مشیر خزانہ نے چاروں تجاویز پر اتفاق کیا،فوری احکامات دیئے،عارف حبیب

May 21, 2019

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صنعتکار عارف حبیب نے کہا ہے کہ مشیر خزانہ نے چار تجاویز پر اتفاق کیا اور فوری احکامات دیئے،کیپٹل مارکیٹ بہت زیادہ مطمئن ہے ،گورنر اسٹیٹ بینک سےہماری میٹنگ فائدہ مند رہی،وزیر اعظم نےکہامیں خود معاشی مسائل کو مانیٹر کروں گا،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اپنی اپنی رائے لیکن مقصد ایک ہے، آل پارٹیز کانفرنس میں مشورہ کر کے ایک لائحہ عمل بنائیں گے، سڑکوں پر آنا آخری قدم ہوتا ہے جو اس وقت لیا جاتا ہے جب خدشہ ہو کہ عوام خود سڑکوں پر آجائیں گے،سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ بلاول کی افطار پارٹی میں اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کا کریڈٹ آئی ایم ایف کو جاتا ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے اپوزیشن کو اکٹھا کیا، اپوزیشن نے سوچ سمجھ کر اے پی سی کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کو دی ہے، معروف صنعتکار عارف حبیب سے گفتگو کے دوران شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا کہ جو غیریقینی کی صورتحال تھی، آپ نے کہا تھا کہ مشیر خزانہ سے ایک اور ملاقات کرنی ہے وہ ہوگئی، پھر وزیراعظم سے ملاقات ہوگئی، آپ کی غیریقینی کی جو پوزیشن تھی اس میں کمی آئی ہے یا ابھی تک صورتحال برقرار ہے؟ عارف حبیب نے کہا کہ جس طریقے سے آپ نے summerize کیے ہیں مانیٹری پالیسی کو آپ کو میں سراہتا ہوں، ہماری میٹنگ حفیظ شیخ سے ہوئی تھی اس میں کیپٹل مارکیٹ گروپ specific تھی ، اس میں ہم بہت ہی زیادہ خوش ہوئے کہ ہم نے جتنے بھی پروپوزلز ان کو دیئے جو چار پروپوزلز تھے انہوں نے then and there وہ چار پروپولز پر اتفاق کیا اور اس پر عملدرآمد کیلئے احکامات جاری کردیئے، مثال کے طور پر انہوں نے by back of shares کے سلسلہ میں جو لسٹڈ کمپنیاں، چونکہ ابھی پرائسز بہت زیادہ ہوگئی ہیں تو ان کے رولز کا ریویو ہورہا تھا ایس ای سی پی میں، ان کو کہا گیا کہ اس کو expedite کریں جو چیئرمین ایس ای سی پی نے وعدہ کیا ہے کہ منگل کو انشاء اللہ رولز جاری ہوجائیں گے، اسی طرح ایک ٹیکنیکل ایشو تھا اسٹاک ایکسچینج میں ریڈی فیوچر کی فائنانسنگ کا تھا جسے ایس ای سی پی نے اسی دن حل کردیا، اس کے بعد این آئی ٹی کی فنڈنگ کا معاملہ تھا، حکومت کے جو majority own shares ہیں اس میں انویسٹمنٹ کا پروپوزل تھا کیونکہ ماضی میں جب حکومت نے یہ investments کی تھیں تو اس میں صرف گارنٹی پر بغیر کوئی انویسٹمنٹ کیے گورنمنٹ کو پندرہ بلین روپوں کا کیپٹل گین ہوا تھا جو بجٹ میں ان کے کام آیا تھا، وہ فنڈ ابھی تک موجود ہے تو اس کو فنڈنگ کا پروپوزل تھا جو انہوں نے وہیں اتفاق کیا اور مجھے یقین ہے کہ ایک دو روز میں اس کی implementation ہوجائے گی، کیپٹل مارکیٹ بہت ہی زیادہ مطمئن ہے، وزیرخزانہ نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ کے مزید مسائل ہیں تو آپ پیش کریں تو ہم انہیں favourably consider کریں گے۔