ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا....

May 12, 2019

آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

سعدیہ امام کا نام، پاکستان میں تو شاید ہی کسی کے لیے اجنبی ہو، اپنے کام اور صلاحیتوں کی بناء پر مُلک سے باہر بھی خُوب جانی پہچانی جاتی ہیں۔ بہت کم لوگ اتنے خُوش قسمت ہوتے ہیں کہ جنہیں اپنے ڈیبیو ہی سے ایسی شناخت مل جائے کہ پھر ترقّی و کام یابی کا زینہ تیزی سے الانگتے پھلانگتے منزل ہی کی طرف بڑھتے چلے جائیں، پیچھے مُڑ کے دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اور قسمت کے ایسے ہی دَھنی فن کاروں میں سعدیہ امام بھی شامل ہیں، مگر اُن کی کام رانیاں محض بخت ہی کے مرہونِ منّت نہیں، اس میں اُن کی سخت محنت و ریاضت کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ماڈلنگ، اداکاری سے ایک اچھی میزبان تک کی مسافت کوئی چند کوس کا فاصلہ نہیں تھا، راہ میں مسائل و مصائب کے کئی دریا، صحرا بھی عبور کرنا پڑے۔ اپنی پہلی ڈراما سیریل ’’اُلجھن‘‘ سے ایک نجی چینل کے مہمانوں کی میزبانی اور مارننگ/ رمضان ٹرانس میشن تک سعدیہ نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ درمیان میں شادی اور اپنے رب سے جگ راتوں کی دعاؤں میں مانگ کے لی ہوئی بہت پیاری بیٹی ’’میرب‘‘ کی پر ورش کے لیے کچھ عرصہ بریک بھی لیا، لیکن اب ایک بار پھر کسی حد تک مصروفِ کار ہیں۔

گرچہ سعدیہ کی زندگی ایک کُھلی کتاب ہے۔ شوبز میں آمد سے لے کر، بڑی بہن عالیہ امام سے گہری دوستی، والدین، اہلِ خانہ سے قلبی لگاؤ، جرمن نژاد پاکستانی عدنان حیدر سےشادی اور پھر میرب کی ولادت تک کے ایک نہیں، اَن گنت لمحات، تصاویر، یادیں، باتیں الیکٹرانک/ سوشل میڈیا اور مختلف اخبارات، رسائل و جرائد کے ذریعے وقتاً فوقتاًسامنے آتی، شیئر ہوتی ہی رہی ہیں کہ سعدیہ نے اپنی ذات کے کسی پہلو پر کوئی ملمّع سازی نہیں کر رکھی، مگر آج خاص طور پر ’’ماؤں کے عالمی یوم ‘‘ کے موقعے پر انہوں نے جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کے لیے نہ صرف اپنی نوخیز معطّر کلی، گھر آنگن میں اُتری ننّھی پَری کے ساتھ ایک خُوب صُورت شُوٹ عکس بند کروایا بلکہ ممتا کی شیرینی و حلاوت میں گُھلے کچھ اچھوتے جذبات و احساسات کا بھی اظہار کیا۔

