پاکپتن اراضی کیس، جے آئی ٹی رپورٹ پر فریقین سے جواب طلب

May 15, 2019

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکپتن دربار اراضی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ پر فریقین سے 15 یوم میں جواب طلب کر لیا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آگئی ہے، دربار کی اراضی کیا اوقاف کی ہے یا سرکار کی؟ سوال یہ ہے کہ وزیرعلیٰ نے ایک سمری پردستخط کر کے اراضی ایک پرائیویٹ آدمی کو دی۔

افتخار گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ اس جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات اور جواب داخل کرا چکا ہوں، 29 سال بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے، اس کیس میں 1986ء کے وزیرعلیٰ کو بھی نوٹس کیا گیا، اوقاف صرف وقف املاک کی دیکھ بھال کرتا ہے، اس کی اپنی کوئی ملکیت نہیں ہوتی۔

رفیق رجوانہ پہلی بار نواز شریف کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ اراضی سجادہ نشین کو صرف دیکھ بھال کے لیے دی گئی، یہ سجادہ نشین نے آگے فروخت کر دی، زمین محکمہ اوقاف سے واپس لینے کا نوٹیفکیشن سیکریٹری اوقاف نے جاری کیا، نواز شریف کا اس سارے معاملے میں کوئی کردار نہیں، سمری دستخط کرتے وقت کسی نے نہیں سوچا کہ آگے کیا ہو گا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ سرکاری زمین کا تحفظ ہونا چاہیے، زمین کی الاٹمنٹ کی سمری اس وقت کے وزیرعلیٰ نے منظور کی، زمین کی الاٹمنٹ کا فیصلہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی تھی، حقائق جاننے کے لیے معاملے پر جے آئی ٹی بنوا کر تحقیقات کرائیں۔

رفیق رجوانہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ’ون مین رپورٹ‘ ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت عید کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دی۔