چوتھا مطالبہ ہمارا یہ تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ گورنر اسٹیٹ بینک سے ہماری میٹنگ ہو اور ان کو ہم مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ پالیسی کے کیپٹل مارکیٹ اور انویسٹمنٹ پر جو اثرات ہیں وہ ہم ان سے ڈسکس کریں، وہ میٹنگ بھی ہماری اسی دن آرگنائز ہوگئی اور وہ میٹنگ بہت زیادہ فائدہ مند رہی، اس میٹنگ میں بہت کھل کر ڈسکشن ہوئی، اس میں ہم نے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ پالیسی کی وجہ سے مہنگائی ہوتا ہے اور مہنگائی جب ہوتی ہے تو انٹرسٹ ریٹ بڑھانے پڑتے ہیں، ہم نے یہ بھی باتیں کیں کہ کیا یہ ایکسچینج ریٹ اور انٹرسٹ ریٹس ہیں کیا یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں تو انہوں نے کہا کہ جب تک اسٹاف لیول ایگریمنٹ ان کا بورڈ approve نہیں کرے گا ہم پبلک نہیں کرسکتے جسے ہم نے سراہا، لیکن انہوں نے کہا کہ یہ جو بھی فیصلے ہوں گے ہماری اپنی معیشت کی جو requirement ہے اس کی بنیاد پر ہم کریں گے، ہم نے یہ بھی بات کی کہ میرٹ اور آئی ایم ایف کی جو ریکوائریمنٹ ہے اس میں مارکیٹ میں کنفیوژن ہے کہ اگر کچھ requirement ہے اور اس کو meet کرنا ہے اوراس میں یہ بات بھی ہوئی کہ اگر آئی ایم ایف کی کچھ شرائط ہیں، ہماری طرف سے کہا گیا تو پھر آپ اسی مانیٹری پالیسی میں جو بھی requirement ہے وہ پوری کردیجئے گا تاکہ ایک غیریقینی ختم ہوجائے، اس پر یہ بھی طے ہوا کہ آئندہ یہ engagement جاری رہے گی تاکہ کیپٹل مارکیٹ اور سینٹرل بینک کی پالیسی میں ہم آہنگی پیدا ہوسکے۔ کل وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ میں براڈر سیکٹر سے نمائندگی تھی اس میں بہت سارے میکرو مائیکرو ایشوز ڈسکس ہوئے، اس میں وزیراعظم صاحب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ہم چاہیں گے کہ بزنس کمیونٹی کے ساتھ زیادہ frequent ہوں، ہم نے کچھ عرصہ پہلے کی تھی لیکن بعد میں گیپ آگیا تھا لیکن ہم یقینی بنائیں گے کہ یہ کم از کم مہینے میں ایک دفعہ ضرور ہو، دوسری انہو ں نے بات کی کہ معاشی مسائل میں نے اپنے ساتھیوں پر چھوڑے ہوئے تھے میری توجہ اس پر کم تھی اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں خود اس کو مانیٹر کروں گا اور اس پر زیادہ اٹینشن دوں گا، یہ بات سب لوگوں کو زیادہ پسند آئی، وزیراعظم نے اپنے منسٹر سے کہا کہ جتنے بھی مائیکرو ایشوز ہیں بزنس کمیونٹی کے اس کو دیکھا جائے اور ان کو میرٹ پر حل کریں، اگر کوئی معاملات رہ جاتے ہیں تو وزیراعظم کو پیش کیے جائیں۔ شاہزیب خانزادہ: یعنی یہ کہا جاتا ہے ان ساری ملاقاتوں اور یقین دہانیوں کے بعد جو دو بنیادی concern تھے کہ ہمیں بتادیں کہ روپیہ نے کہاں جانا ہے ڈالر کے مقابلہ میں اور شرح سود وہ حالیہ inflation یا prospective inflation وہ آپ کے خدشات کافی حد تک دور ہوتے ہیں، آئی ایم ایف کے پروگرام میں پاکستان ہے اور آپ کو نظر آیا ہے کہ حکومت کہیں نہ کہیں آپ کے مسائل ایڈریس کرنے کو تیار ہے؟ عارف حبیب: یہ توقع کرنا مناسب نہیں کہ حکومت بتائے گی کہ ایکسچینج ریٹ یا انٹرسٹ ریٹ کیا ہوگا لیکن جو ڈسکشن ہوئی وہ یہ تھی کہ اس کی جو basis ہے basis of exchange rate policy & monitory policy جو ہے، آپ کو پتا ہے مانیٹری پالیسی زیادہ تر inflation سے، inflation جو current ہے اور prospective ہے اس کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، اس پر یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ہم on merit پاکستان کے مفاد میں جو چیزیں ہوں گی اس کے مطابق ہم فیصلہ کریں گے۔ شاہزیب خانزادہ: یعنی آپ کو ایسی گارنٹیاں نہیں دی جارہیں جیسے اسد عمر نے پچھلے مہینے کہہ دیا تھا کہ آپ لوگ سکون کریں اس کے بعد سکون کا نتیجہ یہ نکلا کہ آٹھ روپے اور گر گیا، اب حکومت ایسا کچھ نہیں کررہی؟ عارف حبیب: ایسی بات نہیں ہوئی البتہ ایک مرحلہ پر وزیراعظم صاحب کی زبان سے یہ بات نکلی، انہوں نے کہ ایکسچینج ریٹ کے سلسلہ میں بھی جو ہونا تھا وہ substantially ہوچکا ہے، اس حد تک تو کچھ indication ہے لیکن میری نظر میں اس بات کی ضرورت ہے اس کے جو reasons ہیں اتنی ساری جو decline کے ان reasons کو ایڈریس کرنا بہت ضروری ہے تاکہ ہم proper stability achieve کرسکیں۔ شاہزیب خانزادہ: ظاہر ہے یہ بات اسٹیٹ بینک نے بھی اپنی مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ میں کہی ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اپنی اپنی رائے لیکن مقصد ایک ہے، آل پارٹیز کانفرنس میں مشورہ کر کے ایک لائحہ عمل بنائیں گے، سڑکوں پر آنا آخری قدم ہوتا ہے جو اس وقت لیا جاتا ہے جب خدشہ ہو کہ عوام خود سڑکوں پر آجائیں گے، حکومت نے ثابت کردیا کہ اس کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، پاکستان میں کاروبار کرنا ناممکن ہوگیا ہے، لوگ پیسہ بینکوں میں رکھیں گے جہاں 15فیصد ملے گا، اگر سمجھ بوجھ ہو تو آئی ایم ایف پروگرام میں بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت آٹھ ماہ کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے، اگر پہلے آئی ایم ایف کے پاس چلی جاتی تو یہ حالات نہ ہوتے، نیب ، حکومتی رویہ اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بزنس کمیونٹی کا اعتماد ختم ہوگیا ہے، تمام خرابیوں کی جڑ 2018ء کے متنازع الیکشن ہیں، 28مئی کو یوم تکبیر کے موقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی حکومت کی کارکردگی اور نواز شریف کے ساتھ ظلم عوام کے سامنے رکھیں گے، نواز شریف کیخلاف الزامات کوئی تسلیم نہیں کرتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شہباز شریف بجٹ سیشن سے پہلے وطن واپس آجائیں گے،آل پارٹیز کانفرنس میں شہباز شریف پارٹی کی نمائندگی کریں گے، حکومت کو اسمبلی میں غیر مستحکم کرنا ہمیشہ منفی ثابت ہوتا ہے، اسمبلی میں حکومت پر تحریک عدم اعتماد لانے سے زیادہ عدم استحکام ہوگا، ہماری خواہش ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے ،حکومتی رویہ بتاتا ہے کہ حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکے گی، یہ گری ہوئی حکومت ہے جو سنبھل نہیں سکتی ہے، عوام بجٹ کے بعد مہنگائی اور بیروزگاری کو برداشت نہیں کریں گے، سیاسی جماعتوں کا فرض ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں عوام کو سڑکوں پر لائیں اورحکومت پر دباؤ ڈالیں کہ جمہوری حل یعنی نئے الیکشن کی طرف جایا جائے۔سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ بلاول کی افطار پارٹی میں اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کا کریڈٹ آئی ایم ایف کو جاتا ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات نے اپوزیشن کو اکٹھا کیا، اپوزیشن نے سوچ سمجھ کر اے پی سی کی سربراہی مولانا فضل الرحمٰن کو دی ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ مل کر تحریک چلائیں گی تو کامیاب نہیں ہوگی لیکن مولانا فضل الرحمٰن ساتھ مل جائیں تو ان کے پاس اسٹریٹ پاور ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اس کا کسی کو جواب دیناہوگا، صرف اپوزیشن اور میڈیا کو ذمہ دار قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، معاشی حالات ایسے ہی رہے تو اپوزیشن سڑکوں پر آئے یا نہ آئے لوگ ضررو آئیں گے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عید کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اپوزیشن جماعتیں حکومتی پالیسیوں کیخلاف ایک پیج پر جمع ہونے کا عندیہ دے رہی ہیں۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ تحریک انصاف ماضی کی ہونے والی سرگرمیوں اور کاموں کو بھی اس طرح پیش کرتی ہے جیسے یہ سب کچھ ملک میں پہلی بار ہورہا ہے، اگر ماضی میں وہ کام شروع بھی کیا گیا تھا تو کیونکہ اب تحریک انصاف کی حکومت ہے تو کچھ خاص نتیجہ نکلے گا اور عوام و ملک کی تقدیر بدل جائے گا، ایسا ہی تیل کی تلاش کی معمول کی سرگرمی کے حوالے سے کیا گیا، اتنی امیدیں جوڑ دی گئیں کہ ناکامی کی وجہ سے مایوسی بڑھ گئی، نہ تیل کی تلاش نیا کام ہے اور نہ ہی تیل نہ ملنا انوکھی بات ہے مگر تحریک انصاف کی حکومت نے کریڈٹ لینے کے چکر میں مایوسی پھیلادی، سمندر میں تلاش کا یہ پہلا منصوبہ نہیں ہے، پاکستان میں پہلے 17کوششیں ہوچکی ہیں لیکن بغیر شور مچائے ہوئیں اس لئے وہ کوششیں ناکام ہوئیں تو کوئی مایوسی بھی نہیں پھیلی، انڈیا میں بھی آف شور کیلئے بہت دفعہ ڈرلنگ ہوئی، 39دفعہ ناکامی ہوئی اور 40ویں دفعہ کامیابی ہوئی۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معیشت کو ترقی کیلئے اسٹرکچرل ریفارمز کی سہولت ہے، تیل ملے یا نہ ملے اسٹرکچرل ریفارمز کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا ہے، اس ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بڑا ذخیرہ یا کوئی ایک شخص ملک کی قسمت بدل دے گا اس ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے، ملک کسی ذخیرہ یا شخصیت سے نہیں ایک سسٹم سے آگے بڑھے گا۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کم ہو کر نہیں دے رہی ہے، دونوں ممالک جنگ سے گریز کی بات کرتے کرتے ایک دفعہ پھر جنگی بیانات پر اتر آئے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ اور ایرانی وزیرخارجہ کے درمیان ٹوئٹر پر سخت بیان بازی ہوئی ہے، امریکا نے جنگ کی صورت میں ایران کے خاتمے کی بات کی اور ایران نے جارحیت کرنے والوں کیخلاف اپنی تاریخ بتائی، امریکا ایران تنازع کے بعد سعودی عرب اور عراق میں بھی حملوں کی خبریں آرہی ہیں، عرب خبر رساں ادارے کے مطابق غوثیوں کی جانب سے مکہ اور جدہ پر داغے گئے دو بیلسٹک میزائلز کو مار گرایا گیا ہے لیکن حوثیوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔شاہزیب خانزادہ نے مانیٹری پالیسی سے متعلق تجزیے میں کہا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اب مزید بڑھے گی، گزشتہ سال کے مقابلہ میں مہنگائی کی شرح تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