جوہری قوتوں کے درمیان کشیدگی خودکشی کے مترادف ہے، پاکستان

June 25, 2019

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دنیا اس وقت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ کثیرالملکی، اصول پر مبنی بین الاقوامی تعاون اور عالمی قوانین کا احترام خطرات سے دوچار ہے۔ ماضی میں جو اقدار لازم رہی ہیں، وہ اپنی قدرومنزلت کھورہی ہیں، سچائی دم توڑ رہی ہے۔ دوجوہری قوتوں کے درمیان کسی تنائو کا نہ صرف تصور محال ہے بلکہ سادہ الفاظ میں یہ خودکشی کے مترادف ہے۔

جغرافیائی وسیاسی تنازعات نہ صرف واپس لوٹ رہے ہیں بلکہ یہ تقسیم مزید گہری ہورہی ہے۔دنیا کے تقریباً ہر خطے میں تزویراتی استحکام خطرے سے دوچار ہے، ریاستوں میں باہمی اعتماد اور احترام ختم ہورہا ہے، موجودہ تنازعات پیچیدہ تر ہورہے ہیں اور نئے تنازعات ابھرکر سامنے آرہے ہیں۔

دہشت گردی کے نئے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے جن کا ہمیں پہلے سامنا نہیں تھا، ’ہائیبرڈ‘ اور ’سائیبر‘ خطرات سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا بھی ہمیں سامنا ہے اور وہ نئی شکل میں دنیا کی سلامتی کے لئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نےمنگل کی صبح یورپین ڈیفینس اینڈ سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سیاسی اور سکیورٹی انداز فکر کو معاشی اور مالی اہمیت سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔

انھوں نے کہا کہ اس حوالےسے میں کہوں گا کہ جیواکنامک پہلو دراصل آج کی دنیا میں جیوپولیٹیکل اور ا سٹرٹیجک مفادات کو متشکل کررہے ہیں۔ غیرملکی مصنوعات پر ٹیکسوں کے ذریعے مقامی صنعتوں کے تحفظ کا بڑھتا ہوا رجحان عالمی تجارتی نظام کے اصولوں کو غیراہم بنارہا ہے۔ معاشروں کے اندر تیزی سے تبدیلیاں وقوع پزیر ہو رہی ہیں۔ عدم برداشت اور انتہاء پسندی بڑھ رہی ہے، قوم پرست اور دائیں بازو کی قوتیں طاقت ور ہورہی ہیں، غیرملکیوں سے نفرت اور اسلام سے خوف تہذیبوں کے تصادم کے گمراہ کن نظریات کو تقویت دے رہا ہے۔

یہ تمام رجحانات مشترکہ طورپر خطوں کے اندر اور ان سے باہر امن وسلامتی کے لئے ایک فوری خطرہ ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ صورتحال میری توجہ جنوبی ایشیاءکی سلامتی کی صورتحال کی طرف لیجاتی ہے۔ یہ خطہ عجیب نوعیت کے ’جیو اسٹرٹیجک‘ ماحول کی وجہ سے بے پناہ دباو میں ہے۔ غربت، ناخواندگی اور پسماندگی کی مشکلات اس خطے کے لئے پہلے سے موجود رکاوٹوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔

پاکستان دنیا میں شاید واحد ایسا ملک ہے جس نے عظیم جانی ومالی قربانیاں دے کر دہشت گردی کی خوفناک لہر کا رُخ موڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاءپسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پاکستانی قوم پرعزم ہے۔ آپریشن "ضرب عضب" اور "ردالفساد" نے اس ضمن میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد کے ثمرات کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض میں امن اور خوشحالی کافی حد تک لوٹ آئی ہے۔

داخلی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحت کا فروغ دہشت گردی کے خلاف ہماری اس کامیابی کا عملی ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اسلام آباد کا ’فیملی اسٹیشن‘ کا درجہ بحال کردیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کی بصیرت افروز قیادت کے تحت پاکستان ایک ذمہ دار اور عالمی ضابطوں پر عمل کرنے والے ملک کی حیثیت سے اپنے لئے زیادہ بڑا کردار دیکھ رہا ہے۔

پاکستان امن، تحمل اور پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے رہنما اصولوں پر کاربند ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ”ہماری خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کی حامل ہے“۔

ہم نے حال ہی میں کرتار پور راہداری کھولنے کا اقدام بھی ہمسایوں سے جڑنے اور امن کی جستجو میں کیا ہے۔ پاکستان امن کی بہتری اور باہمی احترام، خودمختاری کے یکساں احترام اور باہمی مفاد میں بھارت سمیت تمام ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ بھارت نے پاکستان پر باربار دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کئے۔ ہم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے معاملے پر بھی بات کرنے پر آمادہ ہے، ہمیں عار نہیں، کیونکہ ہمارے خلاف دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بھی سنجیدہ امور ہمارے علم میں ہیں۔

بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر کمانڈر کلبھوشن یادیو پاکستان کی حراست میں ہے جس نے ٹھوس شواہد فراہم کرنے کے علاوہ اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے اپنی حکومت کی ہدایت پر پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کی لہر اٹھائی ، اس کے لئے وسائل فراہم کئے اور منصوبہ بندی کے ذریعے ان وارداتوں پر عمل کرایا۔

انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور بھارت میں روایتی ہتھیاروں میں بڑھتا ہوا عدم توازن بھی جنوبی ایشیاءکا تزویراتی استحکام خطرے میں ڈال رہا ہے۔ جدید فوجی سازوسامان کی فراہمی میں بعض ممالک کی جانب سے حساس ٹیکنالوجیز بھارت کو دے کر اور بھارت کی جانب سے جارحانہ انداز اختیار کرکے امتیازی سلوک برتا جارہا ہے جس سے جوہری تنازعہ کی کسی صورتحال کا بخوبی ادراک کیاجاسکتا ہے۔ عدم استحکام کے ان حالات میں پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنی کم ازکم دفاعی صلاحیت برقرار رکھے، ہم جنوبی ایشیاءمیں تزویراتی ضبط وتحمل کے نظام کے حامی ہیں۔

پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کو سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کررہا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی منظور کردہ مختلف قراردادوں کے تحت اپنا حق استصواب رائے مانگ رہے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی مقامی اور قانونی طورپر جائز جدوجہد کو ”دہشت گردی“ کے ذریعے دبانے کی کوشش کررہا ہے، طاقت کے بہیمانہ استعمال کے نتیجے میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہورہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے جون 2018ءمیں اپنی رپورٹ میں جامع انداز میں مقبوضہ وادی میں بھارتی سکیورٹی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کو جمع کیا ہے۔ سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے اس رپورٹ کو اقوام متحدہ کی آواز قرار دیا ہے۔14 فروری 2019ءکو پلوامہ میں ایک مقامی کشمیری نوجوان کا واقعہ رونما ہوا جسے بھارتی قابض افواج نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا، بدسلوکی اور بھارتی قابض فوج کے استبدادی رویوں کی بناءپر اس کا ذہن بدل گیا۔

پاکستان نے واقعہ کی مذمت کی اور بھارت سے ایسے شواہد دینے پر اصرار کیا جس کی بنیاد پر کاروائی عمل میں آسکے لیکن بھارت نے پاکستان کی اس پیشکش پر توجہ دینے کے بجائے اپنی داخلی سیاسی مجبوریوں کے تحت جنگی جنون کو ہوا دینا شروع کردی۔اور 26 فروری کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الریاستی اقدار اور عالمی قانون کی پاسداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری اور فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔ اس ناقابل قبول جارحیت پر پاکستان نے نہایت تحمل لیکن مضبوط عزم کے ساتھ ردعمل دیا۔

دوجوہری قوتوں کے درمیان کسی قسم کے تناو کا نہ صرف تصور محال ہے بلکہ سادہ الفاظ میں یہ خودکشی کے مترادف ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دانائی اور ان امور سے احتیاط کے ساتھ نبردآزما ہونے کا مظاہرہ ہوگا۔ہماری سوچی سمجھی رائے میں جموں وکشمیر سمیت تمام تنازعات کے پرامن حل کے لئے جامع مذاکرات اور مسلسل روابط کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔

انھوں نے افغان صورتحال پر کہا کہ گزشتہ انیس سال سے پاکستان افغانستان میں عالمی کوششوں میں کثیرالنواع مدد فراہم کررہا ہے۔ ہم امریکہ اور نیٹو افواج کو افغانستان تک محفوظ زمینی اور فضائی مواصلاتی رابطہ مہیا کررہے ہیں، ہم چالیس سال سے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کررہے ہیں۔ یہ زمانہ جدید میں سب سے طویل عرصے تک مہاجرین کو اپنے ہاں امان فراہم کرنے کی منفرد اور نادر مثال ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کئے گئے ہیں، اپنی یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ کالجوں میں پچاس ہزار افغانوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔

ہم افغانستان سے آئے مہمانوں کی جلد، باوقار، آبرومندانہ اپنے وطن واپسی کے خواہاں ہیں۔ پاکستان ایسے پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے پوری طرح سے پرعزم ہے جو دہشت گرد گروپوں جیسے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔ ایک مشترکہ ذمہ داری کے طورپر پاکستان دیگر فریقین کے ہمراہ امن عمل میں ممکنہ سہولت کاری فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ تاہم یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ یہ سب لوگوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے۔

ہم یورپی یونین کے افغان امن عمل میں واضح اور مستقل کوششوں میں ’اسٹیکس‘ سے آگاہ ہیں۔ اس کی کاوشیں نمایاں ہیں اور کثیر الجہتی ہیں۔ اس ضمن میں جینیوا میں وزارتی کانفرنس کے موقع پر نومبر2018ءمیں یورپین یونین کی اعلی نمائندہ موغیرینی کی طرف سے پانچ نکات پر مبنی پیشکش اور معاونت کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یورپی یونین سے قریبی تعاون استوار رکھتے ہوئے خطے میں امن کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھائیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے اپنی گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ آخر میں، میں اس صورتحال پر تشویش کااظہار کئے بنا نہیں رہ سکتا جو امریکہ اور ایران کے درمیان عالمی اور علاقائی امن اور سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بنتی جارہی ہے۔ ایران میں کسی قسم کے عدم استحکام کے پاکستان کی سکیورٹی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور کثیرالجہتی چیلنجوں کا اسے سامنا کرنا پڑے گا۔