مودی پھر وزیر اعظم: پاک بھارت تعلقات کا مستقبل کیا؟

May 24, 2019

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

حافظ شیراز قریشی، فیض سیفی

وجیہہ اسلم، عبداللہ لیاقت

انڈیا الیکشن 2019ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔سات مراحل کے بعد کل گنتی کا عمل بھی مکمل ہوچکا جس کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرستی میں بننے والے اتحاد این ڈی اے نے بڑی کامیابی حاصل کی ۔اس کامیابی کے بعد بھارت میں نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں اور کامیاب بھی ہوجائیں گے ۔بی جے پی کی انتہا پسندانہ حکومت بن جانے کے بعد یہ سوال پیدا ہو گا آیا مودی حکومت اپنی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے گی یا کسی حد تک اعتدال کا رویہ اپنائے گی ۔پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان نے مودی کی دوبارہ حکومت بننے پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا تھا ۔تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مودی حکومت کے آنے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی ۔دوسری جانب کشمیر کے مسئلہ کو لیکر دونوں ممالک میں تقسیم ہندوستان سے تشویش کا سلسلہ جاری ہے اور مودی حکومت کے آنے کے بعد کشمیر کی صورتحال مزید خرابی کی طرف جاسکتی ہے ۔ماضی کا جائزہ لیں تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں جب مثبت پیش رفت ہوئی تب بی جے پی کی حکومت تھی ۔سابق صدر پرویز مشرف کا دورہ ہندوستان ہویا واجپائی کا دورہ پاکستان بی جے پی نے مذاکرات کو میز پر حل کرنے پر زور دیاجس کا پاکستان نے مثبت جواب دیاتھا۔لہٰذا امید ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔الیکشن کے حوالے سے بھارت کی چند اہم ریاستوں کے بارے میں معلومات قارئین کی نذر کی جاتی ہے ۔

اتر پردیش

ریاست اتر پردیش 18ڈویژن اور 75اضلاع پر مشتمل ہے۔دارالحکومت لکھنو جبکہ اہم شہروں آگرہ ،علی گڑھ ،امروہہ ،بریلی ،بنارس اورالٰہ آباد اہم ہیں۔یہاں لوک سبھا کی کل 80نشستیں ہیں۔ریاستی اسمبلی میں یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی حکمران ہے اور یوگی ادتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ ہیں ۔اتر پردیش کی اہم شخصیات وزیر اعظم نریندر مودی ،راہول گاندھی ،سونیاگاندھی اکھلیش یادیو ،اعظم خان ،ہیمامالنی ،ملائم سنگھ یادیو شامل ہیں ۔گزشتہ انتخابات میں لوک سبھا کی 80میں سے 68نشستیں بی جے پی نے حاصل کیں ۔

دہلی

بھارت کا دارالحکومت دہلی 11اضلاع پر مشتمل ہے ۔دہلی شہر دریائے جمنا کے کنارے آباد ہے۔ دہلی شہر میں پارلیمان کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے دفاتر بھی موجود ہیں۔دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی اور تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔یہاں لوک سبھا کی سات نشستیں ہیں جن پر بی جے پی براجمان ہے۔ ریاستی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی اکثریتی جماعت ہے اور وزیر اعلیٰ اروند کجریوال ہیں ۔اہم سیاسی شخصیات میں اروند کجریوال ،منوج تیواری ،شیلا ڈکشٹ ،رمیش بدھوری اورگوتھم گھمبیر اہم ہیں ۔

بہار

ریاست بہار 9ڈویژن اور 38اضلاع پر مشتمل ہے۔دارالحکومت پٹنہ اور مدھے پورہ ،جہان آباد،بنگال پوراور کاٹھیار اہم شہر ہیں۔لوک سبھا میں کل 40نشستیں ہیں ۔ریاست میں جنتا دل یونائیٹڈ حکمران جماعت ہے ۔اہم سیاسی شخصیات میں روی شنکر پرساد ،نتیش کمار،لالو پرساد،جتن رام منجھی،رام ولاس پاسوان،یشونت سنہا، شتروگن سنہا، جایاپرکاش اہم ہیں۔

