سوئم کے بعد آرمی ہاؤس میں ایک بھرپور پریس کانفرنس میں اپنے والد کے حادثے کی تحقیقات سمیت مختلف امور پر تو بات کی، لیکن اُس وقت کے اہم ترین سوال’’ کیا وہ سیاست میں آئیں گے؟‘‘کے جواب میں اعجازالحق نے صاف انکار کرتے ہوئے اپنی نوکری جاری رکھنے کا فیصلہ سُنایا۔ تاہم واقفانِ راز نے اُسی وقت دعویٰ کردیا تھا کہ اعجازالحق اپنے والد کی مقبولیت اور حلقۂ اثر ضائع نہیں ہونے دیں گے اور جلد یابدیر سیاست میں آنے کا اعلان کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔جنرل ضیاء الحق کے سیاسی اور صحافتی رفقا، مشیران اُنہیں جنرل صاحب کے اقتدار کا تسلسل قرار دیتے رہے اور اعجاز الحق نے بھی دبئی واپسی کا ارادہ تَرک کرکے سیاست میںآنے کا اعلان کردیا۔1990ء میں ہونے والے انتخابات میں اُنہوں نے راول پنڈی کے حلقہ NA-54سے الیکشن لڑا اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست دی۔وہ دو مرتبہ میاں نوازشریف کے دَور میں وفاقی وزیر رہے، تاہم پرویزمشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے اپنی مسلم لیگ(ض)قائم کرلی اور2002ء میں بہاول نگر سے الیکشن جیت کر چوتھی بار اسمبلی میں آئے اور مسلم لیگ(ق) سے اتحاد کرکے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور بن گئے۔2008 ء میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سے شکست کھائی، مگر 2013ء میں ایک بار پھر قومی اسمبلی پہنچنے میں کام یاب رہے، تاہم 2018ء میں پھر نشست کھو بیٹھے۔ اعجاز الحق بنیادی طور پر وہ ایک غیرسیاسی ذہن کے حامل ہیں۔ اُنہوں نے جو پانچ الیکشن جیتے اور تین مرتبہ وزیر رہے، درحقیقت یہ اُن کے والد سے لوگوں کی محبّت اور اُن کی مقبولیت کا ثمر تھا۔ پھر بہ تدریج حالات بدلتے گئے، جب لوگوں نے اعجاز الحق کی سیاسی کارکردگی دیکھی اور یہ بھی محسوس کیا کہ اُنہوں نے صحیح مواقع پر غلط اور غلط مواقع پر درست فیصلے کیے، تو جنرل ضیاء الحق کی برسی کے موقعے پر اُن کی آخری آرام گاہ پر ویرانی نظر آنی لگی اور اعجاز الحق کی سیاست پر بھی ایسا ہی سکوت طاری ہے۔اب وہ سیاست سے تقریباً باہر ہوچُکے ہیں اور اُن کی پارٹی کے لیٹرپیڈز بھی ختم ہوچُکے ہیں۔

ایم کیو ایم کے بابر خان غوری اہلِ کراچی کے لیے تو لاپتا ہیں، لیکن اُنہیں امریکا، لندن اور کبھی کبھی دبئی میں دیکھا جاسکتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے کروڑ پتی بننے والے بابر غوری، ایم کیو ایم کے عروج میں رُکنِ پارلیمنٹبنے، لیکن یہ وہ دَور تھا، جب ’’قائد‘‘ کے احکامات میں ذرا سی غفلت کی بھی تضحیک آمیز سزا ملتی تھی۔ اگر کوئی رُکن ’’نائن زیرو ‘‘کی کسی ایسی میٹنگ میں، جس سے’’قائد‘‘ نے خطاب کرنا ہوتا، ذرا سی تاخیر سے پہنچتا، تو تنظیم کا سیکٹر انچارج اُسے باہر ہی روک کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا رہنے کی سزا دیتا۔ اس طرح یہ پیغام دیا جاتا کہ عوام اور پاکستان کے آئین و قانون کی جانب سے دیا جانے والا عُہدہ،’’ قائد‘‘ کی طرف سے دی جانے والی ذمّے داری سے کم تَر ہے۔ غالباً 2015 ء کا واقعہ ہے، جب ایک موقعے پر بابر خان غوری نے اپنے تنظیمی ساتھیوں کے ساتھ مل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے، تو ’’قائد‘‘ نے لندن سے فون کرکے اُن کی سرزنش کی۔فون کال لیک ہوئی، تو اندازہ ہوا کہ لندن میں بیٹھے’’ قائد‘‘ کا اپنے کارکنوں سے، خواہ وہ رُکنِ پارلیمانہی کیوں نہ ہوں، تعلق کس نوعیت کا تھا۔ وہ کون سی مغلّظات تھیں، جن سے رُکنِ پارلیمنٹبابر غوری کو نہیں نوازا گیا اور وہ بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی پاداش میں۔ دوسری طرف، بابر غوری کانپتی، لرزتی آواز میں معافی کی التجا کر رہے تھے۔’’ بھائی غلطی ہوگئی، معاف کردیں۔ دوسرے لوگ بھی زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، اس لیے مَیں بھی اُن میں شامل ہوگیا، خدا کے لیے مجھے معاف کردیں۔ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ اُن سے پاکستان مخالف نعرے لگوائے گئے، تب کہیں جا کر اُن کی جان بخشی ہوئی۔ کچھ عرصے بعد، بابر غوری نے اپنے ضمیر کا بوجھ لیے ایم کیو ایم کی بنیادی رُکنیت سے استعفا دیا اور جان بچا کر امریکا چلے گئے اور اب وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے۔

ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کی ایک بڑی کھیپ’’مائنس وَن‘‘کے بعد سیاسی منظر سے غائب ہوچُکی ہے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں واحد رُکنِ اسمبلی، امین الحق ہیں، جو ایم کیو ایم کے ارکانِ اسمبلی کی پہلی کھیپ میں شامل تھے۔ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں آنے والے ان ارکان میں بیش تر ایسے بھی تھے، جو پہلی مرتبہ اسلام آباد آئے تھے۔ ان کے باہمی اتفاق کا عالم یہ تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں 6چائے اور 8کپ منگوایا کرتے تھے اور اب نفاق کا یہ منظر ہے کہ ساتھ رہتے ہوئے بھی الگ، الگ ہیں۔ اگر ماضی قریب کا ذکر کیا جائے، تو حیدر عبّاس رضوی بھی یاد آئیں گے۔ وہ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر رہے۔ ایوان ہو یا ٹی وی ٹاک شوز، یا پھر کارکنوں کا اجتماع، اُنہیں اپنی جماعت اور قیادت کے دفاع کا فن خُوب آتا تھا۔ شعلہ بیان مقرّر ہونے کے ساتھ، اُنہیں اُردو شاعری سے بھی گہرا لگاؤ تھا، بالخصوص ایوان میں تقریر کے دَوران موقع محل کے مطابق اساتذہ کے اشعار سے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔ سیینٹ میں مسلم لیگ نون کے مشاہد اللہ اور قومی اسمبلی میں حیدر عبّاس رضوی ہی ایسے رُکن تھے، جنہیں سیکڑوں اشعار ازبر تھے۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر، حیدر عباس رضوی سے ایک مرتبہ پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں ایک اخبار نویس نے پوچھا’’ حیدر بھائی سُنا ہے، آپ کینیڈا میں ٹیکسی چلایا کرتے تھے‘‘، تو اُنہوں نے جملے میں چُھپا طنز محسوس کرتے ہوئے جواب دیا’’ ہاں بھائی! یورپ میں آپ حلال ہی کھا سکتے ہیں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ مَیں اب بھی رُکنِ قومی اسمبلی ہونے کے باوجود جب کینیڈا جاتا ہوں، تو اپنی اوقات یاد رکھنے کے لیے ویک اینڈ پر ٹیکسی چلانے میں کوئی بُرائی نہیں سمجھتا۔‘‘ اطلاع یہی ہے کہ اُنھوں نے اب کینیڈا میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے اور پارٹی اُمور ہی نہیں، سیاست سے بھی لاتعلق ہوچُکے ہیں۔

