افسانہ اور جدید رجحانات

July 10, 2019

اکرم کُنجاہی

اکثر اوقات کسی نہ کسی افسانوی مجموعے کی تقریبِ پذیرائی میں ناقدین اس بات پر الجھ پڑتے ہیں کہ یہ کہانی ہے یا افسانہ اور ہر کوئی اپنی رائے تسلیم کروانے پربہ ضد دکھائی دیتا ہے۔ایک طرف توکہانی کا کینوس بہت وسیع ہے ، تو دوسری طرف اِس کا سفر بہت طویل ہے کہ کہانی اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ و تہذیب۔یہی وجہ ہے کہ ہر عہد کے ادب کا قاری کہانی مانگتا ہے ۔نذیر و راشد کے پند و نصائح ہوں کہ یلدرم و نیاز کے رومان، عصمت و منٹو کی جنسی حقیقت نگاری ہو یا رضیہ سجاد و رشید جہاں کی ترقی پسندی، بات کہانی کہے بغیر بنتی نہیں۔ کہانی اور افسانے میں فرق برقرار نہ رکھنا اور اِن کو مترادف اصطلاحات کے طورپربرتناایک واضح غلطی ہے۔کہانی دل چسپ واقعات کا سلسلہ ہے ۔ وہ داستان، ناول، افسانہ، قصہ، ڈراما، حکایت، تمثیل، لیجنڈ (قصص المشاہیر)، ایپک، کسی بھی شکل میں ہو سکتی ہے۔یہ سب کہانی کی مختلف شاخیں کہی جا سکتی ہیں، مگر اِن میں سے ہر صنفِ ادب کی الگ خصوصیات ہیں۔افسانہ ایک ایسی مختصر صنفِ ادب ہے جو زندگی کے کسی ایک رخ،ایک تاثر، ایک پہلو، ایک واقعے ، ایک موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔یہ وحدتِ تاثر کی حامل تحریر ہے جو نہ تو قصے اور ناول کی طرح ذیلی کرداروں کی حامل ہوتی ہے اور نہ ہی فکریات و موضوعات کے اجتماع سے برتاؤ کرتی ہے۔

مزید براں افسانہ چوں کہ از خود ایک مختصر تحریر ہے لہذا اِس کے ساتھ مختصر کا لفظ نتھی کر دینا بھی مناسب نہیں لگتا۔اِس میں کسی پہلو کو کھول کر بیان بھی نہیں کیا جاتا بلکہ سوچ کی تحریک پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے کہ قاری اُس موضوع پر خود بھی غور و فکر کرے جسے افسانہ نگار نے بیان کیا ہے۔ہنری جیمس نے افسانے کو ایک ایسی اکائی قرار دیاہے جس کا ایک حصہ دوسرےکے لیے ایسے ہی اہم ہوتاہے جیسے جسم کا ایک عضو دوسرے کے لیے۔پھر یہ بحث بھی آج تک جاری ہے کہ کہانی پن افسانے کے لیے کس حد تک ضروری ہے یا پھر ضروری ہے بھی کہ نہیں ۔ افسانے میںواضح کہانی اور مربوط واقعات ہوں یا نہ ہوں اورشاید افسانہ اِس حوالے سے بد نصیب صنفٖ ادب ہےجو سو سالہ تاریخ کے باوجود اپنی ہیئت کا تعین نہیں کر سکا۔ڈاکٹر رشید امجد نے خوب کہی:’’افسانے میں چاہے وہ نیا ہویا پرانا،کہانی پن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔اختلاف دراصل کہانی پن کی تعریف کاہے۔ہمارے پرانے افسانہ نگار واقعات کے تسلسل یا اجتماع کو کہانی کہتے ہیں۔ ہم خیال کی اکائی کو، اگر اُس میں ترتیب قائم ہے، کہانی سمجھتے ہیں۔خیال وقوعے ہی سے جنم لیتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وقوعہ ٹھوس سطح پر رہ جاتا ہے، جب کہ خیال اوپر اٹھ کر ارفع شکل اختیار کر لیتا ہے‘‘ ۔ ہمارے عہد کے ایک اہم افسانہ نگار و نقاد کے اِس بیان سے کئی غلط فہمیاں دور ہو جانی چاہییں۔

