اپوزیشن جماعتوں کی احتجاجی سرگرمیاں شروع

June 13, 2019

گوھر علی خان، پشاور

صوبائی دارالحکومت پشاور میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی اے این پی سمیت بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی حکومتی پالیسوں کے خلاف صف بندی کرتے ہوئے صوبے کے سیاسی ماحول کو بھی گرمانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔تاہم اس مرتبہ اے این پی نے حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے میں پہل کرتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں پر سبقت لے گئی ہے ۔ اے این پی نے پارٹی کی مرکزی قیادت کی کال پرصوبے بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز کردیا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں اس حوالے سے منصوبہ بندی کی عمل سے گزر رہی ہے تاہم ایک طرف تبدیلی کے دعویدار حکومت کے دور میں بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح پاکستانی قوم کو ایک ہی دن روزہ روزہ رکھنا اور ایک ہی دن عید منانا نصیب نہ ہوسکاتو دوسری صوبائی حکومت نے 2جولائی کو ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات دہشت گردی کے خدشات اور شمالی وزیر ستان کے حا لیہ واقعات کو جواز بناکر الیکشن کمیشن سے مذکورہ انتخابات20دن کے لئے ملتوی کرانے کی تحریری درخواست کردی ہے جس کے بعد ان انتخابات کے ملتوی ہونے کے حوالے سے زیر گردش خدشات درست ثابت ہوگئے ہیں تاہم اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ قبائلی اضلاع کے امیدواروں نے بھی برہمی کا اظہا رکرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرانے کے تجویز مسترد کر دی ہے مگر حکومت نے ملک میں بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو تنقید اور احتجاج کے لئے ایک روز’’ــــ ایشو‘‘ فراہم کر دیا ہے۔تبدیلی کا نعرے لے کر اقتدار میں آنے والی حکومت سے پاکستانی قوم کو توقع تھی کہ ماضی کے برعکس یہ حکومت اس مرتبہ ملک میں قوم کو ایک ہی روز عید منانے میں کامیاب ہوجائے گی مگر صورت جون کی توں رہی اور امسال بھی ملک میں دو عیدوں کی روایت برقرار رہی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ چاند کا تنازعہ صرف رمضان اور عیدالفطر کے موقع پر ہی اکثر سامنے آتا ہے جبکہ بڑی عید پر شاید ہی اس پر اختلاف کیا جاتا ہو۔ یہ بات درست ہے کہ یہ خالصتاً دینی مسئلہ ہے اور بڑے بڑے جید علماء دین ہی اس پر کوئی تبصرہ اورفیصلہ کر سکتے ہیں مگر اس مرتبہ چاند کے معاملے میں جہاں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کود پڑے تھے وہاں خیبر پختونخوا حکومت نے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی غیر سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر سرکاری طور پرمنگل کے روز عید منانے کا اعلان کیا اور بعد میں اس’’ زود پشمان کا پشمان ہونا ‘‘کے مصداق اپنے ہی فیصلے کو غلط قرار دے دیاکیونکہ ان کے اس فیصلے سے ان روزہ داروں کا ایک روزہ خراب ہو گیا جنہوں نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پرپر روزہ رکھا اور منگل کو ان کے 28 روزے پورے ہوئے تھے۔ اس طرح وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سائنسی تحقیق کی روشنی میںکئی روزپہلے ہی ملک بھر میں بدھ 5جون کو عید منانے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد کرکے بدھ کو عید منانے کا اعلان کیا گیا افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر سال چاند کی رویت پر اختلاف کی سزا اس ملک کے عوام کو ملتی ہے کہ ایک ہی محلے میں کہیں روزہ تو کہیں عید ہوتی ہے پوری دنیا میں ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ دنیا کی پہلی ایٹمی قوت اسلامی ملک کے عوام ایک ہی دن عید منانے پر بھی متفق نہیں ہوسکتے جبکہ اس کے برعکس ہر سال پوری دنیا میں25 دسمبر کو کرسمس کا تہوار ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی تشکیل نوکی اشد ضرورت ہے۔ روٹیشن کی بنیاد پر ہر دو سال کے لئے چیئرمین نامزد کیا جاناچاہئے تاکہ اس تنازعہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر کے پاکستانی قوم کو بھی اپنے مذہبی تہوار کو ایک دن منا نے کا موقع مل سکے۔