عید بھی طبقوں میں بٹ گئی

May 29, 2019

کہتے ہیں کہ حقیقی مُسرّتیں دھن، دولت کی محتاج نہیں ہوتیں۔ حقیقی خوشیاں انسان کے اندر سے پھوٹتی ہیں اور روشنی بن کر ہر طرف بکھر جاتی ہیں۔ تاہم مادّہ پرستی کے دور میں لوگ حقیقی مُسرّتوں کے لیے ترستے نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے روحانی مُسرّتیں لے کر آتا ہے اور جاتے جاتے عیدالفطر کا تحفہ دے جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے عیدالفطر کا تہوارمُسرّت اور شادمانی کا پیغام بن کر آتا ہے، لیکن اسے کیا کہا جائے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی وجہ سے طبقاتی تفریق اور معاشی ناہم واری ان خوشیوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرچکی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مادّہ پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور نمود و نمائش کی خواہش نے بہت کچھ بدل دیا ہے، لیکن پرانے لوگ اپنا دور یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اچھا وقت گزارا۔ ان کے مطابق کسی زمانے میں پاکستان میں عیدالفطر کے لیے کی جانے والی تیّاریاں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ عوم رمضان المبارک سے قبل ہی اس عظیم الشان تہوار کے لیے تیّاریاں شروع کردیتے تھے۔ کیا بچے اور کیا بڑے، عیدالفطر کے روز ہر ایک کے چہرے پرمُسرّت اور شادمانی کے تاثرات دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اب کم از کم غریبوں کے لیے یہ سب کچھ ناممکن ہوگیا ہے۔ ہوش ربا گرانی نے سب کچھ تلپٹ کردیا ہے۔ اب بازاروں میں وہ پہلے والی رونق دیکھنے کو نہیں ملتی۔ دوسری جانب کراچی کی آبادی میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے شہر میں خریداری کے کئی نئے مراکز وجود میں آچکے ہیں۔ پہلے کراچی کا جغرافیہ طبقاتی طور پر اتنا تقسیم شدہ نہیں تھا جتنا اب نظر آتاہے۔ کراچی میں عید کی تیّاری کے ضمن میں ماضی کی یادیں کیا کہتی ہیں اور حال کیا کیا قصّے سناتا اور کون سی تصاویر دکھاتا ہے، ذیل میں ہم نے ان ہی نکات کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔

روایتی طور پر پاکستان میں پندرہ شعبان المعظم کے بعد بازاروں میں گہما گہمی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ رمضان کے آغاز سے اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چاند رات کو بازاروں کی گہما گہمی عروج پر ہوتی ہے۔ بہت سے افراد یہ کوشش کرتے ہیں کہ رمضان شروع ہونے سے قبل ہی عید کی خریداری مکمل کرلیں۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سی خواتین یہ اصرار کرتی ہیں کہ وہ رمضان المبارک ،بالخصوص پندرہ روزوں کے بعد اس کام کا آغاز کریں گی تاکہ وہ عید کی خریداری سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکیں۔ اس کے برعکس اکثر مردوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل عید کے لیے خریداری کرلی جائے یا کم از کم اس کا بڑا حصہ مکمل کرلیا جائے۔