حضرت علامہ نے فرمایا تھا ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ ۔ یہ ایک لا فانی حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ ہمیشہ رو بہ تغیر رہتا ہے۔یہ الگ بات کہ وقت گزرنے کے ساتھ اِس کی تغیر پذیری، سست روی سے برق رفتار ہو گئی ہے۔معاشرہ اور سماج چوں کہ انسانوں سے مل کر تشکیل پاتاہے اور اِس کے رجحانات کا تعین انسان ہی کرتے ہیں، لہذا جدیدرجحانات یا جدیدیت کے رویے زندگی گریز نہیں ہوتے اور جدید رجحانات انسان اور زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔یہ الگ بات ہےکہ زندگی کے تیز رو ہونے کی وجہ سے آج تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں۔خود انسان اِن برق پا لمحوں کا ساتھ نہیں دے پا رہا جس کے نتیجے میں رومانویت کی نسبت جدیدیت میں یاسیت ہی اُس کے دامن گیر ہوئی ہے۔

جدیدرجحانات اکثر ہیئت سے زیادہ موضوع کو اہمیت دیتے ہیں۔اِن کا نیا پن نئی سوچ اور فکر کے نئے زاویوں میں مضمر ہے۔وہ موضوعاتی حوالے سے ادب کو متاثر کرتے ہیں۔ویسے بھی ہمارے ہاں ادب میں ہیئت کے تجربات قدرے کم ہوئے ہیں اور جو ہوئے ہیں ، اُن میں سے اکثر مغربی ادب کے زیرِ اثر ہوئے ۔البتہ ہمارے ادیب نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پرانی ادبی سوچ کو بہت حد تک رد کیا ہے۔ایسی سوچ ،جس کا تعلق اُس مکتبِ فکر سے تھا جو یہ سمجھتا ہے کہ ادب صرف ذہنی انبساط کا ذریعہ ہے اور اِس کے ذریعے معاشرتی و سماجی تبدیلی کا کوئی مثبت کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔جدید رجحانات کا عمل فطری ہوتا ہے،اِس لیے کہ نظر نہیں نظریے، رویے اور معیارات بدلتے ہیں ۔ ہرجدید عہد میں ادبا کی ایک بڑی اکثریت ہوتی ہے جو طرزِ کہن کو چیلنج ضرور کرتی ہے۔

موجودہ عہد میں ہمارے افسانہ نگار بھی اب صرف واقعات پر انحصار نہیں کرتے بلکہ بہت حد تک اپنے تجربات اور مشاہدات پر اپنے افسانوں کے پلاٹ کی بنیاد رکھتے ہیں۔اِس لیے جو افسانہ تخلیق ہو رہا ہے وہ صرف راوی کا بیانیہ نہیں ہے ، اُس میں تخلیق کے موضوع کی ضرورت کے تحت اسلوبِ بیاں، پلاٹ، مکالمہ نگاری، کردار و سراپا نگاری وغیرہ کا تعین ہوتا ہے۔فی زمانہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ افسانہ نذیر احمدو راشد الخیری کی اصلاح پسندی، سجاد حیدریلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گوکھپوری اور حجاب امتیاز علی کی رومانویت، ’’انگارے‘‘ اور عصمت و منٹو کی جنسی حقیقت نگاری یا پھر انتظار حسین اور انور سجاد کی علامت و تجرید کی پہیلی کے زیرِ اثر ہے۔افسانہ ہر رنگ میں لکھا جا رہا ہے۔اظہار کے انداز مختلف ضرور ہیں، مگر ایک چیزیک ساں ہے، وہ یہ کہ ہمارا ادیب ، ہماری بات کر رہا ہے، خواہ وہ ہمارے اندر کا انتشار ہو یا گرد و پیش میں روز افزوں سر اٹھاتے مسائل اور الجھنیں۔اِس کی پیش کش میں جہاں اُس کے فن کی کرافٹ شامل ہے، وہیںاِس کی بنیاد تخلیق کارکے مشاہدات و تجربات پر ہے ۔آج وہ اظہارِ ذات کے پردے میں بھی اپنے ماحول اور معاشرے ہی کو پیش کررہا ہوتا ہے۔بہ ہر حال افسانے کے ناقدین اِس بات سے بہ خوبی واقف ہیںکہ ہمارے جدیدافسانوی رجحانات میں موضوعات کا تنوّع اہم ترین ہے۔