یادش بخیر! پاکستان پیپلزپارٹی کی ایک جیالی، فرزانہ راجا بھی ہوا کرتی تھیں۔ راول پنڈی کے ایک متوسّط گھرانے سے تعلق رکھنے والی فرزانہ راجا کو پیپلز پارٹی نے2002ء میں خواتین کی مخصوص نشست پر پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ دیا، جب کہ 2008 ء میں وہ مخصوص نشست ہی کے ذریعے قومی اسمبلی پہنچ گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹّو کے انداز میں دوپٹا اوڑھنے، ہیئراسٹائل اور مجموعی شخصیت میں اُن سے مشابہت کے جنون نے بھی اُن کی کام یابیوں میں اہم کردار ادا کیا اور آصف علی زرداری کی ہدایت پر اُس وقت کے وزیرِ اعظم، یوسف رضا گیلانی نے اُنہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سربراہ بنادیا۔ پھر کچھ عرصے بعد ہی وفاقی وزیر بنادیا گیا۔ اس دَوران خود یوسف رضا گیلانی کی چُھٹی ہوگئی، لیکن فرزانہ راجا، پرویز اشرف کے دَور میں بھی اہم عُہدہ انجوائے کرتی رہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بیرونِ مُمالک سے خطیر رقوم کی فنڈنگ ہوا کرتی تھی، جس کی تقسیم میں مبیّنہ بے ضابطگیوں پر اپوزیشن ہی نہیں، حکومتی ارکان نے بھی چہ مگوئیاں شروع کردی تھیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما، پیرمظہرالحق کے بھائی، پیر مکرّم الحق، جو پرنٹنگ کارپوریشن کے چیئرمین بھی تھے، فرزانہ راجا کے شوہر تھے۔ پھر یوں ہوا کہ فرزانہ کی ایک ٹی وی اینکر سے راہ و رسم کی افواہیں پھیلیں، جنہیں خبر بنتے دیر نہ لگی اور وہ سب کچھ سمیٹ کر مذکورہ اینکر کے ہم راہ امریکا چلی گئیں۔ جہاں سے اب اُن کی کوئی خیر خبر نہیں آتی، البتہ اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ اُنہوں نے پیر مکرّم الحق سے طلاق لے کر مذکورہ اینکر سے شادی کرلی تھی اور آج کل یہ متحرّک جیالی اور بے نظیر کی متوالی، سیاست اور پارٹی چھوڑ کر امریکا میں خوش حال زندگی گزار رہی ہیں۔

شرمیلا فاروقی کمال کی’’ اداکارہ‘‘ ہیں۔ حالات و واقعات اور مطلوبہ تقاضوں کے مطابق اپنے کردار کو بہترین انداز میں ادا کرنا اُنہیں اپنے ساتھیوں میں ممتاز و منفرد بناتا ہے۔ اُنہیں مکالمے کا فن خُوب آتا ہے اور چہرے کے تاثرات سے فریقِ مخالف کو قائل، مائل اور گھائل کرنا بھی۔ جن لوگوں نے اُن کی مشہور ڈراما سیریز ’’پانچواں موسم‘‘ دیکھی ہے، وہ اُن کی اِن صلاحیتوں کا اعتراف کریں گے۔ پھر سیاست میں آنے کے بعد اُنھوں نے ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی پارٹی کے دفاع کے لیے ان صلاحیتوں سے خُوب استفادہ کیا۔ وہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کی مشیر رہیں۔ شرمیلا فاروقی کے داداایک کام یاب بزنس مین تھے،جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اور وزیرِ خزانہ بھی رہے۔ اُن کے والد، معروف بیوروکریٹ، عثمان فاروقی پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین رہ چکے ہیں، جب کہ سلمان فاروقی اُن کے چچا ہیں۔ شرمیلا فاروقی اور اُن کی والدہ، انیسہ فاروقی مختلف حوالوں سے متنازع شہرت کی حامل رہیں۔ 2015 ء میں شرمیلا فاروقی کی شادی ہوئی، جس کے ساتھ ہی اُن کی سرگرمیاں بھی محدود ہوگئیں اور اب وہ محض گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ اُنہوں نے سیاست تقریباً تَرک کردی ہے اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی کبھی کبھار ہی نظر آتی ہیں۔

انوشہ رحمان کا سیاسی پس منظر تو کوئی قابلِ ذکر نہیں، البتہ مسلم لیگ نون کی بعض شخصیات کے حوالے سے اُنہیں خاصی مقبولیت حاصل رہی۔ سابقہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اُن کی سرگرمیاں، اہم ایشوز پر متفّقہ حکمتِ عملی وضع کرنے کی ہدایات پر عمل کروانے کے لیے اُن کی بھاگ دوڑ اور ارکان سے رابطے بھی معمول کا حصّہ ہوا کرتے تھے۔ اپنی وضع قطع، نشست و برخاست حتیٰ کہ چہرے مُہرے سے بھی وہ ایک مشرقی خاتون کا حوالہ دِکھائی دیتی تھیں۔ میاں صاحب کے خاندان سے اُن کی قربت بھی ڈھکی چُھپی نہیں تھی، غالباً یہی تعلق داری آئی ٹی جیسی اہم وزرات ملنے کا سبب تھا۔تاہم اِن دنوں وہ غیر فعال ہیں۔ اُن کے سیاسی منظر سے لاپتا ہونے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ انوشہ رحمان نے نون لیگ کی حکومت کے دوران قومی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات کے ایک ایسے مسوّدے کی تیاری میں بھرپور معاونت کی تھی، جس سے مذہبی تنازعے نے جنم لیا تھا۔ انوشہ رحمان کی طرح مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں سرگرم رہنے والی ماروی میمن بھی سیاسی منظرنامے سے غائب ہیں۔ ماروی میمن سندھ سے تعلق رکھنے والی معروف کاروباری شخصیت، نثار میمن کی، جو پرویز مشرف کے دَور میں سینیٹر، امورِ کشمیر اور اطلاعات و نشریات کے وزیر رہے، صاحب زادی ہیں۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ مسلم لیگ (ق) سے وابستگی کے دَوران رُکن قومی اسمبلی رہیں، پھر مسلم لیگ نون میں شامل ہو گئیں، تاہم کوشش کے باوجود تحریکِ انصاف تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔ میاں نواز شریف نے اُنہیں بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا چیئرپرسن بھی بنایا تھا۔ اُن کی گم نامی کی ایک بڑی وجہ سابق وزیرِ خزانہ، اسحاق ڈار بھی ہیں، جن سے اُن کے عقد کے خُوب چرچے ہوئے۔ مہر کی خطیر رقم اور دیگر اشیا کی تفصیل بھی سامنے آئی۔ ماروی میمن کے بارے میں ’’وکی پیڈیا‘‘ پر جو تفصیلات ہیں، اُن میں شوہر کے خانے میں اسحاق ڈار کا نام ہے، پھر خود ماروی نے بھی ڈار صاحب سے ازدواجی تعلقات کی کبھی تردید نہیں کی ۔