ادھر ملک میں بڑھتی ہوئی شدید مہنگائی اور بے روز گاری سمیت حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں نے بندیاں کر رکھی ہیں تاہم اے این پی نے اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے ہفتہ رفتہ میں اپنے قائد اسفندیار ولی خان کی کال پر پورے صوبے بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع میں ایک ہی روزحکومتی پالیسیوں خصوصاً بڑھتی ہوئی کمر توڑ مہنگائی اور معاشی پالیسیوں کے خلاف بھر پور سیاسی قوت کا مظاہر کرتے ہوئے صوبے کے ہر ضلع میں احتجاج کیا گیا۔ پارٹی رہنمائوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کا انعقاد کیا۔ پارٹی کے قائد اسفندیار ولی خان نے ضلع چارسدہ میں احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی تو سابق وزیراعلیٰ اور مرکزی سینئر نائب صدر حیدر خان ہوتی نے مردان، صوبائی صدر ایمل ولی خان نے صوابی اور ضلع مہمند،پارٹی سینئر رہنماء حاجی غلام احمدبلور نے پشاور جبکہ سردار حسین بابک نے ضلع بونیر میں احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کی۔ ان حتجاجی مظاہروں اور جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے اسفندیار ولی خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنمائوں نے حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور کہا کہ باقی جماعتیں میدان میں نکلے یا نہ نکلے اے این پی تنہا اس تحریک کو آگے بڑھائے گی۔ اے این پی کے قائدین نے احتجاجی مظاہروں کے دوران وکلاء کی متوقع تحریک کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ اے این پی کی قیادت نے اسی احتجاج کو آگے بڑھاتے ہوئے 14جون کو پختون قومی جرگہ طلب کرنے 18جون کو میڈیا پر پابندیوں کے خلاف جبکہ 24 جون کو نیب کے دفاتر کا گھیرائو کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے فی الحال خاموش ہیں اورتیزی کے ساتھ بدلتے ہوئی صورت حال کے مطابق منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔تاہم سیاسی ماحول گرم ہوتے ہی دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی میدان میں اترنے میں دیر نہیں لگائیں گی کیونکہ حکومتی پالیسیوں خصوصی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کے ساتھ ساتھ سفید پوس طبقے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے عوام حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں جبکہ حکمران ایک ہی رٹ لگائے بیٹھے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے ملک لوٹا ہے اور عوام کو ٹیکس دینا ہو گا یہ وہی الفاظ ہیں جو ماضی کی ہر حکومت اقتدار میں آنے کے بعد عوام کا خون نچوڑنے کے لئے دہراتی رہتی ہے۔عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت بتائے کہ عوام کونسا ٹیکس نہیں دیتے اور مذید کتنا ٹیکس ادا کرے ؟ ایسا کونسا شعبہ ہے جس میں غریب سے ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا ۔بجلی اور گیس کے بل تو اب سفید پوش طیقے کے بھی بس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ ادویات اور مصالحے کی ایک ڈبے پر بھی غریب عوام سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے نہ جانے وہ کونسا ٹیکس ہے جو حکمران غریب سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔حقیقت تویہ ہے کہ ٹیکس اس ملک کی اشرافیہ نہیں دے رہیجوہمیشہ غریبوں کے ٹیکسوں پر مزے لوٹتے ہیں۔ عوام کو توقع تھی کہ موجودہ حکمران اپنے وعدوں کے مطابق بڑے بڑے لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت اور ٹیکس وصول کرکے غریبوں کو ریلیف دیں گے اور غریب عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا مگر موجودہ حکمرانوں نے تومہنگائی اور بجلی گیس کے بلوں میں اضافے کر کے غریب عوام کا خون نچوڑنے میں ماضی کے تمام حکمرانوں کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ بڑے لٹیروں پر ہاتھ ڈال کر ان سے لوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کی بجائے انہیں جیلوں اور ہسپتالوںمیں مہمان بنا کر رکھا جارہا ہے ۔اگر حکمران اسی طرح اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے اور غریب عوام کو مزید دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ اس ملک کے عوام کے پاس اپوزیشن کا ساتھ دینے سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا اور جب غریب اور محنت کش سڑکوں پر نکلتا ہے تو انہیں پھر اس طوفان کو کوئی نہیں رو ک سکتا ۔