خریداری کے رجحانات

مختلف بازاروں میں مختلف طبقات اور عمر کے افراد سے گفتگو کرنے کے بعد بعض دیگر باتیںبھی سامنے آئیں۔ پینتیس، چالیس برس سے زاید عمر کے افرادمیں یہ رجحان دیکھنے میں آیا کہ عید کے لیے خریداری کم وقت اور کم پیسوں میں کی جائے۔ نوجوانوں کا رجحان اس کے برعکس پایا گیا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں کریم سینٹر، صدر ،میں کپڑوں کی دکان کے مالک ساجد احمدکا کہنا تھا کہ زیادہ عمر کے افراد کے لیے عید کی تیاریوں میں بہت زیادہ جوش و خروش نہیں ہوتاہے۔ کراچی میں رہنے والوں کی اکثریت کا تعلق غریب یا متوسط طبقے سے ہے۔ اس طبقے کے لوگوں کے لیے رمضان اور عید مالی اعتبار سے بہت بوجھ ساتھ لاتی ہے ۔ کوئی ایڈوانس تن خواہ لے کر رمضان اور عید کے خرچے پورے کرتا ہے، کوئی ادھار لیتا ہے، کوئی اپنی جمع پونجی نکالتا ہے اور کوئی بزنس کے آسرے پر رہتا ہے۔ شادی شدہ افراد کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح بچّوں کی خواہشیں پوری ہو جائیں۔ بہت سے افراد بچّوں کے لئے خریداری کرنے کے بعد بچنے والی رقم کا حساب لگا کر اپنے اور بیوی کے لیے کپڑے اور جوتے، چپّل خریدتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ عید سے قبل بہت سے ایسے جوڑوں کو بازار میں گھومتا ہوا دیکھتے ہیں جو کپڑے یا جوتے، چپّل کے صرف نرخ معلوم کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ دکان دار انہیں بلاتا رہتا ہے، لیکن وہ اس کی آواز پر کان نہیں دھرتے۔ اس کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ نرخ سُن کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ وہ شئے ان کے بجٹ سے باہر ہے۔ نوجوانوں پر ذمّے داریاں کم اور توانائی زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا وہ خریداری کو بھی انجوائے کرتے ہیں۔

طبقاتی تفریق

وہ دین جو ہر طرح کی طبقاتی تقسیم کے خلاف ہے، آج اس کے ماننے والے بھی مختلف طبقات میں بٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں امیروں اورغریبوں کے درمیان فرق روزبہ روز بڑھتاہی جا رہا ہے۔اب مملکتِ خداداد، پاکستان،میں غریب کے لیے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں غریبوںکے لیے عید کی خوشیاں منانا تو دور کی بات ہے، وہ تو دو وقت کی روٹی کے لیے بھی پریشان رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کم از کم اپنے بچّوں کو عید کی خوشیاں دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔

پاکستانی میں طبقاتی تفریق پہلے اس قدر زیادہ اور اتنی نچلی سطح تک نہیں تھی، جتنی آج نظر آتی ہے۔ امیر اور غریب کی عید میں پہلے کتنا اور کیسا فرق تھا اور آج کیا صورتِ حال ہے؟ اس بارے میں صدر میں گلستان جوہر سے عید کی خریداری کے لیے اپنے پوتوں کے ساتھ آئے ہوئے بزرگ جسیم درّانی نے بہت عمدہ باتیں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے وقت لوگوں میں مسلمانیت، اخوّت، رواداری، ایثار و قربانی کے جذبات عروج پر تھے۔ ویسے بھی اس وقت پاک و ہند کے معاشرے میں طبقاتی کش مکش کا کوئی زیادہ زور نہیں تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے ایوب خان کے دورکے ابتدائی چند برسوں تک امیروں اور غریبوں میں بہت زیادہ تفریق نہیں تھی۔ 65ء کی جنگ کے بعد ہماری معیشت پر منفی اثرات پڑے اور مہنگائی بڑھی۔ اگرچہ ایوب خان کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور معاشرے پر بہت سے منفی اثرات مرتّب ہوئے، لیکن یہ اثرات اُن کے بعد واضح ہوئے۔ اس وقت تک لوگ بہت اہتمام کے ساتھ عید مناتے تھے۔ مرد عام طور پر پاکستان کے بنے ہوئے سوتی کپڑے کے کُرتے، پاجامے یا کُرتا، شلوار پہنتے تھے اور خواتین بھی سوتی ملبوسات استعمال کرتی تھیں۔ زیادہ تر گھروں میں فرنیچر کے نام پر چند کرسیاں، میز، ایک دو تخت اور مسہریاں ہوتی تھیں۔ اونچے متوسّط طبقے کے گھروں میں سادہ سے صوفے ہوتے تھے، جن میں ہتّھے عام طور پر نہیں لگے ہوتے تھے۔ زیادہ تر صوفوں اور کرسیوں کا ڈیزائن ایک ہی طرح کا ہوتا تھا۔دفاتر جانے والے ٹَیٹرون، زِین اور گیباڈین کی پتلونین عام طور پر پہنتے تھے۔ عید، بقر عید کے موقعے پر مردوں کے ملبوسات کے فیشن یا کوالٹی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ بس یہ ہوتا تھا کہ اُن مواقعے پر لوگ عام دنوں کی طرح کے ملبوسات کا نیا جوڑا پہنتے تھے۔البتہ خواتین کے ملبوسات کے فیشن زیادہ حد تک بدلتے تھے، لیکن آج کی طرح نہیں ہوتا تھا کہ رخ ایک دم مشرق سے مغرب کی طرف ہو جائے۔ گوٹے کناری لگانے کے انداز بدل جاتے تھے۔ کبھی چُنری کا ڈوپٹّا رواج پا جائے، توکبھی رنگ دارڈوپٹّوں کا فیشن آ جاتا۔

