جدید سائنسی تقاضے اور فواد چوہدری

May 09, 2019

مذہب اور سائنس کی آویزش بہت قدیم ہے۔ اہلِ مذہب کی باہمی جنگ و جدل رہی، ایک طرف اُنہوں نے سائنسی سوچ کے حاملین پر صدیوں جو مظالم ڈھائے اور جو اذیتیں پہنچائیں، اُن کی ایک طویل درد ناک داستان ہے۔ آج جن سچائیوں کو ہم مسلمہ حقائق تسلیم کرتے ہیں، ایک زمانے میں اُن پر اظہارِ خیال کرنا ناقابلِ معافی جرم تھا۔ مثال کے طور پر گردشِ زمین کا نظریہ آج اِس قدر قبولیت عامہ کا حامل ہے کہ کوئی اُس کی مخالفت میں بولے تو بچے بھی اُس پر ہنسیں اور مذاق اڑائیں گےکہ آج سب کو معلوم ہے کہ دن اور رات کیسے بدلتے ہیں مگر قدیم زمانے کے لوگ گردشِ زمین کی حقیقت سے بے خبر تھے۔ وہ ظاہری طور پر جو کچھ دیکھتے تھے اُسی کو حقیقت خیال کرتے تھے۔ آج کا انسان یہ جانتا ہے کہ اِس وقت اگر یہاں پاکستان میں رات ہے تو لازم نہیں پوری دنیا میں رات ہو۔ اِس وقت سورج ڈوبا نہیں ہے بلکہ دنیا کے کسی اور حصے میں چمک رہا ہے۔ پچھلے زمانے میں ہماری عقل ڈوبی رہی مگر اُس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے کئی لوگوں کی عقلوں پر آج بھی پردے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ نان ایشو کو ایشو بنا دیتے ہیں۔ چاند دیکھنے کا مسئلہ بھی اُن میں سے ایک ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے تب سے یہ نان ایشو کسی نہ کسی حوالے سے ہر سال ایشو بنتا چلا آرہا ہے، بالخصوص عیدین کے مواقع پر یہ اختلاف رائے مخالفانہ پروپیگنڈے تک پہنچ جاتا ہے۔

ہمارے عامتہ المسلمین کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ کم از کم ہمارے ایک ملک میں عید ایک ہی مقررہ دن کو ہونا چاہئے تاکہ قومی یکجہتی کا بہتر مظاہرہ ہو سکے۔ رویت ہلال کمیٹی کی مہنگی تشکیل بھی اِسی مقصد کے تحت قبول کی گئی تھی مگر افسوس یہ کمیٹی بھی اپنے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اپنا مقصد حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ پشاور کے مفتی پوپلزئی ہر سال بازی لے جاتے ہیں۔ وہ ایک دو نہیں، بیس بیس شرعی شہادتوں سے اپنا چاند اِس خوبصورتی سے دیکھ لیتے ہیں جسے ہمارے سرکاری مولوی صاحبان اپنی بزرگانہ محنت مشقت اور قدیمی دور بینوں کی مدد کے باوجود دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً قوم ہر سال یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔ عالمان کی شان کے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لہٰذا ہم اپنے عوام کی خدمت میں یہ التماس ضرور کریں گے کہ ہر سال قومی یکجہتی کا مظاہرہ دیکھنے کی خواہش یا حسرت ہی دل سے نکال دیں۔ خواہش تو اُن کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ملتِ واحدہ کا تصور ابھارتے ہوئے تمام تر مذہبی تہوار منانے میں یک رنگی و یکجہتی دکھائیں۔ جب مکہ میں حج ہو رہا ہوتا ہے وہ پوری دنیا میں اُسی روز ’’یوم عرفہ‘‘منائیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ خواہشات کا گھوڑا بے لگام ہوتا ہے مگر ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں کی مناسبت سے اِس گھوڑے کو لگام ڈالنا پڑ رہی ہے۔