سعدیہ نے ایک جذب کے عالم میں میں بتانا شروع کیا ’’میرا اور میرب کا ماں، بیٹی کا رشتہ تو بہت بعدمیں بنا۔ میرا اس سے پہلا رشتہ تو ’’دُعا و عطا‘‘ کا ہے۔ جب مجھے پتا چلا کہ اللہ پاک نے مجھ پر اتنا بڑا کرم کیا ہے کہ مَیں بھی ماں جیسے رُتبے پر فائز ہونے جا رہی ہوں تو مَیں نے رَب کے حضور صبح و شام گِڑگڑا گِڑگڑا کے ایک ہی دُعا کی کہ ’’یا رحمٰن الرّحیم! مجھے پہلی اولاد ’’رحمت‘‘ کی صُورت دینا۔ میرا سُونا انگنا بیٹی کی خوشبو سے مہکانا۔‘‘ پتا نہیں کیوں، مجھے ہمیشہ سےلگتاہےکہ بیٹیاں، والدین کی بہت ہم درد و غم گسار، مونس و غم خوار ہوتی ہیں۔ وہ جان و مال سے والدین کے لیے کچھ نہ بھی کرپائیں، مگر اُن کے لبوں پر والدین کی صحت و سلامتی، سُکھ عافیت کی دعائیں سدا مچلتی رہتی ہیں۔ ہم تین بہنیں، تین بھائی ہیں۔ گرچہ ہم سب ہی والدین کے فرماں بردار تھے۔ الحمدُللہ، میرے والدین اپنی ساری اولاد سے بہت خوش دنیاسےگئے اوریہ بھی بڑی ڈھارس، طمانیت کی بات ہوتی ہے کہ آپ کے والدین، آپ سے ناخوش نہ ہوں۔ ویسے تو والدین کے ہونٹوں پر اولاد کے لیے سدا دعائیں ہی ہوتی ہیں، لیکن خدا نہ خواستہ اگر اولاد کے کسی عمل سے اُن کے دل رنجیدہ ہو جائیں اور وہ بے اختیار کچھ ایسا ویسا کہہ دیں تو بس پھر تو اولاد کی دنیا و عاقبت دونوں ہی خراب ہیں۔ مَیں اس معاملے میں بھی بڑی قسمت والی ہوں کہ بہن بھائیوں میں چھوٹی ہونے کے سبب مجھے امّاں، پاپا کا زیادہ ساتھ، ڈھیروں پیار ملا۔ میرے ماں باپ ہمیشہ مجھ پر فخر کیا کرتے تھے کہ میں اُن کی بہت پیاری، بڑی اطاعت گزار بیٹی ہوں۔ مجھے چوں کہ بحیثیت بیٹی اپنے رشتے پہ بہت فخرو مان تھا، تو مَیں نے بھی اپنے اللہ سے پہلی بیٹی ہی مانگی۔ ایسی بیٹی، جو میرا پَرتو، پَرچھائیں، میرا عکس ہو۔ بلکہ میرا کیا، در حقیقت اپنی نانی کا چہرہ مُہرہ ہو کہ مَیں اپنی ماں کی شبیہہ ہوں، تو وہ جو میرا سایا ہوگی، اصلاً اپنی نانی ہی کی چھایا ہوگی۔ ‘‘

’’اور جب میرب پہلی بار گود میں آئی، تو کیا فیلنگز تھیں؟‘‘ہم نے پوچھا، توسعدیہ جیسے اس لمحے میں کھو سی گئیں ’’کیا بتاؤں ، آپ خود سوچیں، جب آپ کی زندگی کی سب سے بڑی، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مانگی دُعا، مجسّم قبولیت کی صُورت آپ کی گود، آغوش میں ہو، تو کیا جذبات ہوں گے۔ اپنی ایک عام، گناہ گار بندی کو، وہ ستّر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا اس طور نواز دے کہ نہ صرف رحمت، بلکہ دنیا کی سب سے خُوب صُورت رحمت جھولی میں آجائے، تو پھر اِک کمزور، کم مایا، عاصی آنسوؤں کا نذرانہ لُٹانے کے سوا کیا کر سکتا ہے۔ میرے بھی بس چَھم چَھم آنسو بہہ رہے تھے۔ میری ماں کو میری شادی، اولاد کی بڑی خواہش تھی بلکہ شاید یہی وہ آخری خواہش تھی، جو وہ دل میں لیے دنیا سے چلی گئیں۔ تو جب میری دعاؤں میں مانگی گئی بیٹی دنیا میں آئی، تو اُس کی آمد کی نہ سنبھالی جانے والی خُوشی اور اپنی ماں کے دنیا سے چلے جانے کا نہ بُھلایا جانے والا غم، دونوں کا کچھ ایسا مِلا جُلا امتزاج تھا کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔‘‘