جسیم درانی کے بہ قول مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی معیشت پر بہت بُرے اثرات مرتّب ہوئے تھے، لیکن اس کے بعد بڑی تعداد میں پاکستانیوں کے بیرونِ ملک چلے جانے کی وجہ سے معیشت کچھ سنبھل گئی تھی، لیکن یہیں سے عام لوگوں میں طبقاتی تفریق کی رفتار تیز ہوئی اور یہ نمایاں ہو گئی۔ بیرونِ ملک مقیم افراد پاکستان آتے، تو اپنے ساتھ بیرونیِ ممالک کی طرح طرح کی اشیاء لاتے اور اُن کی نمایش کی جاتی۔ اسی طرح بیرونِِ ملک سے آئی ہوئی دولت پر یہاں موجود لوگ خوب عیش کرتے اور دولت کی نمایش بھی کی جاتی۔ غریب اور متوسّط طبقے میں اس صورتِ حال کی وجہ سے بہت تیزی سے تبدیلی آئی اور ان دونوں طبقوں میں مزید تقسیم ہوئی ۔ پھر ضیاء الحق کا زمانہ آیا، جس کے ابتدائی چند برس چھوڑ کر بعد میں منہگائی کو پَر لگ گئے۔ اس طرح غریب لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوتی گئی اور غربت میں مزید اضافہ ہوا۔ غریب پہلے بھی تھے، لیکن پہلے غربت کوئی گالی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ لوگ شرافت، نجابت اور خاندان دیکھا کرتے تھے اور عید، بقر عید میں میل جول میں طبقاتی تفریق حائل نہیں ہوتی تھی۔

طبقوں کے بازار

کراچی میں طبقاتی تفریق کا واضح طور پر اندازہ لگانا ہو، تو لانڈھی، ملیر،شاہ فیصل کالونی،لیاقت آباد، گلشنِ اقبال، طارق روڈ، حیدری، صدر، کلفٹن اور ڈیفنس کے بازاروں کا رخ کیا جا سکتا ہے۔ اِن بازاروں میں جانے سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں غریب، متوسّط اور امیر طبقے کے لوگوں کی عید میں کتنا زیادہ فرق ہوتا ہے۔ ملیر کے سب سے بڑے بازار لیاقت مارکیٹ میں اس برس پانچ چھ برس تک کے لڑکوں کے کُرتے شلوار یا پتلون، قمیص؍ٹی شرٹ کے سُوٹ پانچ چھ سو روپے سے بارہ تیرہ سو روپے تک میں مل رہے تھے۔ اسی طرح اس عمر کی لڑکیوں کے مکمل سُوٹ پانچ سو روپے سے ڈیڑ ھ ہزار روپے تک میں مل رہے تھے۔ اگر صرف فراک خریدنا ہوتووہ دوسوسے چار پانچ سور روپے تک میں مل جائے گا۔ لانڈھی کی بابر مارکیٹ اور لیاقت آباد کی مارکیٹ میں بھی تقریباً یہ ہی صورتِ حال ہے۔ حیدری مارکیٹ میں ان دونوں بازاروں کے مقابلے میںاُنیّس، بیس کا فرق دیکھا گیا۔ گلشنِ اقبال کی دکانوں میں یہ منظر بدل جاتا ہے۔ یونی ورسٹی روڈ کے آس پاس واقع دکانوں اور گلستانِ جوہر کے یونی ورسٹی روڈ اور راشد منہاس روڈ سے ملحق حصّوں میں واقع شاپنگ سینٹرز کے نرخ غریبوں اور نچلے متوسّط طبقے کے لوگوں کے لیے روح فرسا ہیں۔

