سندھ کی پہلی دریائی بندرگاہ ’’روہڑی‘‘

May 21, 2019

وقت کا دھارا جوں جوں بہتا ہے، اپنے پیچھے بہت سی تبدیلیاں چھوڑ جاتا ہے۔، وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میںتبدیلی آجاتی ہے اور یہی قانون قدرت ہے۔ تاہم کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی شان و شوکت اور وجاہت تو وقت کے ساتھ کم ہوجاتی ہے مگر تاریخ کے اوراق میں وہ ہمیشہ جگمگاتے اور روشن ستارے کی مانند نظر آتی ہے۔ ایسا ہی ایک علاقہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کی تحصیل ہےجوکہ روہڑی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے، روہڑی شہر، پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔۔ سکھر شہر اس قصبہ سے صرف 5 کلو ميٹر کے فاصلے پر واقع ہے، درمیان میں صرف دریائے سندھ حائل ہے۔

21ویں صدی عیسوی جو کہ جدید ٹیکنالوجی و علوم کی حیرت انگیز صدی ہے،اس دور میں بھی روہڑی میں گھوم کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی ازمنہ وسطیٰ کےشہر میں گھوم رہے ہیں اور ویسے بھی ارتقائے انسانی اور دور ہجری کے آثار یہاں کثرت سے پائے جاتے ہیں، اس لئے یہ شہر قدیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ بھی نظر آتا ہے۔ اس شہر کی گلیاں دل فریب مناظر والی اور عمارتیں انتہائی دیدہ زیب ہیں۔ اس شہر کے متعلق کہاوت مشہور ہے کہ یہاں کی مٹی میں کم و بیش سوا لاکھ اولیائے کرام اور بزرگان دین آسودہ خاک ہیں جس کے سبب اس شہر کو روہڑی شریف بھی کہا جاتا ہے۔روہڑی شہر کو اروڑ راجکمار ،’’ دھج رور کمار‘‘ نے5ویں صدی قبل مسیح میں تعمیر کرایا تھاجو اسی کے نام سے موسوم ہونے کے بعدا روڑ کہلایا۔ 8ویں صدی عیسوی میں اروڑ خاندان کے بعد رائے خاندان اور برہمنوں نے حکومت کی۔ 711ء میں اروڑ پر مسلمان جرنیل محمد بن قاسم کی فوج نے قبضہ کرلیا۔962ء میں ایک عظیم زلزلے نے شہر کو تہہ و بالا کردیا جس کی وجہ سے دریائے سندھ کی گزرگاہ بھی تبدیل ہوگئی۔ مورخین کے مطابق بھی اس شہر کے آباد ہونے کی وجہ دریائے سندھ کا اپنے پہلے مقام الور جسے اب اروڑ کہا جاتا ہے سے بہنا بند ہوکر اپنی گزرگاہ کو تبدیل کرتے ہوئے موجودہ بکھر جزیرہ سے بہنا بتایا جاتا ہے۔335ہجری میں دریائے سندھ کے رخ بدلنے کی وجہ سے اروڑ کے رہنے والوں نے نقل مکانی کرکے بکھر جزیرہ کے گرد رہنا شروع کیا جس کے باعث یہ شہر آباد ہوا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق روہڑی کو پہلے ’’لوہری‘‘ یا ’’لوہر کوٹ‘‘ کہا جاتا تھا، روہڑی کا موجودہ نام دراصل ’’روڑی‘‘ سے بنا ہے، جس کا مطلب چھوٹا پتھر یا ’’پہاڑی‘‘ ہے۔ 1200ء میں روہڑی دریائے سندھ کے کنارے ایک مصروف بندرگاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

موسم کے اعتبار سے روہڑی شہرمیں گرمی بہت پڑتی ہے جبکہ سردی بھی اچھی خاصی ہوتی ہے۔ یہ شہر تقریباً دس کلو میٹر مربع اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ روہڑی شہر کے آباد ہونے کے حوالے سے سندھ گزیٹیئر کے مطابق ’’روہڑی‘‘ شہر کو سید رکن الدین نے 996 ہجری 1297ء میں تعمیر کرایا تھا لیکن بعد کی تحقیق کے مطابق یہ قبل از مسیح کیکاشہر ہے اورسہیون و ٹھٹھہ کا ہم عصر ہے۔ یہ تینوں شہر اپنے دور میں علم و ادب اور تہذیب وتمدن کے اہم مراکز تھے۔ روہڑی شہر ٹھٹھہ، شکارپور اور سہیون شہر سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ جغرافیائی حوالے سے بھی روہڑی اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ اس کے مغرب میں باغات ، جنوب میں پہاڑیاں، شمال میں دریائے سندھ جبکہ مشرق میں صحرا، دریا کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے اس شہر کی راتیں بہت ٹھنڈی اور پر لطف ہوتی ہیں۔اس کا طرز تعمیر قدیم عمارات پر مبنی ہے۔ شہرکی گلیاں اوپر اور نیچے کی طرف بنی ہوئی ہیں۔ اگر ایک گلی میں چلیں تو کبھی نیچے اور کبھی اوپر کی طرف چلنا پڑتا ہے۔ کہیں کہیں تو سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہیں اوپر چلنے سے شہر کی اکثر عمارتیں نیچے دکھائی دیتی ہیں۔پورے شہرمیں کوئی بھی جدید طرز کی عمارت نہیں البتہ کچھ قدیم عمارتوں کی موجودطرز پر مرمت اور تزئین و آرائش جدید سازوسامان سے کی گئی ہے جبکہ لوگوں کا رہن سہن بھی جدید طرز کے مطابق ہے۔ اکثر عمارتیں کچی اینٹوں اور گارے سے بنی ہوئی ہیں جو مضبوطی کے ساتھ آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ تین تین منزلہ عمارات آپس میں ایسے جڑی ہوئی ہیں کہ اگر خدانخواستہ کسی ایک عمارت کو نقصان پہنچے تو پوری قطار کو خطرہ لا حق ہوسکتا ہے۔ روہڑی شہر میں رہائش پذیر افراد کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے بات کی جائے تو اس شہر کا انفرا اسٹرکچر بھی اپنی مثال آپ ہے، گندے پانی کی نکاسی کے لئے پرانے دور کی طرز پر نالیاں بنائی گئی ہیں، شہر کی ہر گلی میں فرش بندی کی گئی ہے۔ شہر میں میونسپل کمیٹی ترقیاتی کام کرانے کی پابند ہے، ایک کمی تو جو کہ شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ اس شہر میں لوگوں کو تفریح کی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کوئی پارک نہیں تھا تاہم اب یہ کمی بھی دور ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے کیونکہ اب ایک پارک تعمیر ہوا ہے جہاں لوگوں کوسیر تفریح کی آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ پو روہڑی شہر اس حوالے سے بھی الگ شناخت رکھتا ہے کہ کراچی سے لاہور، پنڈی، پشاور یا ملتان سمیت ملک کے تمام شہروں کی جانب جانے والی مسافر ٹرینیں روہڑی ریلوے اسٹیشن پر رکتی ہیں اور یہ بات اس شہر کی انفرادی پہچان ہے۔ روہڑی ریلوے اسٹیشن پاکستان کا دوسرا بڑا جنکشن ہے جہاں سے ملک کے چاروں صوبوں کے شہروں کے لئے گاڑیاںچلتی ہیں۔ یہاں پاکستان ریلوے کا ورک شاپ (لوکوشیڈ) بھی ہے جہاں ریلوے انجن اوربوگیوں کی مرمت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی سب سے بڑی سڑک نیشنل ہائی وے جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے شہر کے ساتھ سے گزرتی ہے۔ اس شاہراہ پر کراچی کے علاوہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے کسی بھی شہر کی سمت جانے والی مسافر گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس شاہراہ کے ذریعے کراچی کے علاوہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے کسی بھی شہر سے اپنی گاڑی یا بس وغیرہ میں پہنچا جا سکتا ہے۔ شہر میں سواری کے لئے تانگہ، رکشہ اور سوزوکی پک اپ چلتی ہیں۔ سیاحت کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو دریا کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے سیر و تفریح کے لئے یہ ایک بہترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں موجود تین جزیرے اس شہر کے انتہائی قریب واقع ہیں۔