’’میرب کی پہلی مسکراہٹ، پہلالفظ، قدم، شرارت، فرمایش، اسکول کا پہلا دن اور، اور، اور… سب کو کیسے انجوائے کیا؟‘‘ ہمارے اس سوال پر سعدیہ نے بڑے پُر جوش انداز میں بتانا شروع کیا ’’میرب بڑا پیارابچّہ ہے۔ میری بیٹی، میری شہزادی، میری ننّھی پَری، میرے دل کی ٹھنڈک، میری آنکھوں کی روشنی ہے۔ مَیں اُس کی کیا کیا باتیں بتاؤں۔ ایک تو یہ پیدایشی اسٹار ہے، ایک چمکتا دمکتا ستارہ۔ جو اسےایک نظر دیکھتا ہے، اس سے ایک بار ملتا ہے، اس کاگرویدہ ہوجاتاہے۔اس کی ملکوتی مسکراہٹ، روشن دِیوں سی لَو دیتی آنکھیں، بھولپن، معصومیت، شوخیاں، شرارتیں، مترنّم جھنکار سی ہنسی اور میٹھی میٹھی باتیں، مَیں اس کے حصار سے نکلوں، تو کچھ اور سوچوں۔ ؎ ’’وہ لمحہ جب مِرے بچّے نے ماں پکارا مجھے… مَیں ایک شاخ سے کتنا گھنا درخت ہوئی‘‘ میرب نے مجھے ماں بنا کر مکمل ہی نہیں کیا، میرے مکمل وجود کو اپنا اسیر بھی کر لیا ہے۔ جب سے یہ دنیا میں آئی ہے، اللہ شاہد ہے کہ شاید ہی کوئی لمحہ ہو، جب میں اس سے غافل ہوئی ہوں۔ مَیں شادی سے پہلے کس قدر کیریئر اورینٹڈ، سوشل تھی اور اب سال، چھے ماہ میں کوئی ایک پراجیکٹ کرتی بھی ہوں، تو میرب کے شیڈول کو سامنے رکھ کر۔ میرب کا اسکول، گیمز، دیگر ایکٹیویٹیز کسی طور متاثر نہیں ہونے دیتی۔ میری اوّلین ترجیح میرا گھر، میری فیملی، میری بیٹی ہے۔‘‘

’’آپ یہاں، شوہر جرمنی میں… تو کیا میرب کی شخصیت میں کوئی خلا تو نہیں رہ جائے گا کہ بچّے کو تو اپنے ماں باپ دونوں ایک ساتھ ہی چاہیے ہوتے ہیں؟‘‘ ہمارا سوال تھا، جس کا جواب سعدیہ نے کچھ یوں دیا کہ ’’مَیں نے یہ اتنابڑا فیصلہ صرف اور صرف میرب ہی کے لیے تو کیا ہے اور مَیں اس معاملے میں اپنے رَب کا جس قدر شُکر ادا کروں، کم ہے کہ میرے اس فیصلے کو عدنان نے مکمل سپورٹ کیا۔ دراصل میں نہیں چاہتی تھی کہ میرب اپنے خونی رشتوں ددھیال، ننھیال سے الگ تھلگ رہے۔ اسے پتا ہی نہ ہو کہ دادا، دادی، چچا، چچی، پھوپھیوں، خالاؤں، ماموؤں کا رشتہ کیا ہوتا ہے۔ اور اب دیکھیں، جس قدر میرب کو ان رشتوں کی پہچان، قدر ہے، کم ہی بچّوں کو اِس عُمر میں ہوتی ہوگی۔

