سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے پر غور موخر

June 21, 2019

اسلام آباد (انصار عباسی) سول سروسز میں اصلاحات کیلئے تشکیل دی گئی ڈاکٹر عشرت حسین کی زیر قیادت ٹاسک فورس نے سرکاری ملازمین کیلئے ریٹائرمنٹ کی عمر 60؍ سے بڑھا کر 63؍ سال کرنے کی تجویز پر غور کو فی الحال ملتوی کر دیا ہے۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ ٹاسک فورس نے تجویز پر غور کیا لیکن سول سروسز میں بنیادی اصلاحات (جس میں کارکردگی کی مینجمنٹ کے موجودہ نظام کو بہتر بنانا بھی شامل ہے) کو حتمی شکل دیے جانے تک ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز پر غور کو موخر کر دیا۔ دی نیوز کے رابطہ کرنے پر ڈاکٹر عشرت حسین نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ٹاسک فورس نے تجویز پر غور کیا اور بنیادی سول سروسز اصلاحات متعارف کرائے جانے تک اس معاملے کو موخر کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، ٹاسک فورس کا مشاہدہ تھا کہ کارکردگی کی مینجمنٹ کے موجودہ نظام میں بہتری لانے کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تبدیلی پر غور کیا جا سکتا ہے تاکہ اُن سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے جا سکیں جنہیں میرٹ، کارکردگی اور صلاحیت کے لحاظ سے ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع دی جا سکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے حوالے سے ہیجان خیبرپختونخوا کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ گزشتہ ہفتے یہ خبر آئی تھی کہ خیبرپختونخوا کابینہ نے سرکاری محکموں کے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 63؍ سال کر دی ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس غیر معمولی فیصلے کی وجہ سے سالانہ 24؍ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ کابینہ کے فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کو جائز قرار دیا اور بتایا کہ بھارت میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں ریٹائرمنٹ کی عمر 60؍ سے 65؍ سال جبکہ یورپ اور برازیل میں 65؍ سال تک ہے، جاپان میں یہ حد 62 جبکہ امریکا میں 67؍ سال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 240(b) کے تحت صوبائی حکومت ایسی قانون سازی کر سکتی ہے کہ یہ عمر بڑھائی جا سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، یوسف زئی نے سول سرونٹس ایکٹ 1973ء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُس وقت ریٹائرمنٹ کی عمر 50؍ سال تھی جو بعد میں بڑھا کر 60؍ سال کی گئی اور یہ قانون گزشتہ 35؍ سال سے نافذ ہے۔ پاکستان میں 2018ء انسان کی متوقع عمر اوسطاً 63؍ تھی جو 1973ء میں 55؍ سال تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہر سال تقریباً 5؍ ہزار ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچتے ہیں جبکہ قبل از وقت ریٹائرمنت کا تناسب بھی 50؍ فیصد تک ہے۔ لہٰذا، 60؍ سال کی عمر کو پہنچنے والے ملازمین کی تعداد 2500؍ ہوگئی ہے جس سے صوبائی سرکاری خزانے پر 6؍ ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چیف سیکریٹری کے پی کے کو ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائے جانے پر تحفظات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ چیف سیکریٹری کی رائے تھی کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے سے وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مسئلے کا متبادل حل نہیں۔ یہ کہا گیا تھا کہ پنشن پر سرکاری اخراجات میں اُس وقت اضافہ ہوگا جب حکومت کی مدت کا آخری سال ہوگا، آئندہ الیکشن جیتنے کیلئے مالی وسائل کی ضرورت ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ چیف سیکریٹری نے بتایا تھا کہ پنشن دینے کے حوالے سے واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے فیصلے کارآمد ثابت نہیں ہو سکتے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کی تجویز کے حوالے سے میڈیا میں اس وقت مباحثے کا موضوع بنے جب وزیراعظم آفس سے جاری ہونے والا ایک خط سوشل میڈیا پر گردش کرتا نظر آیا۔ مذکورہ خط میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ فنانس سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور پنجاب اور کے پی کے فنانس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ مشاورت کرکے اس بات کے مالی، قانونی اور انتظامیہ نتائج پر غور کریں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے یا جلد ریٹائرمنٹ سے کیا ہوگا۔