ریہام خان، اپنے سابقہ شوہر، عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے سیاسی طور پر ’’لاپتا‘‘ ہیں۔ گو کہ عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے کچھ عرصے تک اُنہوں نے خبروں میں رہنے کی کوشش کی تھی، لیکن اُن کے وہ تمام حوالے ختم ہو چُکے تھے، جو عمران خان ہی کی وجہ سے اُن کی شخصیت کا حصّہ بنے تھے۔اب وہ گم نام ہو چُکی ہیں، البتہ کبھی کبھار سوشل میڈیا یا کسی غیر مُلکی ٹی وی چینل پر اُن کی اینٹری ہوجاتی ہے۔ اُن کی پہلی شادی 2005ء میں اپنے فرسٹ کزن، اعجاز رحمان سے ہوئی تھی، جن سے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں کی شادی پندرہ برس رہی، جس کے بعد طلاق ہو گئی، اس کی وجہ ریہام خان کا اپنے شوہر کی مرضی کے بغیر صحافت میں آنا تھا۔ وہ ٹی وی پر موسم کا حال بیان کرنے کے ساتھ، مختلف اقسام کے شوز بھی کیا کرتی تھیں۔ بعدازاں پاکستان آ گئیں اور یہاں بھی اُنہوں نے مختلف چینلز میں کام کیا، لیکن قابلِ ذکر پزیرائی نہیں مل سکی۔ عمران خان نے اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا، تو اس دَوران ریہام خان اُن کے کنٹینر پر ٹی وی انٹرویو کے لیے آئیں، جہاں دونوں کے درمیان کچھ آف دی ریکارڈ گفتگو ہوئی اور پھر بات آگے بڑھ گئی۔ شاید یہ دنیا کی پہلی محبّت تھی، جو کسی کنٹینر میں پروان چڑھی۔ جلد ہی دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے، مگر اس کا دَورانیہ ایک سال سے بھی کم رہا۔ بعدازاں، ریہام خان کچھ عرصے تک عمران خان سے شادی اور طلاق پر کتاب لکھنے کے حوالے سے خبروں میں رہیں، لیکن یہ عرصہ بھی مختصر ثابت ہوا۔ اب وہ اپنے بچّوں کے ساتھ لندن میں مقیم ہیں اور خاموش زندگی گزار رہی ہیں۔

عائشہ گلالئی بھی اب سیاست کا ایک گم نام کردار بنتی جارہی ہیں۔ عائشہ گلالئی اور ریہام خان میں قدرِ مشترک عمران خان ہیں اور یہ کہ گلالئی نے بھی پشاور یونی ورسٹی سے ماسٹرز کیا اور شعبۂ صحافت سے وابستہ رہیں۔ وہ پشاور ٹی وی پر خبریں پڑھا کرتی تھیں، پھر سیاست میں آگئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ (پرویز مشرف) میں رہیں۔ 2012ء میں پاکستان تحریکِ انصاف جوائن کر لی۔ عمران خان نے اُنہیں مخصوص نشست پر ٹکٹ دیا اور اس طرح وہ قومی اسمبلی کی رُکن بن گئیں۔ یوں شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کا خواب پورا ہوا، لیکن اُنھیں ایوان میں کوئی خاص مقام حاصل نہ ہوسکا۔ بعدازاں، اُنہوں نے اپنے پارٹی قائد عمران خان پر سنگین نوعیت کے الزامات لگانے شروع کر دیئے، جس سے اُنھیں خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ تحریکِ انصاف کے مخالفین نے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور عائشہ گلالئی کی خُوب حوصلہ افزائی کی۔ دراصل عائشہ گلالئی یومیہ بنیاد پر اپنی قیادت کے خلاف بیانات، پریس کانفرنسز، قومی اسمبلی میں جارحانہ تقاریر کے ہنگام میں رسوائی اور شہرت میں فرق محسوس نہ کرسکیں۔ جب اُنہیں پارٹی سے فارغ کر دیا گیا، تو اُنھوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (گلالئی) بنا لی۔ اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصّہ لیا اور عبرت ناک شکست اُن کا مقدر ٹھہری۔ آج لوگ اُن کا ذکر ’’ایک تھی گلالئی‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی اُنہیں سیاسی طور پر استعمال کر کے نظر انداز کر دیا۔ نیز، اُنہیں کوئی بھی جماعت قبول کرنے کو تیار نہیں۔