ولیمسن، کوہلی ایک بار پھر آمنے سامنے

July 08, 2019

تقریباً گیارہ سال قبل 2008ء کے انڈر19 ورلڈ کپ سیمی فائنل میں بھارتی ٹیم کی قیادت ویرات کوہلی اور نیوزی لینڈ کی کین ولیمسن نے کی تھی، میچ میں بھارت نے کامیابی حاصل کی اور پھر فائنل میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

Your browser doesnt support HTML5 video.


کوہلی وہی تاریخ دہرانے کے لئے پرعزم ہیں۔ اگر موجودہ فارم کی بات کی جائے تو بھارتی ٹیم اس وقت شاندار فارم میں ہے، خصوصاً اوپنر روہیت شرما نیوزی لینڈ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں، جو اب تک ایونٹ میں ریکارڈ پانچ سنچریوں کے ساتھ 647 رنز بناچکے ہیں۔

بھارت کے لوکیش راہول اور ویرات کوہلی بھی اچھی فارم میں ہیں البتہ بھارتی ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ مڈل آرڈر بیٹنگ ہے جس کی اب تک کسی بھی میچ میں سخت آزمائش نہیں ہوئی اور اہم موقع پر ٹاپ آرڈر فلاپ ہونے کی صورت میں بھارتی ٹیم مشکل میں پھنس سکتی ہے۔

سَوا ارب لوگوں کی توقعات کے بوجھ کے سبب بھارتی ٹیم پر میچ اور ورلڈ کپ جیتنے کا کافی دباؤ ہو گا لیکن ویرات کوہلی نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی میچ آسان نہیں ہوتا، ہر میچ دباؤ سے بھرپور ہوتا ہے لیکن ہماری ٹیم دباؤ برداشت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

ورلڈ کپ میں اب تک نیوزی لینڈ کی اوپننگ جوڑی مکمل طور پر فلاپ رہی ہے اور مارٹن گپٹل اور کولن منرو کی ناکامی کے بعد نیوزی لینڈ نے ہنری نکولس کو بحیثیت اوپنر استعمال کیا لیکن یہ تجربہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا۔

ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن کی تمام تر ذمہ داری کین ولیمسن پر رہی ہے جو عالمی کپ میں 96 کی اوسط سے 481 رنز کر چکے ہیں لیکن ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز متاثر کن کھیل پیش نہیں کر سکا، خصوصاً گپٹل اور تجربہ کار روس ٹیلر کی ناکامی کیویز کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بولنگ میں نیوزی لینڈ کی تمام تر توقعات ایک مرتبہ پھر ٹرینٹ بولٹ اور لوکی فرگوسن سے ہوں گی اور ان دونوں کی اچھی بولنگ نیوزی لینڈ کو لگاتار دوسری مرتبہ ورلڈ کپ فائنل میں پہنچا سکتی ہے۔

بھارتی ٹیم پانچ بولروں کے ساتھ ہی میدان میں اترے گی لیکن ٹیم کمبی نیشن کے حوالے سے بھارتی ٹیم شش و پنج کا شکار ہے۔

بھارتی ٹیم انتظامیہ کلدیپ یا چاہل میں سے کسی ایک کو کھلانا چاہتی ہے جبکہ بھوونیشور اور شامی میں سے بھی کسی ایک کا انتخاب بھارتی ڈریسنگ روم کے لیے کام آسان نہیں ہو گا۔

بھارتی ٹیم کے برعکس نیوزی لینڈ کی ٹیم گزشتہ تینوں میچ ہارنے اور بیٹنگ لائن کی ناکامی کے سبب شدید دباؤ کا شکار ہو گی۔