راشد منہاس روڈ سے ملحق گلستانِ جوہر کے حصّے میں واقع ایک شاپنگ سینٹر میں ایک کثیر القومی ادارے کا مشہورِ زمانہ اسٹور واقع ہے، جس میں ملبوسات اور جوتے سمیت مختلف اشیاء ملتی ہیں۔ اس اسٹور میں چار پانچ سال کے بچّوں کے سوٹ ڈیڑھ تا ساڑھے تین ہزارروپے تک کے ہیں۔ طارق روڈ اور بہادر آباد کی دکانوں میں اس عمر کے بچّوں کے سوٹ ہزار سے ڈھائی ہزار روپے تک میں دست یاب تھے۔ کلفٹن کی دکانوں میں نہ صرف کپڑوں کا معیار مختلف نظر آیا، بلکہ فیشن اور قیمتیں بھی مختلف نوعیت کی تھیں۔ غریب اور متوسّط طبقے کے نزدیک جو فیشن معیوب یا ناقابلِ قبول ہوتا ہے، امیر اسے بہت فخر سے اپنا لیتے ہیں۔ فکر میں طبقاتی تفریق کی یہ واضح مثال ہے۔ یہاں مذکورہ عمرکے بچّوں کے سوٹ دو ہزار سے ڈھائی تین ہزار روپے تک کے تھے۔ گلشنِ اقبال کی دکانوں میں چار پانچ برس کی بچّیوں کے سوٹ ہزار سے پونے دو ہزار روپے تک کے تھے اوربعض دکانوں پر صرف فراک ہزار روپے کے تھے۔ طارق روڈ پر اس عمر کی بچّیوں کے اسکرٹ اور بلاؤز اور فلیپر اور شرٹ کے سوٹ ہزار تاڈیڑھ ہزار روپے میں اور فراک چھ، سات سوسے ایک ڈیڑھ ہزار روپے تک میں دست یاب تھے۔ کلفٹن کی دکانوں میں اس عمر کی بچّیوں کے سوٹ کم از کم ڈیڑھ ہزار روپے تک میں اور فراک کم از کم نو سو روپے تک کے تھے۔

صدر میں زینب مارکیٹ، بوہرہ بازار، کریم سینٹر، سلیم سینٹر اور زیب النّساء اسٹریٹ پر سستے اورمنہگے ہر طرح کے ملبوسات دست یاب تھے۔ اس علاقے میں سب سے منہگے ملبوسات زیب النّساء اسٹریٹ پر واقع دکانوں میں تھے۔