ویسٹ بنگال

ریاست ویسٹ بنگال23اضلاع پر مشتمل ہے۔دارالحکومت کلکتہ اور جنگی پور،کوچ بہار،رانا گھاٹ،رائے گنج،مرشد آباد اہم شہر ہیں ۔لوک سبھا میں ویسٹ بنگال کی 43نشستیں ہیں جن پر آل انڈیاترنمول کانگریس اکثریتی نشستوں پر براجمان ہے۔ریاستی اسمبلی میں بھی ترنمول کانگریس حکمران جماعت ہے۔ایم سیاسی شخصیات میں ممتا بنر جی اور بدھادیب بھتچر جی شامل ہیں۔ ممتا بنر جی یہاں سے دو وزیر اعلیٰ ہیں ۔

مہاراشٹرا

ریاست مہاراشٹرا 6ڈویژن اور 36اضلاع پر مشتمل ہے۔ریاست کا دارلحکومت ممبئی ہے پونے، اورنگ آباد،ناگ پور،ناسک اورکولہ پور کا شمار بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔یہاں کی لوک سبھا کی کل نشستوں کی تعداد48ہے۔ریاستی اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی یہاں کی حکمران جماعت داویندرا فدناویس یہاں کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ مہاراشٹرا کی اہم شخصیات میں راج ٹھاکرے، بال ٹھاکرے، ولاس رائو دیش مکھ ، نتن گاڈکاری، پرامود مہاجن،منوہر جوشی، اور سوشیل کما ر شندے شامل ہیں ۔ریاست مہاراشٹرا میں گزشتہ انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی کی نشستوں کی تعداد22 تھی۔

مدھیہ پردیش

ریاست مدھیہ پردیش 10ڈویژن اور 50 اضلاع پر مشتمل ہے۔مدھیہ پردیش کا دارلحکومت بھوپال ر جبکہ یاست مدھیہ پردیش کے قابل ذکر شہروں میں بھوپال، اندور، جبل پور، گوالیار، اجین، ساگر، دیواس، سٹنہ، رتلام، ریوا، شیو پوری ، سانچی،ب رہان پوراور ہوشنگ آباد شامل ہیںجبکہ اندور ر کا شمار یاست مدھیہ پردیش کے سب سے بڑے شہر میں کیا جاتا ہے۔لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 29ہے۔ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت انڈین نیشنل کانگریس اورمکھیہ منتری کمل ناتھ ہیں۔ریاست مدھیہ پردیش میں بھارتی جنتا پارٹی کی نشستوں کی تعداد24جبکہ کانگرس کی نشستوں کی تعداد3ہے۔

راجستھان

ریاست راجستھان 7ڈویژن اور33اضلاع پر مشتمل ہے۔لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 25ہے۔ راجستھان کا دارلحکومت جے پور ہے جبکہ اہم شہروں میں جے پور،جودھ پور،اودے پور،جیسلمیر،بھرت پور، اجمیر،بیکانیر، اورچتورگڑھ شامل ہیں۔راجستھان کی اہم شخصیات میں اشلوک گہلوٹ، وے بھائو گہلوٹ،شری گجندر سنگھ شیکھاوت،ارجن رام میگھاول،سری سی پی جوشی،راجیہ وردھان سنگھ راٹھور شامل ہیں۔راجستھان کی ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت انڈین نشنل کانگرس اور مکھیہ منتری کانگرس کے اشوک گہلوٹ ہیں۔

گجرات

ریاست گجرات36 اضلاع پر مشتمل ہے جبکہ لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 26 ہے۔ گجرات کا دارلحکومت گاندھی نگر ہے۔گجرات کے اہم شہروں میں احمد آباد ،سورت، راجکوٹ، جاننگر، بھوج، دوارکا، مندرا، بھاونگر، چمپا نیر، مانڈوی، جونا گڑھ، پالنپور، ہمت نگر اور دھرمپورشامل ہیں۔گجرات کی اہم شخصیات میں موہن داس کرم چند گاندھی،سردار پٹیل، مورارجی دیسائی،نریندرا مودی ، امیت شاہ ،احمد پٹیل ،اور وجے روہانی شامل ہیں۔گجرات کی ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور مکھیہ منتری وجے روپانی ہیں۔گزشتہ انتخابات میں ریاست گجرات میں26 نشستوں پر بھارتی جنتا پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔

کرناٹک

ریاست کرناٹک کی لوک سبھا کی کل نشستوں کی تعداد 28ہے جبکہ ریاست 4ڈویژن اور30اضلاع پر مشتمل ہے۔ریاست کرناٹک کا دارلحکومت بنگلور جبکہ اہم شروں میں منگلور، میسورو، بیلگام، ہبلی،اور گلبرگا شامل ہیں۔ریاست کرناٹک کی اہم شخصیات میں ای ایم ایس نمبودھری پاد،سی وی اچھوٹھا مینن،کے کروناکرن ،ای کے نیانر شامل ہیں ۔گزشتہ انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی نے17،انڈین نیشنل کانگرس نے9جبکہ جنتا دل سیکولر نے2نشستیں حاصل کی۔ریاست گجرات کی ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت جنتا دل سیکولر اور مکھیہ منتری جنتا دل سیکولر کے ایچ ڈی کمار سوامی ہیں۔

آندھر پردیش

لوک سبھا میں آندھرا پردیش ریاست کی کل نشستوں کی تعداد 25 ہے جبکہ ریاست آندھرا پردیش13اضلاع پر مشتمل ہے۔ریاست کا دارلحکومت حیدر آباد،اور اہم شہروں میں وجے واڑا، وشاکاپٹنم، تیروپاتی،گونٹر،کرنول، اورکاکی ناڈا شامل ہیں۔ریاست آندھرا پردیش کی اہم شخصیات میں مکھیہ منتریچندرابابونائیڈو، سابق این ٹی راما رائو،سابق وزیراعظم پی وی نرسیما رائو، سابق مکھیہ منتری وائے ایس آر ریڈی کا شمار ہوتا ہے۔آندھرا پردیش لی ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت تلگودیشم پارٹی ہے اور مکھیہ منتری تلگودیشم پارٹی کے چندرا بابونائیڈو ہیں 2014ء کے انتخابات میں تلگو دیشم پارٹی کی لوک سبھا پارٹی کی نشستیں 16جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی3نشستیں ہیں۔

تامل ناڈو

ریاست تامل ناڈو 32اضلاع اور لوک سبھا کی39نشستوں پر مشتمل ہے۔اس کے اہم شہر چنائی،مادورئی،کویمبٹور،اراکونام، اور تریپور ہیں جبکہ دارلحکومت چنائی ہے۔ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت آل انڈیاانادرویدہ منیترا پارٹی ہے اور مکھیہ منتری ایڈا پاڈی کے پلانی سوامی ہیں۔ریاست تامل ناڈو کی اہم شخصیات میں مکھیہ منتری ایم کرونادھی ، مکھیہ منتری جے للیتا ،سابق وزیراعلیٰ و اداکارایم جی راماچندرن،ایم کے سٹالن، اور ایڈا پاڈی کے پلانی سوامی شامل ہیں۔2014ء کی لوک سبھا میں آل انڈیاانادرویدہ منیترا پارٹی کی کل نشستیں 37،بھارتی جنتا پارٹی1 کی جبکہ پٹالی مکل کچی کی نشستوں کی تعداد1 ہے۔

