سیاحوں کا مسکن... وادی نگر، گلگت بلتستان

May 19, 2019

ہدایت حسین نظر

کرئہ ارض پر لاتعداد مقامات و خطّے اپنی خوب صورتی، قدرتی حُسن اور حسین نظاروں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ گلگت بلتستان کا شمار بھی ان ہی خوب صورت علاقوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں 10اضلاع پر مشتمل 28,174 مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا گلگت بلتستان اپنے اندر حسین وادیوں، قیمتی پتھروں، قدرتی اور قابلِ دِید نظاروں کا ایک بیش بہا خزانہ سموئے ہوئے ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2 ،8000 میٹر سے اونچی5 چوٹیاں اور سیکڑوں کی تعداد میں دیگر بلند پہاڑی چوٹیاں، گلیشیئرز، دریا، ندیاں، نالے، آب شاریں، جھیلیں، پہاڑ کے سینے چیرتے راستے اور تاریخی قلعے اس علاقے کی حُسن کو چار چاند لگاتے ہیں۔ یوں تو گلگت بلتستان کی تمام ہی وادیاں خوب صورتی اور کشش کے اعتبار سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ تاہم، ان میں راکاپوشی، دیران پیک اور گولڈن پیک کے دامن میں گِھری پُرفضا و دل فریب وادی ’’نگر‘‘ کو ربِ کائنات نے بے پناہ قدرتی حُسن سے نوازا ہے۔ اس کے سحر انگیز مناظر میںکھو کر انسان تمام تفکّرات سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ ہر سال موسمِ بہار کے آغاز ہی سے اندرون اور بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں سیّاح ان دل کش و خوب صورت وادیوں کا رُخ کرتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے دارالحکومت، گلگت کے شمال میں تقریباً 50کلومیٹر کی مسافت پر واقع ضلع نگر2تحصیلوں پر مشتمل ہے، جہاں 25کے قریب چھوٹے بڑے گائوں آباد ہیں۔ وادی نگر میں جرائم نہ ہونے کے برابرہیں۔ پوری وادی میں کوئی جیل نہیں اور نہ ہی یہاں کے تھانوں میں کوئی قیدی نظر آتا ہے۔ البتہ معمولی نوعیت کی کسی جھگڑے کی صورت میں مقامی بزرگ معاملے کو حل کروانے اور متاثرین کو انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسے یہ علاقہ خوب صورت ہے، بالکل اسی طرح یہاں کے باسی بھی خوب صورت، خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں۔ نگر کی عمومی زبان بُروشسکی ہے۔ بُروشسکی کے علاوہ یہاں شینا، اردو اور انگریزی بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔آبادی لگ بھگ 90,000 نفوس پر مشتمل ہے۔ گلگت سے وادئ نگر جانے کے لیے واحد راستہ قراقرم ہائی وے ہے۔ سفر کے دوران راستے میں دنیور، جوتل، رحیم آباد اور جگلوٹ (گورو) وغیرہ بھی آتے ہیں۔ کچھ دیر سستانے اور آرام کے لیے گورو ایک بہترین جگہ ہے، یہاں کے چشمے کا ٹھنڈا پانی انتہائی فرحت بخش ہے۔ گورو، ضلع گلگت کا آخری گائوں ہے، جس کے بعد ہی آسمان سے باتیں کرتی برف کی چادر اوڑھے وادئ نگر، اندرون اور بیرون ملک سے آئے مہمان سیّاحوں کا استقبال کرتی ہے۔ وادئ نگر میںداخل ہوتے ہی ایک خوب صورت یادگار نظر آتی ہے، جو وطن عزیز پر قیمتی جانیں نچھاور کرنے والے شہداء کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔اس کے قریب ہی ایک ارضیاتی عجوبہ بھی ہے، جس کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ اس مقام پر 55 ملین سال قبل2اہم ایشیائی اور انڈین ارضیاتی پلیٹوں کے باہم ٹکرانے کے باعث یہ عظیم پہاڑی سلسلے وجود میں آئے۔ گلگت سے وادئ نگر جاتے ہوئے قراقرم ہائی وے سے بائیں طرف وادی کا پہلا دل فریب علاقہ ’’شینبر‘‘ آجاتا ہے۔ سیّاحتی حوالے سے اس کے چار بڑے گائوں چھلت، بَر، بُڈہ لس اور چھپروٹ مشہور ہیں۔ ان علاقوں کو شاہِ قراقرم سے ملانے کے لیے دریائے نگر پر ایک پل تعمیر کیا گیا ہے۔ قراقرم ہائی وے پریادگار شہداء سے کچھ مسافت پر ضلع نگر کا صدر مقام ’’ہریسپو‘‘ واقع ہے۔ ہریسپو کی بل کھاتی سڑک سے کچھ ہی فاصلے پر سابق میر آف نگر (راجا میر اسکندر خان) کے نام سے آباد علاقہ ’’اسکندر آباد‘‘ واقع ہے۔ اسکندر آباد میں داخل ہوتے ہی سڑک کے بائیں جانب قدیم شاہ راہِ ریشم آجاتی ہے، اس کے بالکل سامنے دنیا کی مشہور چوٹی راکاپوشی کا مسحورکن نظارہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تحصیل نگر کے سرکاری دفاتر بھی قائم ہیں، جس کی وجہ سے سارا دن سائلین کا رش لگا رہتا ہے۔ اسکندرآباد سے چند منٹ کی ڈرائیو پر ٹونگ داس پر ایک تاریخی مقام نلت ہے، جو تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں جنگیرلئی کے مقام پر1891ء میں برطانوی راج اور ریاست نگر کے درمیان’’Anglo-Brusho War‘‘ کے نام سے ہونے والی جنگ، لوگ آج تک نہیں بھولے۔ نلت سے تھوڑا آگے تھول اور غلمت کےحسین علاقے ہیں۔ تھول کا دیسی پیزا ’’چھپ شرو‘‘ بہت ہی ذائقے دار ہوتا ہے۔ ’’چھپ شرو‘‘ میں مارخور، یاک (پہاڑی گائے)، بکری یا دیسی گائے کا گوشت استعمال ہوتا ہے۔ غلمت میں عظیم بزرگ سّیدشاہ ولی کے مزار پر ہرسال زائرین کی ایک بڑی تعداد زیارت کے لیے آتی ہے۔ غلمت بازار سے کچھ ہی فاصلے پر آسمان سے باتیں کرتی راکاپوشی کی خوب صورت چوٹی ہے۔ اس مقام پر راکاپوشی کے سینے سے بہتے ٹھنڈے پانی کی گزرگاہ کے لیے سڑک پر ایک پُل کے علاوہ متعدد ریسٹ ہائوسز بنائے گئے ہیں۔ ملکی اور ٖغیر ملکی سیّاح یہاں قدرت کے حسین نظاروں کے ساتھ ساتھ وادئ نگر کے روایتی کھانوں، شربت، چھپ شرو سمیت دیسی گھی سے بنے دیگر صحت بخش کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں کے روایتی کھانوں میں دیسی گھی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ آبائی باشندے شربت نامی کھانا بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ دیسی گھی سے بنا یہ صحت بخش کھانا، زیادہ تر شادی بیاہ پر براتیوں کو خصوصی ڈش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جب کہ مُل بھی وادی کاایک عمدہ اور ذائقے دار کھانا ہے، جس میں دیسی گھی اور ذائقے کے لیے چینی یا نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک خاص قسم کے جوس ’’چھمس‘‘ کا استعمال بھی عام ہے، جو موسمِ گرما اور بہار میں رغبت سے پیا جاتا ہے۔ خشک خوبانی سے بنایا جانے والا یہ دیسی جوس، معدے کی گرمی اور دائمی قبض دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔

غلمت سے چند ہی کلومیٹر کی مسافت پر شاہ راہِ قراقرم کے دائیں جانب دیران پیک کا بسیرا ہے، راکاپوشی بیس کیمپ بھی اسی علاقے میں ہیں۔ مناپن میں دِیران پیک کے علاوہ سیاحتی مقامات میں تغافری، کچھیلی، ہپہ کن اور بنی داس قابلِ ذکر ہیں۔ ہر سال ماہِ جولائی میں تغافری کے مقام پرDonkey Polo کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ڈنکی پولو بھی گلگت بلتستان کے مقامی کھیل، پولو کی طرح کا ایک فری اسٹائل کھیل ہے، جس میں کھلاڑی گھوڑے کی بجائے گدھے پر سوار ہوکر پولوکھیلتے ہیں۔ مناپن میں سیّاحوں کے طعام و قیام کے لیے بہترین ہوٹلز بھی ہیں، جن میں اوشو تھانگ (مہمانوں کی کوٹھی) اور دیران گیسٹ ہائوس قابلِ ذکر ہیں۔ مناپن کے بعد میاچھر، ڈاڈیمل، غما داس اور سیّدآباد(پھکر) اورہکوچھر کے علاقے ہیں۔ سیّد آباد کو سرزمینِ شہداء بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ساس ویلی (شاہ یار، اسقرداس، سمائر) کا نمبر آتا ہے۔ ساس ویلی ضلع نگر کا نہایت ہی حسین علاقہ ہے۔ بابائے نگر، شیخ احمد فیضی مرحوم کا تعلق بھی اسقرداس سے ہے، جنہوں نے وادی میں تعلیم کی داغ بیل ڈالی۔ سمائر قیمتی پتھروں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ قیمتی پتھروں کی خریدو فروخت کے لیے یہاں ملکی و غیر ملکی سیّاحوں کا رش رہتا ہے۔نیز، قدیم نگر کی ابتدائی آبادی کیپل ڈونگس ، سبزہ زار رُنگ( بھرپُو)، بولترگلیشیئر اور مشہور گولڈن پیک بھی اسی علاقے میں ہیں۔ ہوپر سے گولڈن پیک تک کافی لمبا پیدل راستہ ہے، مقامی افراد اس فاصلے کو تقریباً 12گھنٹے میں طے کرتے ہیں، جب کہ غیر مقامی اور سیّاحوں کویہ فاصلہ طے کرنے میں 3سے 4 دن لگتے ہیں۔ گولڈن پیک سے 2 گھنٹے کی مسافت پر سطح سمندر سے لگ بھگ 16ہزار فٹ بلندی پر واقع ایک خوب صورت اور قدرتی جھیل رش لیک (Rush Lake) ہے۔جھیل کے قریب ہی ہوپر کے مقام پر سیّاحوں کے لیے شان دار ہوٹلز تعمیر کیے گئے ہیںاور وادی کے آخری گائوں ہسپرمیں ٹریکنک کے خواہش مند مہم جُوافراد کے لئے بیس کیمپ بنایا گیاہے۔ یہیں سے پولر ریجنز سے باہر دنیا کے تیسرے طویل ترین گلیشئر، بیافو کی شروعات ہوتی ہے۔67 کلومیٹر طویل بیافو گلیشئر، وادی نگر کوضلع اسکردو سے ملاتا ہے۔ ہسپرمیں آئی بیکس، مارخور،پہاڑی بکرے اور یاک کثرت سے پائے جاتے ہیں، جب کہ یہ ٹریک برفانی چیتوںاور ہمالین برائون بئیرزکی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