لیاقت آباد مارکیٹ، لیاقت مارکیٹ، ملیر، بابر مارکیٹ لانڈھی، حیدری بازار اور صدر میں خواتین کے سِلے سِلائے سوٹ آٹھ سو تا تیرہ سو روپے میں دست یاب تھے۔ بوہرہ بازار کی بعض دکانوںمیں کاٹن کے سوٹ نو سو روپے میں بھی دست یاب تھے۔ اسی طرح بغیر سِلے ہوئے سوٹ کے پارچے سات سو روپے سے دوہزار روپے میں دست یاب تھے۔ طارق روڈ پر بغیر سِلے ہوئے سوٹ کے پارچے بارہ سو روپے سے بائیس سو روپے تک اور سِلے ہوئے سوٹ کم از کم پندرہ سوسے ساڑھے تین ہزار روپے میں فروخت ہورہے تھے۔ کلفٹن میں سِلے ہوئے سوٹ پندرہ سو سے تین ہزار روپے تک اور بغیر سِلے ہوئے سوٹ کے پارچے کم از کم بارہ سوسے چار ہزار روپے تک میں دست یاب تھے۔

مردوں کی ڈریس پینٹ، لیاقت مارکیٹ، ملیر، لیاقت آباد مارکیٹ، بابر مارکیٹ، لانڈھی، حیدری بازار اور صدر میں چھ سو سے لے کربارہ سو روپے میں اور شرٹ اور ٹی شرٹ ڈیڑھ سو روپے سے لے کرہزار روپے تک میں دست یاب تھیں۔ طارق روڈ پر یہ اشیاء بالترتیب ساڑھے چار سو روپے سے لے کر سترہ سو روپے تک اور چار سو روپے سے لے کر ہزار روپے تک میں دست یاب تھیں۔

غریب اور متوسّط طبقے کے خریدار کش مکش کا شکار

غریب اور متوسّط طبقے کے خریداروں کو خریداری کے دوران کش مکش کا شکار دیکھا گیا۔ عام طور پر ایسے خریدار کسی بازار میں داخل ہونے کے بعد پورے بازار کا چکّر لگا کر اپنی مطلوبہ اشیاء کے معیار اور نرخ کا جائزہ لیتے اور پھر مختلف دکانوںمیں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے دیکھے گئے۔ کبھی انہیں کسی شے کا معیار پسند آتا، تو بات نرخ پر آ کر رک جاتی اور کبھی نرخ مناسب لگتا، تو وہ معیار سے مطمئن نہ ہوتے۔ غرض یہ کہ اُن کی مشکل دوطرفہ تھی۔ ایسے خریداروں کو یہ فکر لاحق دیکھی گئی کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق ایسی اشیاء خرید سکیں، جن کا معیار اگر بہت عمدہ نہ ہو، تو کم از کم مناسب سطح کا ہو، تا کہ وہ شے کم از کم سال دو سال بہ آسانی چل سکے۔ امیر خریداروں کے لیے پسند اور فیشن کو پہلی ترجیح حاصل تھی ۔ اُن کے لیے معیار دوسرے نمبر پر تھا۔

غریب کی عید

موجودہ زمانے میں غریب کس طرح عید مناتا ہے؟ اس بارے میں بلدیہ عظمی کراچی کے دفتر میں جونیئر کلرک کی حیثیت سے کام کرنے والے ریحان انصاری کا کہنا تھا کہ امیر جلد از جلدعید آنے کی دعا کرتا ہے، لیکن غریب آدمی چاہتا ہے کہ عید لمبے وقفے کے بعد آئے یا اُس وقت آئے، جب اُس کے ہاتھ میں چار پَیسے ہوں۔ اُن کے بہ قول جوں جوں عید قریب آتی ہے، غریب آدمی کی پریشانی اُسی قدر بڑھتی جاتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے عید کی خوشیوں پر دولت کا قبضہ ہو گیا ہے اور اس تہوار کی خوشیاں دولت مندوں کے لیے مخصوص ہو گئی ہیں۔ ریحان انصاری کے بہ قول، موجودہ زمانے میں عید کو نمود و نمایش کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ اُس روز ہمارے معاشرے کی طبقاتی تفریق نمایاں ہو جاتی ہے اور غریب اور امیر کے درمیان واضح فرق دیکھ کریوں لگتا ہے، جیسے امیر افرادغریبوں کا مذاق اُڑا رہے ہوں۔