اوڑیسہ

ریاست اوڑیسہ 30اضلاع پر مشتمل ہے۔دارالحکومت بھوونیشور،جے پور،برہم پور، سمبل پور،کٹک،راور کیلا،پوری ، بالیشور، ، بدرک،انگول ،چتر پور،سندر گڑھ اہم شہر شمار کئے جاتے ہیں ۔لوک سبھا میں ریاست کی 21نشستیں ہیں جن پر 18پر بیجو جنتا دل کامیاب رہی تھی۔ریاستی اسمبلی میں بھی بیجو جنتا دل حکمران جماعت ہے۔اہم سیاسی شخصیات میں نوین پٹ نائیک ،اورام شری جوال ، پردیپ مجھی،ارون ساہو،دیباسسنائیک،درمندھرا پردھان،ارچنا نائیک اہم ہیں ۔نوین پٹ نائیک وزیر اعلیٰ تھے ۔یہاں لوک سبھا کیساتھ ساتھ ریاستی اسمبلی کے الیکشن بھی ہورہے ہیں ۔

کیرالہ

ریاست کیرالہ تیرہ اضلاع پر مشتمل ہے اور اس کا دارالحکومت ترواننت پورام ہے ۔لوک سبھا میں 20نشستیں ہیں جن پر کانگریس اکثریتی پارٹی ہے جبکہ ریاستی پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ دوسرے نمبر پر ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ یہاں کی ریاستی اسمبلی کی حکمران جماعت ہے ۔کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے امیٹھی کے حلقہ کے علاوہ کیرالہ کے حلقہ وایناد سے الیکشن لڑا۔

پنجاب

ریاست پنجاب 22اضلاع پر مشتمل ہے ۔چندی گڑھ ریاستی دارالحکومت اور اہم شہروں میں امرتسر،پٹیالہ ،فیروز پور،جالندھر ،پٹھان کوٹ شامل ہیں ۔لوک سبھا میں پنجاب کی نشستوں کی تعداد 13ہے۔ریاستی اسمبلی میں کانگریس حکمران جماعت ہے جبکہ اس سے قبل شرومنی اکالی دل یہاں سے حکمران جماعت تھی ۔اہم سیاسی شخصیات میں سکھبیر سنگھ بادل ،پرکاش سنگھ بادل ،امریندر سنگھ ،ہر سمرت کور بادل ،نوجوت سنگھ سدھو اور پرینیت کور سیاسی اثرو رسوخ رکھتے ہیں ۔عام آدمی پارٹی ،کانگریس اور شرومنی اکالی دل ریاستی اور لوک سبھا نشستوں پر پنجہ آزمائی کرتی ہیں.۔

جموں و کشمیر

جموں و کشمیر تین ڈویژن اور 22اضلاع پر مشتمل ہے ۔سری نگر دارلحکومت اور جموں ،ادھم پور،بارہ مولا،کارگل ،اننت ناگ،کپواڑہ ،پلوامہ اہم شہر ہیں۔لوک سبھا میں نشستوں کی تعداد چھ ہے جس میں سے تین پر بی جے پی اور تین پر جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کامیاب ہوئی تھی۔یہاں کی اہم سیاسی شخصیات میں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ ،عمر عبد اللہ ،مفتی سعید،حنابٹ،محبوبہ مفتی ہیں۔

تلنگانہ

ریاست تلنگانہ 33اضلاع پر مشتمل ہے ۔حیدر آباد ریاستی دارالحکومت ہے ۔لوک سبھا میں کل نشستوں کی تعداد سترہ ہے ایم سیاسی شخصیات میں اسد الدین اویسی ،اکبر الدین اویسی ،چندر شیکھر رائو،کرن کمار ریڈی،انجن کمار ریڈی ،سیتارام یچوری اہم ہیں ۔ ریاستی اسمبلی میں تلنگانہ راشٹریہ پارٹی حکمران جماعت ہے ۔