یہ خاندان کی واحد بچّی ہے، جو اپنے ہر خونی رشتے کو اُس کے نام سے جانتی پہچانتی اور پکارتی ہے۔ مجھے اپنے پیاروں کو مصنوعی ناموں ’’انکل، آنٹی‘‘ سے بلانا بالکل پسند نہیں۔ خالہ، پھپھو، چاچو جیسے ناموں میں جو محبت و چاشنی ہے، وہ ان بناوٹی الفاظ میں کہاں۔ تو بس، میرب کو اُس کے خاندان سے جوڑے رکھنے ہی کے خیال سے ہم نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔ اب ایساہےکہ سال میں تین ماہ میرب اور مَیں پاکستان میں، تو تین ماہ جرمنی میں ہوتے ہیں۔ اور میرب جس قدر مجھ سے اٹیچڈ ہے، اُتنی ہی اپنے بابا سے بھی ہے۔ اور پھر اب تو اسکائپ، واٹس ایپ کا دَور ہے۔ ہم ایک ایک منٹ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں؟‘‘

’’آپ کا میرب سے اور میرب کا آپ سے محبت کا انداز وہی ہے، جو آپ کی والدہ کا آپ سے اور آپ کا اُن سے ہوتا تھا؟‘‘ ہمارے اس سوال پر سعدیہ تھوڑی جذباتی ہوگئیں، ’’ماں تو ماں ہی ہوتی ہے۔ اس کی نہ کوئی شکل، چھب ڈھب ہوتی ہے، نہ نام اور نہ کوئی شخصیت، وہ مجسّم ’’ممتا‘‘ ہوتی ہے۔ مہر و وفا کی پُتلی، اولاد کے لیے چھپّر چھاں۔ بغیر کہے اولاد کی ہر بات، ہر دُکھ سُکھ سمجھنے والی، مَرتے دم تک بس دُعا ہی دُعا۔ میری ماں، آپ کی ماں، سب کی ماں، دنیا کی پہلی ماں اور دنیا کی آخری ماں، مَیں نہیں سمجھتی، کوئی بھی ماں، ممتا کے جذبے سے عاری ہوسکتی ہے۔ وہ ہے ناں ؎ ’’مَیںنے ماں کا لباس جب پہنا.....مجھ کو تتلی نے اپنے رنگ دیئے‘‘ تو ایک عورت، جب ماں کے درجے پر فائز ہوجاتی ہے ناں، تو پھر اللہ اس کو اتنے رنگ، بھاگ لگاتا ہے۔ اس کو اس قدر صبر و تحمّل، حوصلہ، ظرف، ہمّت و جرأت دے دیتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ چڑیا سے دل والی، شیر سے بِھڑ سکتی ہے۔ میری ماں نے، میرے لیے کیا کیا نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن کی ایک رات کا قرض ادا نہیں ہوسکتا۔ مجھے یاد ہے، جب میںکھانےپینے میں نخرے کرتی تھی، امّاں کے ہر دَم اپنے لیے فکرمند رہنے پر چِڑ سی جاتی تھی کہ ’’امّاں!مَیں کوئی بچّی تھوڑی ہوں‘‘ تو وہ کہتی تھیں، ’’جب تُو خود ماں بنے گی ناں، تب پتا چلے گا‘‘ اور بہ خدا، پتا تب ہی چلتا ہے، جب ہم بیٹیاں، خود مائیں بنتی ہیں کہ ماں سے زیادہ مجبور فرد دنیا میںکوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اولاد کے لیے اپنی بے لوث، بے ریا محبت کے معاملے میںجس قدر ایک ماں مجبور ہوتی ہے، دنیا کا کوئی شخص نہیں ہوتا۔ یہ ماں کے اختیار ہی کی بات نہیں کہ وہ اولاد کے لیے تڑپنا، فکرمند ہونا، بولائے بولائےپھرنا چھوڑ دے۔ ماں جینا چھوڑ سکتی ہے، اپنی اولاد کو ٹوٹ کر چاہنا نہیں چھوڑ سکتی۔