انرون و بیرون شہر سے آنے والے لوگ بھی اکثر و بیشتر دریا کے کنارے یا پھرلینس ڈاؤن برج پر تفریح کے لئے جاتے ہیں۔ اصل میں سکھر اور روہڑی کو دریائے سندھ ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ دونوں شہر کے درمیان زمینی رابطہ قائم کرنے اور شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے 1888ء میںبرٹش گورنمنٹ نے لینس ڈائون پل تعمیر کرایا تھا ۔یہ دنیا کے چند خوبصورت پلوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔یہ پل آج بھی فن تعمیر کا شاہکار کہلاتا ہے، اس کے ساتھ ہی 1962ء میں سابق صدر ایوب خان نے ایک ریلوے پل تعمیر کروایا تھا جو’’ایوب برج ‘‘کے نام سے موسوم ہے۔ شہر سے 10کلو میٹر دور جنوب میں، قدیم تخت گاہ اروڑ کے کھنڈرات ہیں یہی وہ جگہ ہے جسے محمد بن قاسم نے فتح کیا تھا اور وہاں کا مندر منہدم کروا کر ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جس کےآثار آج بھی موجود ہیں۔ دوسرے شہروں سے آنے والےسیاح اروڑ سمیت دیگر قدیمی علاقوں کی سیر و تفریح کو لازمی سمجھتے ہیں اور روہڑی ، سکھرکے لوگ بھی اپنے مہمانوں کو ان مقامات کی سیر کرانا اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ اروڑ کے ایک غار بھی کالا دیوی کا مندر بھی ہے جو ہندؤں کے لیے متبرک مقام ہے، یہاںر ہر سال میلہ لگتا ہے۔ اس مندر سے متصل ایک مسجد و مدرسہ بھی موجود ہے جہاں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مسجد، مدرسہ و خانقاہ کے بانی فقیر حافظ محمد عارف خلیفہ مجاز حضرت لونگ فقیر تھے اور حضرت لونگ فقیر سندھ کے نامور صوفی بزرگ اور شاعر حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمۃ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ اسی شہر میں موجود سات سہیلیوں کا مزار جو کہ ستین جو آستان کے نام سے ملک بھر میں شہرت خاص رکھتا ہے، ایک پہاڑی ٹیلے پر عین دریائے سندھ کے وسط میں واقع ہے جس کے عقب میں لینس ڈائون پل کی موجودگی اس مقام کی دلکشی کو چار چاند لگا دیتی ہے، سات سہیلیوں کے مزار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ مقام میر ابولقاسم نمکین نے تعمیر کرایا تھا، جو اپنی طرز تعمیر کے سبب انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اسی مقام پر میر ابو القاسم اکثر چاندنی راتوں میں شعر وسخن کی محفلیں منعقد کرواتے تھے، اور ان کے انتقال کے بعد انہیں بھی اس کے قریب دفن کیا گیا تھا۔ سات سہیلیوں کے مزار کے متعلق یہ داستان بھی مشہور ہے کہ یہاں سات پریاں رہتی تھیں جس کی وجہ سے اس جگہ کو ’’ستین جو آستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن تحقیقی حوالوں سے ان باتوں میں کسی بھی قسم کی صداقت نہیں ملتی اور نہ ہی تاریخی کتب میںان پریوںکے حوالے سےکوئی ذکر موجود ہے۔ روہڑی شہر کو اگرقدیم و جدید ککے امتزاج کا حامل شہر کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ اس شہر کی سیر کرتے وقت یہ سیاح کو ماضی کے جھرونکوں میں لے جاتا ہے مگر ذرا آگے بڑھنے پریہ اگلے ہی لمحے جدید شہر کی بھول بھلیوں میں گم کردیتا ہے، یہ اور بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دور کی نشانیاں وقت کے گرد و غبار میںگم ہورہی ہیں مگر ابھی مکمل طور پر معدوم نہیں ہوئی ہیں۔ اس شہر کا دورہ اور یہاں موجود تاریخی مقامات آپ کے دل و دماغ اور روح کو انتہائی فرحت و سکون بخشیں گے۔