جمہوری تقاضوں کی روشنی میں فی زمانہ بہترین حکومت وہی ہوتی ہے جو لوگوں کے ذاتی، مذہبی یا سماجی معاملات میں کم سے کم مداخلت کرے۔ فلاحی و رفاہی ریاست میں حکومت کا کردار تو یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کی غربت یا معاشی تنگدستی کو کس طرح خوشحالی میں بدلا جائے، بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر آپ اپنے نوجوانوں کو روز گار نہیں دے سکتے ہو تو کم از کم اُنہیں بے روزگاری کا مناسب الاؤنس دو۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرو تاکہ عوام اپنی بنیادی ضروریاتِ زندگی مناسب نرخوں خرید سکیں۔ ایسی ٹھوس پالیسیاں بناؤ جن سے عام عوام کے روٹی، کپڑے اور مکان کا مسئلہ حل ہو۔ مفت تعلیم اور مفت علاج عوام کا بنیادی انسانی حق اور ہر حکومت کا فرض ہے۔ ہماری حکومتیں اصل عوامی مسائل اور دکھوں کا مداوا تو کرتی نہیں البتہ جو نان ایشوز ہیں اُنہیں ایشوز بناکر قوم کو کیوں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں؟

درویش بنیادی طور پر ایک مولوی آدمی ہے۔ ساری زندگی قال اللہ وقال رسولؐ پڑھتے اور پڑھاتے گزری ہے اور پورے وثوق سے یہ لکھے دے رہا ہے کہ ہمارے دین میں پاپائیت کا کوئی تصور نہیں ہے، یہ تصور مسیحیت سے آیا ہے۔ ہمارے مذہب میں پاپائیت کا ادارہ دورِ مکوکیت کی پیداوار ہے کیونکہ عہدِ رسالت و خلافتِ راشدہ میں تو جو حکمران ہوتے تھے وہی نمازوں کی امامت بھی کرتے تھے اور دیگر سیاسی و سماجی امور و معاملات میں بھی رہنمائی فرماتے تھے۔ اسلام میں خدا اور بندے کا براہ راست باہمی تعلق واسطہ ہے، کوئی مسلمان محتاج نہیں ہے کہ وہ کسی کو سیڑھی بنائے گا تو خدا تک پہنچے گا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اکیسویں صدی کے اقبال تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے یہاں علماء یا عالمان کی اصطلاح قطعی طور پر غلط استعمال ہو رہی ہے ہم نے اُسے غلط طور پر محض مذہبی لوگوں تک محدود کر رکھا ہے حالانکہ جو سائنسدان ہیں وہ سائنس کے علماء ہیں، جو وکلاء ہیں وہ قانون کے علماء ہیں، جو ادیب و شاعر ہیں وہ ادب کے علماء ہیں، جو معاشی ماہرین ہیں وہ علمائے معیشت ہیں لیکن ہم نے علماء کا مطلب یہ مشہور کر رکھا ہے جو مذہبی شخصیت ہو چاہے وہ علمی مقام میں کمتر ہو،وہ عالم ہے۔

ہماری اِس تمام تر بحث کا مدار وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی پہلی کھری بات بنی ہے، جس میں اُنہوں نے یہ کہا ہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لیں گے۔ عصرِ حاضر میں سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ ہمیں بھاری بھر کم پرانی دور بین اور اسے استعمال کرنے والوں سے آگے نکلنا ہو گا۔ اُنہی کی زبانی قوم کو یہ معلوم ہوا کہ ہر سال کئی ملین کی رقومات محض چاند دیکھنے پر خرچ کر دی جاتی ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری جیسا بے باک قانون دان اپنے تمام تر ٹھوس دلائل کے باوجود کیا اپنی اس قیادت کو قائل کر سکے گا جو آج بھی روحانیت کو سپر سائنس بنوانے اور منوانے پر تلی بیٹھی ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار جدید سائنسی تقاضوں کا ادراک بھی تو حاصل کریں۔