ابّو! میرے لیے ہار اور سینڈل لانا

مچھر کالونی میں رہائش پذیر ریحان احمد کے مطابق عیدالفطر کے موقعے پر بچّے ان سے طرح طرح کی فرمائشیں کرتے ہیں۔ سمجھ دار بچّوں کو وہ کسی نہ کسی طرح ٹال دیتے ہیں ،لیکن چھ سالہ ریحانہ کو اپنے باپ کی مشکلات کا کوئی علم نہیں، اس مرتبہ اس نے نئے جوڑے کے علاوہ اپنے باپ سے ہار اور سینڈل لانے کی بھی فرمائش کی ہے۔ لیکن ریحان احمد کے بہ قول ان کے مالی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے بچّوں کو عید پر نئے جوڑے دلا سکیں۔ ایسے میں وہ معصوم ریحانہ کی فرمائش کیسے پوری کر سکتے ہیں۔ ان کے بہ قول وہ صدر میں واقع ایک دکان میں ملازم ہیں۔ان کی ماہانہ آمدن پندرہ ہزارروپے ہے۔ اتنی قلیل آمدن میں وہ پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا خرچہ بہ مشکل چلا پاتے ہیں۔ عیدالفطر کے موقعے پر ان کے لیے بچّوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کرنا ناممکن ہوتاہے۔ لیکن بچّے چاند رات تک اس انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ گھر لوٹیں گے تو ان کے ہاتھ میں کپڑوں اور جوتوں کے نئے جوڑے ہوںگے۔

ہمارے لیے عید کے روز اہتمام اور تفریح کا کوئی تصوّر نہیں

مختلف مقامات پر گفتگو کے دوران کئی افراد نے یہ موقف اختیار کیا کہ عید ان کے لیے معمول کے ایّام سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ تاہم اس اعتبار سے یہ دن ان کی زندگیوں میں ذرا مختلف نوعیت کا ہوتا ہے کہ اس روز انہیں اپنی غربت اور بے بسی کا شدت سے احساس ہوتا ہے اور اس پر رونا آتا ہے۔ ان لوگوں کے بہ قول جو خاندان عام دنوں میں نانِ شبینہ کو ترستے ہوں یا جن کے گھروں میں اکثر فاقے ہوتے ہوں اور جن کی آمدن بہت تھوڑی ہو، وہ عید کے روز کس طرح خاص اہتمام کرسکتے ہیں؟ان لوگوں کے بہ قول ان کے لیے عید کے روز اہتمام اور تفریح کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ اس روز بہت سے افراد سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہیں، لیکن غریبوں کے لیے سب سے بڑی تفریح یہ ہوتی ہے کہ نہیںدو وقت اتنا کھانا مل جائے کہ ان کا شکم سیر ہوسکے۔

غربت کے ستائے ہوئے ایک فرد کے مطابق سفید پوش افراد کی سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے اور دوسرے انہیں آسودہ حال سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق عام دنوں میں جب وہ بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتے ہیں تو کسی طرح ان کی بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عید کے موقعے پر جب وہ کپڑے،لتّے کے لیے روتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، لیکن اس موقعے پربھی وہ بچوں کی فرمائشیں پوری نہیں کر پاتے، کیوں کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے اور نہ کوئی انہیں اتنی رقم قرض دینے کے لیے تیّار ہوتاہے۔

غربت اور امارت اپنی جگہ، اصل بات معاشرتی رویّوں کی ہوتی ہے۔ اگر معاشرتی رویّے مناسب ہوں، تو غربت گالی نہیں بنتی اور امارت زندہ رہنے کا لائسنس قرارنہیں پاتی۔ اگر عیدالفطرمال و دولت کی نمایش کے بجائے خوشیاں بانٹنے کے تہوار کے طور پر منائی جائے، تو اُس روز پاکستان میں ہر چہرے پر مسّرت کے رنگ ہوں۔