اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا

June 12, 2019

محسن اسرار

اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا

جب تجربے ہوتے ہیں تو دھوکا نہیں ہوتا

جس لفظ کو میں توڑ کے خود ٹُوٹ گیا ہوں

کہتا بھی تو وہ اس کو گوارا نہیں ہوتا

تیری ہی طرح آتا ہے آنکھوں میں ترا خواب

سچّا نہیں ہوتا ،کبھی جھوٹا نہیں ہوتا

تکذیبِ جنوں کے لیے اِک شک ہی بہت ہے

بارش کا سمے ہو تو ستارا نہیں ہوتا

کیا کیا در و دیوار مری خاک میں گم ہیں

پر اس کو مرا جسم گوارا نہیں ہوتا

یا دل نہیں ہوتا مرے ہونے کے سبب سے

یا دل کے سبب سے مرا ہونا نہیں ہوتا

کس رخ سے تیقّن کو طبیعت میں جگہ دیں

ایسا نہیں ہوتا کبھی ویسا نہیں ہوتا

ہم لوگ جو کرتے ہیں وہ ہوتا ہی نہیں ہے

ہونا جو نظر آتا ہے، ہونا نہیں ہوتا

جس دن کے گزرتے ہی یہاں رات ہوئی ہے

اے کاش وہ دن میں نے گزارا نہیں ہوتا

جب ہم نہیں ہوتے، یہاں آتے ہیں تغیّر

جب ہم یہاں ہوتے ہیں، زمانا نہیں ہوتا

ہم ان میں ہیں جن کی کوئی ہستی نہیں ہوتی

ہم ٹوٹ بھی جائیں تو ،تماشا نہیں ہوتا