رہی اولاد کی بات، تو مَیں نے تو اپنے والدین سے دنیا میں سب سے زیادہ پیار کیا ہے۔ مجھے اپنی ماں کو دیکھے بغیر سانس نہیںآتی تھی۔ شُوٹس سے رات کو گھر جاتی تو جب تک اُن سے کَس کے جپّھی نہ لگا لیتی، سکون نہیںآتا تھا۔ آج بھی شاید ہی کوئی لمحہ ہو، جب اُن کا خیال ساتھ ساتھ نہ رہتا ہو۔ خاص طور پر جب کوئی پریشانی ہوتی ہے، تو بس دل کرتا ہے کہیں سے امّاں آجائیں، کسی طرح اُن کے گلے لگ جائوں۔ آج اگر زندگی میںکوئی کمی لگتی ہے، تو بس یہی کہ امّی، پاپا نہیں ہیں۔ وہ ہوتے تو اپنی بیٹی کو اس قدر خوش و خرّم دیکھ کر کیسے نہال ہوئے جاتے۔ ہاں، جب میرب میرے ساتھ لاڈیاں کرتی ہے۔ مَیں کہتی ہوں، ’’میرب ایک ٹھنڈی تو دے دو‘‘ اور وہ بھاگ کے آکے مجھ سے لپٹ جاتی ہے، تو اس کی وہ جادو کی جپّھی، جیسے میری ہر فکر، پریشانی کا مداوا بن جاتی ہے۔ بڑے سے بڑا زخم بھی مندمل ہوجاتا ہے۔ سچ ہے کہ وہ ستّر مائوں سے زیادہ چاہنے والا رَب، اگر ایک دَر بند کرتا ہے، تو اپنے بندے کے لیے دس دَر کھولتا بھی ہے۔ والدین نہیںرہے، تو ایسا چاہنے والا شوہر، سُسرال اور میرب جیسی اَن مول نعمت عطا کردی۔‘‘

’’آپ نے میرب کی تعلیم و تربیت کے لیے سب کچھ چھوڑدیا، توکیااولاد بھی، والدین کی ان قربانیوں، محنتوں، ریاضتوں کی قدرکرتی ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو سعدیہ نے بڑے یقین سے کہا، ’’کیوں نہیں، مجھے میرے والدین کی محنتوں، محبتّوں، کا شدّت سے احساس تھا، اور ہے۔ اور الحمدُللہ، میری بیٹی ابھی سے اتنی سمجھ دار، سُلجھی ہوئی ہے کہ وہ مجھے میری توقعات سے بڑھ کر رزلٹ دیتی ہے۔ میرب میری آنکھ کا اشارہ سمجھتی ہے۔ جب تک میںہاں نہ کہہ دوں، وہ دہلیز سے قدم نہیںاٹھاتی۔ ضدیں، لاڈ بھی کرتی ہے، مگر ماں کی ذرا سی ناراضی برداشت نہیں کرسکتی۔ اُسے پتا ہے، ماں کو کیا بات بُری لگتی ہے، کیا اچھی۔ اپنی اسٹڈیزمیں بہترین ہے۔ اُس کی ساری ایکٹیویٹیز بڑی پازیٹو ہیں۔ اتنی ہنس مُکھ، خُوش مزاج، خُوب سیرت بچّی ہے کہ خاندان بھر کی آنکھ کا تارہ ہے۔ اپنےسارےرشتوں کےادب و احترام کا اُسے پتا ہے۔کزنز، دوستوں کے ساتھ خوب انجوائے کرتی ہے۔ اساتذہ کی پسندیدہ ہے۔ اپنے ملازمین، میڈز کے ساتھ بڑی مودب ہے، تو اتنی چھوٹی سی بچّی سے اب اس سے زیادہ مَیں کیا توقع رکھوں۔ میرا تو ماننا ہے کہ اگر آپ اپنی اولاد پر اپنا حق حلال انویسٹ کریں، تو ممکن ہی نہیں کہ نفع نہ ہو۔ ہم اُسے بہترین وقت، اچھی تعلیم و تربیت دیں گے، تو وہ بھی ہماری توقعات پر سو فی صد پوری اُترے گی۔ ہم جو بوتے ہیں، وہی کاٹتے ہیں۔ والدین خود تو اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے تکلیف اٹھانے کی زحمت نہ کریں اور اولاد سے اُمید رکھیں کہ وہ بڑی اطاعت گزار، فرماں بردار ہو، تو ایسا کیسے ممکن ہے اور ایک اور بات، مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر والدین، اولاد کے لیے تکلیف، جوکھم اٹھاتے بھی ہیں، تو کیا اس میں اُن کی اپنی خوشی نہیں ہوتی۔ مجھے تو اپنی بچّی کا چھوٹے سے چھوٹا کام کرنا، اُس کی ہنسی، ناراضی ، ادائیں، روٹھنا منانا، بھاگنا دوڑنا، کھیلنا کُودنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، اِک اِک پل بہت خوشی دیتا ہے۔ مَیں تو اُس کی پیدایش سے آج تک کا ایک ایک لمحہ،اُس کے ساتھ ساتھ خود بھی نئے سرے سے جی رہی ہوں، تو جب اولاد کی پرورش، تعلیم و تربیت خود والدین کے لیے بھی باعثِ خوشی و اطمینان ہے، تو پھر قربانیوں، محنتوں مشقّتوں کے خراج، صلے کی تمنا کیا رکھنا۔ ‘‘

