آخری جنگ

July 09, 2019

ابھی مجھے چین پر ایک اور کالم لکھنا تھا مگر پاکستان میں مافیا اور ریاست کے مابین جنگ اس قدر تیز ہو گئی ہے کہ اسے آپ آخری جنگ کہہ سکتے ہیں۔ تیز ہوتی ہوئی جنگ میں ایک وڈیو کا سامنے آنا اور پھر مسترد ہونا، اب دودھ اور پانی کے ’’نکھیڑ‘‘ کے لئے فرانزک آڈٹ ہوگا۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں مگر پہلے گرفتاریوں کے موسم پر جو بہار آنے والی ہے اس کی بات کرلیں۔ اگلے کچھ دنوں میں سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں کی گرفتاریاں ہونے والی ہیں، ممکن ہے ان لوگوں کے نام بلیک لسٹ میں ڈال دئیے گئے ہوں اور جب یہ رانا مشہود کی طرح بھاگنے کی آرزو لئے ائیر پورٹ پر پہنچیں تو انہیں روک لیا جائے۔ مزید تضحیک درکار ہو تو آف لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے مگر یہ سب کچھ ہونے جارہا ہے، گوجرانوالہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے (ن)لیگ کے دو اہم ترین رہنما اپنی گرفتاری کے لئے تیار ہوجائیں۔ اندرونِ سندھ کرپشن کا راج قائم کرنے والے کچھ سیاستدان اور بیوروکریٹس بھی تیار رہیں، جو لوگ عثمان انور سے مال لیتے رہے ہیں، وہ بھی تیار ہوجائیں۔ گرفتار عثمان انور نے کم و بیش پچیس صحافیوں کا تذکرہ کیا ہے، جن لوگوں نے مریم نواز سے کسی بھی شکل میں مراعات حاصل کی تھیں وہ بھی تیار رہیں، خواہ وہ کرکٹ گرائونڈ ہی کیوں نہ ہو۔ بہت سے چہرے بےنقاب ہونے والے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کچھ دنوں تک بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو نظر بند کردیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فاطمہ بھٹو کو بھی میدان میں اتار دیا جائے اور وہ پاکستان آکر یہ کہنا شروع کردیں کہ بھٹو تو میں ہوں یہ تو زرداری ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سندھ میں ذوالفقار مرزا ،جام صادق علی سے بھی زیادہ خطرناک ہوں مگر ذوالفقار مرزا پیپلز پارٹی کو زیادہ نقصان نہیں پہنچائیں گے لیکن سندھ پر مسلط ٹولے کو تنگی ِ حیات کی ساری منزلیں یاد کروا دیں گے۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع میں اگر بلاول بھٹو زرداری نے ساتھ دیا تو راجہ ظفر الحق چیئرمین بن جائیں گے، ورنہ مشکل ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری آخری وقت پر انکاری ہوجائیں اور مولویوں کو بھی شیری رحمٰن کے سامنے زیر ہونا پڑے۔ حالات اور بگڑنے والے ہیں، اپوزیشن اس کی تیاری کر رہی ہے، انہوں نے کچھ بیوروکریٹس، کاروباری شخصیات، تاجر طبقہ، کچھ وکلاء اور میڈیا سے منسلک کچھ شخصیات کو اپنے ساتھ ملا کر آخری جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں انہیں انڈر ورلڈ کا تعاون بھی حاصل ہے۔ منشیات فروشوں کا ساتھ بھی اور اس کے علاوہ کالعدم تنظیموں کی حمایت بھی، مگر یاد رکھنا کہ آخری فتح مافیا کی نہیں ریاست کی ہو گی، یہ جو مرضی کرلیں کسی کو معافی نہیں ملے گی، پی ٹی آئی کی بعض شخصیات بھی گرفتاری کے لئے تیار رہیں۔

