قومی اسمبلی میں نجی بلوں کی بھرمار، دستور سازی پر جمود طاری

June 26, 2019

اسلام آباد (طارق بٹ) قومی اسمبلی میں نجی بلوں کی بھرمار سے دستورسازی کے عمل پر جمود طاری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس جمود کے ٹوٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق حکومت اور اپوزیشن میں کشیدہ تعلقات کی وجہ سے پیش کردہ بلز پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ حکمراں اتحاد کی اکثریت کی وجہ سے صرف دو ضمنی بجٹ قومی اسمبلی سے منظور ہوئے ہیں۔ وفاقی بجٹ سے متعلق معاملات میں ایوان بالا سینیٹ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں نجی ارکان کے زیرالتواء بلز کی تعداد 42 ہے۔ ان میں 15 کا تعلق آئینی ترامیم سے ہے۔ یہ تمام بلز اپوزیشن ارکان کے تجویز کردہ ہیں جو پارلیمانی روایات کے تحت سرکاری بنچوں کے اتفاق رائے ہی سے منظور ہو سکتے ہیں۔ اب تک حکومت نے19 بلز اور 6 صدارتی آرڈیننس قومی اسمبلی کے 10 سیشنز میں پیش کئے جو گزشتہ اگست سے شروع ہوئے۔ دونوں پارلیمانی ایوانوں نے دو قوانین منظور کئے۔ اپوزیشن کے زیراثر سینیٹ حکومت کی معاونت کے لئے معاونت پر آمادہ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے کا بل منظور کیا لیکن سینیٹ نے اسے مسترد کر دیا۔ قومی اسمبلی نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں قبائلی علاقوں سے ارکان کی تعداد میں اضافے کی آئینی ترمیم منظور کی جسے 16 سے 24 اور 6 ماہ میں انتخابات کرانے کا کہا۔ یہ ترمیم سینیٹ میں پڑی ہے جسے اس کی منظوری میں جلدی نہیں ہے۔ حکومت نے جو آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش کئے ان میں اثاثوں کے اعلان کی اسکیم، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، الیکشن ایکٹ، پبلک سروس کمیشن کے قواعد و ضوابط کی توثیق اور پیمرا سے متعلق آرڈیننس شامل ہیں۔ حکومت نے بارہا اعلان کیا کہ وہ اصلاحات کے لئے اپنے دستوری ایجنڈے پر عمل کرنے کی خواہاں ہے لیکن یہ متعلقہ قوانین کے مرتب ہونے پر ہی ممکن ہے۔ تاہم اس سلسلے میں حکومتی کوششیں ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ اگر دونوں ایوانوں نے رُکاوٹیں کھڑی کیں تو دستورسازی کا عمل رُک جائے گا۔