مودی کیوں جیتا راہول کیو ں ہارا؟

2014ء کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے سادہ اکثریت حاصل کی اور حکومت سازی بھی کی ۔جمہوری دور مکمل کرنے کے دوران مودی حکومت کو جن مسائل اور الزامات کا سامنا رہاوہ اسے دوبارہ حکومت میں آنے میں کوئی بڑی رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکے۔الیکشن 2019ء میں کامیابی میں بی جے پی وہ چند ایسے اقدامات بھی تھے جنہیں عوام میں پذیرائی ملی اور دوبارہ حکومت سازی کا موقع بھی ملا۔مودی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو دیکھاجائے تو مودی حکومت نے عوام کو دو کروڑ 60لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کی ۔سات کروڑ ایل پی جی گیس کنکشن ،9کروڑ ٹوائلٹ کی تعمیر یقینی بنائی ۔اسی طرح ایک لاکھ 53ہزار کلومیٹر نئی سڑکیں ،ڈیڑھ کروڑ گھروں کی تعمیر اور صحت عامہ کے مسائل کو دیکھتے ہوئے 33کروڑ بچوں کی ویکسینیشن بھی کی گئی ۔دوسری جانب پاکستان مخالف انتخابی مہم،پٹھان کوٹ حملہ،پاکستان پر حملہ بھی مودی کو دوبارہ حکومت میں لانے کیلئے بنیادی عوامل میں شمار کئے جاسکتے ہیں ۔

دوسری جانب انڈین نیشنل کانگریس کے راہول گاندھی ایک بار اکثریت حاصل نہیں کرسکے۔اس ناکامی زمینی حقائق کا جائزہ لیاجائے تو راہول گاندھی کی جماعت بنیادی طور پر بائیں بازو کی جماعت تصور کی جاتی ہے اور اقلیتوں کا جھکائو بی جے پی کی جانب کم دیکھنے میں آیاہے۔راہول گاندھی اقلیتوںکو ساتھ نہیں ملاپائے جس سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوسکے۔اتر پردیش کو ہی دیکھاجائے کانگریس سماج وادی پارٹی ،بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے گرینڈ الائنس کیساتھ کوئی بڑی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرسکے جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔یوں یہ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کانگریس کی الیکشن میں سیاسی گرفت نظر نہیں آسکی۔

کامیاب مسلمان امیدوار

اعظم خان

اعظم خان 14اگست1948ء کو اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ 1974ء میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قوانین کے گریجوایٹ کی ڈگری حاصل کی۔اعظم خان ریاست اتر پردیش کے حلقے رام پور سے نو مرتبہ ایم ایل اے رہے۔ حکومت اترپردیش میں کابینہ وزیر رہ چکے ہیں۔ اعظم خان سما ج وادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1980ء اور 1992ء کے درمیان چار دیگر سیاسی جماعتوں کے رکن رہ چکے ہیں۔1980ء کے انتخابات سے انتخابی سیاست کا آغاز کرنے والے اعظم خان 2019ء لوک سبھا انتخابات میں رام پور کے حلقے سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔ 17 مئی 2009ء میں انہوں نے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔15ہویںلوک سبھا انتخابات میں ان کی مخالفت سماج وادی پارٹی کی امیدوار، جیا پرادا اور ارد گرد کے تنازعات کے نتیجے میں 24مئی2009ء کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا ۔

اسد الدین اویسی

اسدالدین اویسی ریاست تلنگانہ میں 13مئی 1969 ء کو ضلع حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔اسد الدین اویسی ہندوستان کی قومی سیا سی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر ہیں۔ حیدرآباد سے مسلسل 3 مرتبہ رکن پارلیمان رہ چکے ہیں۔سلطان صلاح الدین اویسی کے صاحبزادے اور اکبر الدین اویسی کے بڑے بھائی ہیں۔اسد الدین اویسی تلنگانہ ریاست کے حلقے چار منار سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔اسد الدین اویسی نے برطانیہ سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔1994ء میں آندھرا پردیش کی ودھان سبھا اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔2009ء لوک سبھا کے انتخابات میں پہلی بار ایم ایل اے منتخب ہوئے ۔2014ء کے لوک سبھا میں ہونے والے انتخابات میںآل انڈیامجلس اتحاد المسلمین کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہوئے اور یکم ستمبر 2014ء کو وزیر برائے اقلیتی امور کا عہدہ ملا۔2019ء لوک سبھا کے انتخابات میں حیدر آباد کے حلقے سے تلنگانہ راشٹریہ پارٹی کی حمایت سے آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین کی ٹکٹ پرجیت گئے ہیں۔