فرانزک آڈٹ کے نتائج بھی خطرات سے خالی نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں ایک گرفتاری ایسی ہوئی تھی جس پر ہمارے کئی سادہ لوح صحافیوں نے کہا کہ ’’ہمیں رانا صاحب نے پہلے ہی بتا دیا تھا‘‘۔ میرے دوستوں کو سیاستدانوں کی چالبازیوں کا زیادہ علم نہیں، وہ بڑی سادگی سے ان پر یقین کر لیتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ دراصل اسی طرح کا ایک کردار ہے جس طرح کے کردار عاطف چوہدری اور ارشد امین تھے۔ غریب جب امیر بننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اس کوشش میں اندھا ہو جاتا ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ غریب سے بڑا ظالم کوئی نہیں، وہ دولت کے حصول میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوتا ہے، امارت تک پہنچنے کی مسافت میں وہ کئی قتل کرتا ہے، کئی قتل کرواتا ہے، موت کی بےرحمانہ تقسیم اسے روز حشر سے بھی غافل کردیتی ہے۔ رانا ثناء اللہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا، طالبعلمی کے زمانے میں پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوا، اسے زندگی میں پہلی بار سائیکل ویسپا یوسف بھٹی نے لے کر دیا، طالبعلم رہنما کے طور پر جرائم پیشہ افراد سے اس کے مراسم بنے، پھر اس نے دو اور لڑکوں پر ہاتھ رکھا، ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا جبکہ دوسرا بھی قتل ہوگیا۔ اس دوران رانا ثناء اللہ کے پاس اتنا کچھ آگیا کہ وہ سیاسی چوہدریوں سے ٹکرانےکےقابل ہوگیا، ورنہ بقول عابد شیر علی ’’یہ ہم سے پیسے لے کر نعرے لگایا کرتا تھا‘‘ رانا ثناء اللہ کو زیادہ عروج 2008کے بعد ملا۔ غالباً 2006میں چوہدری شجاعت حسین نے مجھے ایف آئی آر کی ایک کاپی دیتے کہا تھا کہ ’’یہ رانا ثناء اللہ کے خلاف ایف آئی آر ہے جو 1992میں شریف فیملی نے درج کروائی تھی‘‘۔ رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد ایک ڈی ایس پی ملک خالد بھی گرفتار ہوا ہے، یہی ڈی ایس پی نوید کمانڈو کو دھمکیاں دیتا تھا۔ نوید کمانڈو رانا ثناء اللہ کا ایک ساتھی ہے اس نے عدالت کے روبرو اپنے اقبالی بیان میں بھولا گجر سمیت کئی قتلوں کا اعتراف کیا۔قبضوں کی داستان بھی سنائی۔کس طرح ایک دن عاتکہ ایڈووکیٹ کے گھر سے نکل کر بھولا گجر جارہا تھا تو میں نے اسے مار ڈالا۔ اس کی اطلاع رانا صاحب کو دے کر شاباش حاصل کی مگر حیرت ہے کہ رانا صاحب بھولا گجر کے جنازے میں بھی شریک ہوئے، پھر مجھے رانا صاحب نے کہا کہ سب انسپکٹر فرخ وحید کو قتل کردو، فرخ وحید کو اس کا اندازہ ہو گیا تھا اسی لئے وہ برطانیہ بھاگ گیا۔ اب سمجھ لیں کہ مشن کی ناکامی کا صلہ مجھے موت کی صورت میں ملنا تھا لہٰذا میں کراچی بھاگ گیا۔ کراچی سے حافظ آباد آنے پر مجھے گرفتار کرتے وقت ڈی ایس پی خالد ملک نے کہا کہ’’اگر بھولے گجر کا نام لیا تو میں تمہیں پولیس مقابلے میں ماردوں گا۔‘‘

بےشمار قتل کرنے والے سب انسپکٹر فرخ وحید کا ایک وڈیو بیان بھی سامنے آیا ہے، فرخ وحید نے چیف جسٹس سے زندگی کا تحفظ مانگا ہے وہ پاکستان آکر سب کچھ بتانے کو تیار ہے۔ آپ سب انسپکٹر فرخ وحید کو انسپکٹر عابد باکسر پارٹ ٹو کہہ سکتے ہیں۔رانا ثناء اللہ کی گرفتاری منشیات میں ہوئی ہے۔ دبئی میں ہونے والی ایک میٹنگ ان کے گلے پڑ گئی ہے جس کے بعد کئی عالمی اداروں نے اے این ایف کو بہت کچھ بتادیا تھا۔ تین چار ماہ قبل منشیات فروشوں کے ایک گروہ کی گرفتاری نے اے این ایف کو اور بہت کچھ بتایا۔ گرفتاری کے وقت نیلے بیگ کی نشاندہی خود رانا ثناء اللہ نے کی۔ اے این ایف کے دو اہلکاروں کے ساتھ باڈی کیمرے تھے جن کی مدد سے پوری یڈو ریکارڈ ہوئی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایفیڈرین کی شکایت بھی آسٹریلین حکومت نے کی تھی۔ رانا ثناء اللہ کے کالعدم تنظیموں سے مراسم کی بھی بات کی جاتی ہے۔ آپ چوہدری شیر علی کی تقریر کو یاد رکھیں، شجاع خانزادہ کی شہادت کے علاوہ ملک اسحاق کی بیٹوں سمیت ہلاکت کو یاد رکھیں تو سب باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔ یہ ہے ایک پاکستانی سیاستدان کا ’’چہرہ‘‘، مبینہ طور پر سات اراکین اسمبلی منشیات کے کاروبار سے وابستہ ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، فی الحال نصیر ترابی کا شعر سنیے کہ ادب سے دوستی معاشروں کا حسن ہے؎

وہ بیوفا ہے تو کیا، مت کہو برا اس کو

کہ جو ہوا سو ہوا، خوش رکھے خدا اس کو

نظر نہ آئے تو اس کی تلاش میں رہنا

کہیں ملے تو پلٹ کر نہ دیکھنا اس کو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)