’’سعدیہ کی میرب‘‘ کی بھاگ دوڑ، شرارتیں، ہنسیاں، لاڈیاں، چہکاریں، مہکاریں، شوخیاں، ادائیں پورے شوٹ کے دوران عروج پر تھیں۔ ہم نے میرب سے وہی روایتی سوال، جو ہر بچّے سے کوئی نہ کوئی بڑا ضرور کرتا ہے، پوچھا، ’’ماما، بابا میں سے زیادہ پیارا کون لگتا ہے؟‘‘ تو فوراً چٹاخ سے جواب دیا، ’’دونوں۔ مگر ماما دنیا میں سب سے زیادہ پیاری لگتی ہیں۔‘‘میرب نے مزید بتایا کہ وہ اپنی ماما کی ہر بات مانتی ہیں۔ اُن کے پسندیدہ رنگ پنک، پرپل، ریڈ ہیں۔ سب سے پسندیدہ ٹیچر، مِس آمنہ ہیں۔ بیسٹ فرینڈ زارا اور عالیہ خالہ کا بیٹا، المیر ہیں۔ اپنے بابا کی طرح بڑے ہو کر ڈینٹیسٹ بننا چاہتی ہیں۔ بھاگ دوڑ کے سارے کھیل کھیلنا اچھا لگتا ہے۔(مگر بقول سعدیہ، سارا دن ماما کا دماغ چاٹنا، نئے نئے اور انوکھے سوالات کرنا میرب کا پسندیدہ ترین کام ہے)ماما کے ساتھ شاپنگ کرنا، گھومنا پھرنا، پارکس میں جانا اور چُھٹیوں میں پاپا کے پاس جرمنی جانا بہت بہت اچھا لگتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ماما کے برتھ ڈے اور خاص طور پر مدرز ڈے پر ماما کو اپنے ہاتھ سے کارڈ بنا کر دیتی ہیں اور ساتھ گفٹ بھی۔ جب کہ ماما کا کہنا ہے کہ ’’میری زندگی کا سب سے قیمتی، اَن مول تحفہ وہ کارڈ ہی ہے، جو میری بیٹی پچھلے دو سالوں سے اپنے ہاتھ سے بنا کر مجھے دے رہی ہے۔‘‘