فاروق عبداللہ

فاروق عبد اللہ21 اکتوبر 1937ء کو سری نگر میں پید اہوئے۔انہوں نے ٹینڈیل بسکوئے سکول میں تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں ایم بی بی ایس کی ڈگری ایس ایم ایس میڈیکل کالج، جے پور سے حاصل کی۔ 1981ء میں جموں اینڈ کشمیر نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی۔8ستمبر 1982 ء سے 2جولائی 1984ء تک جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔دوسری بار 1986ء سے 1990ء اور تیسری بار1996ء سے 2002تک وزیر اعلی کے منصب پر فائز رہے۔وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دور حکومت میں 2009ء سے 2014ء تک توانائی کے وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔فاروق عبدااللہ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کے والد ہیں۔1986 ء میں جی ایم شاہ کی حکومت جنوبی کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد برطرف ہو گئی اور ایک نئی قومی کانفرنس میں، کانگریس حکومت کے عبد اللہ نے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھا لیا۔ 16اپریل 2017ء میں لوک سبھا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔2019ء لوک سبھا انتخابات میں جموںو کشمیر ریاست کے حلقے سر ی نگر سے اپنی سیاسی جماعت جموں اینڈ کشمیر نیشنل کانگریس کے ٹکٹ پر یم ایل منتخب ہوئے۔

بدر الدین اجمل

بدر الدین اجمل 12فروری1950ء کوریاست آسام میں پید اہوئے۔ بدر الدین اجمل نے12سال پہلے آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی بنیاد رکھی۔اس کا شمار ریاست آسام کے بڑے لیڈروں میں ہوتا ہے ۔بدر الدین اجمل ریاست آسام سے جمعیت علماء ہند کے صدر بھی ہیں۔رکن پارلیمنٹ کے علاوہ عطر کے کاروبار سے منسلک ہیں۔انہوں نے سیاست کا آغاز ریاسی اسمبلی کے انتخابات سے کیا۔2006ء میں ریاست آسام کی ریاستی اسمبلی سے دو حلقوں سے منتخب ہوئے تھے۔2014ء لوک سبھا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2019ء لوک سبھا کے انتخابات میں آسام کے حلقے دھوبری سے دوسری بار لوک سبھا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔

حاجی فضل الرحمن

ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے 62سالہ حاجی فضل الرحمن نے 2014ء کے عام انتخابات سے سیاست کا آغاز کیا۔2014لوک سبھا کے انتخابات میں انہیں کانگریس کے امیدوار عمران مسعود نے شکست دی۔2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں مغربی یوپی سہارن پور حلقہ میں گرینڈ الائنس سماج وادی پارٹی ،بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کے مشترکہ امیدوار دیوبند فضل الرحمن کامیاب ہوئے۔اس انتخاب میں انہیں دیو بند کی حمایت حاصل تھی۔2019لوک سبھا کے انتخابات میں انکے مد مقابل پانچ بار ایم ایل اے رہنے والے عمران مسعود کو اس بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اے ایم عارف

اے ایم عارف 24مئی 1964ء کو ریاست کیرالہ میں پید اہوئے۔انہوں نے وکالت کی ڈگری لاء کالج سے حاصل کی۔2006ء کے انتخابات میں ریاستی اسمبلی سے حلقہ ارور سے پہلی بار ایم ایل منتخب ہوئے۔اس انتخاب میں انہوں نے وزیر برائے زراعت گوری اماں کو 4 ہزار 650 ووٹوں سے شکست دی۔ 2011ء وودھان سبھا کے انتخابات میں انتخابی حلقہ الا پوزہ سے اپنے مد مقابل ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی کے صدر ایڈووکیٹ اے ،اے شکور کو 16ہزار850ووٹوں سے شکست دی۔ 2016 ء ودھان سبھا انتخابات میں تیسری بار یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے امیدوار ایڈووکیٹ سی ،آر جیا پرکاش کو 38ہزار519 ووٹوں کے مارجن سے شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔2019ء لوک سبھا انتخابات میں حلقہ الا پوزہ سے پہلی بار ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں۔