آج کے افسانہ نگارپرکیچڑ اچھالنے والے حقیقتِ حال سے نا آشنا ہیں۔ہمارا تخلیق کار اب تخلیقی اور غیر مقلّد ہو چکا ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ ہر داستان میں معدی کرب اور لندھور بن سعدان تلاش کیے جائیں۔ہر کہانی میںکوئی عشق ہو اور ہر عشق میں کوئی کہانی ہو۔اِس عہدِ ستم میں محبتیں بھی ضرورت کے تابع ہو گئی ہیں۔اب ہم یلدرم کی خارستان و گلستان اور ، نیاز کی کیوپڈ و سائیکی کی رومانوی حسن کاری سے لذت کے جام نہیں بھر سکتے۔ نئے افسانے کے رجحانات کا اندازہ کرنے کا واحد اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم نئے افسانہ نگاروں کے موضوعات اور اُن موضوعات کی پیش کش کے انداز کا جائزہ لیں۔

مذکورہ بالا ادوار کے بعد بھی ایک طویل فہرست ہے جن کا فسانہ اپنے عہد سے جڑا رہا۔فی زمانہ بھی افسانہ اپنی ڈکشن میں دھنک رنگ سہی ، موضوعاتی اعتبار سے اپنا عہد اُس کے وجود میں سانس لیتا محسوس ہو رہا ہے۔حقیقت نگاری کے بعد ردِ عمل کے طور پر جدیدیت کا جو رجحان 1960میں سامنے آیا تھا، اُس پر عدم ابلاغ کا الزام عاید کر کے اکثر ناقدین، بہ شمول شہزاد منظر ،نے کبھی کوئی کلمۂ خیر ادا نہیں کیا۔اُن کا خیال ہے کہ علامت اور تجرید ایک عہد کی ضرورت تھی اور اُس سے جتنا استفادہ کیاجانا چاہیے تھا وہ ہو چکاہے۔ اِس ڈکشن میں لکھنے والے خال خال ہیں۔ہمارا افسانہ نگار حقیقت کی تلخی کا ذائقہ آشنا ہو چکا ہے ۔اِسے آپ ترقی پسند تحریک کے دور رس اثرات کہہ لیجیے کہ افسانہ رومانویت اور ٹیگوریت کی بے مقصدو معانی اور بے سرو پا حسن کاری کے چنگل سے نکل آیا۔

ناول سے متعلق سلیم احمد نے کہا تھا کہ ناول نگار کو اپنا نقاد خود پیدا کرنا پڑے گا۔تقسیمِ ہند سے 1965کے درمیان ناول کاصرف ایک قابل ذکر تنقید نگارملتا ہے ۔ خوش قسمتی سے افسانے کی تنقید کا معاملہ مختلف ہے۔ اسے ہر عہد میں ناقدین میسر آئے ہیں، لہذا ہمارے ہاں افسانے کا مستقبل بے حد روشن اور امکانات سے بھر پور ہے۔

نذیر،راشداورشررکےناولوںکےتناظرمیںافسانےکے لیے جو راستہ ہم وار ہوا ،اُس کے فکری و اسلوبیاتی مقاصدکچھ اورتھے۔ افسانے کاسفر119سال بنتا ہے ۔ اِس سفر کے تمام نشیب و فراز اور پیچ و خم میں افسانے نے کسی طور وقت کے تقاضوں سے روگردانی نہیں کی ۔ ہماری ملکی تاریخ کی ہر ہر سیاسی، معاشی، سماجی اور معاشرتی کروٹ کو اِس نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ ہر تغیر و تبدّل کے رنگوں سے ایوانِ افسانہ کی تزئین و آرائش کی ہے۔ اگرچہ ایک ہی عہد میں دو مختلف تخلیقی رجحانات بھی دیکھے جا سکتے ہیں،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عہد بہ عہد افسانوں کا انتخاب کیا جائے تو ہم اپنی سیاسی و تہذیبی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔زیادہ تر رجحانات تو تحریک کی صورت اختیار نہیں کر پاتے ۔مذکورہ بالا ادبی رجحانات میںسے اکثر اُس دورکے سیاسی، معاشرتی اور سماجی میلانات کا نتیجہ تھے، جنہوں نے وقتی عروج حاصل کیا اوربعدا زاں زوال پذیر ہوئے ۔ ہمارے آج کے ادیب کا طرزِ احساس بھی ذہنی و فکری انتشار اور اقتصادی و معاشرتی عدم مساوات کے جنم سے تشکیل پا رہا ہے، جس کا اظہار وہ اپنی اپنی ڈکشن میں کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رومانویت،حقیقت نگاری، پھر تجرید و علامت ۔کئی ادبی دانشوروں کا خیال ہے کہ جب حقیقت نگاری عروج پر پہنچ گئی تو اِس میں اظہار کے مزید امکانات محدود ہو گئے، لہذا جدیدیت کے طور پر تجرید و علامت کا آغاز ہوا۔یوں چالیس سال بیت جانےکےباوجود تجریدوعلامت ہی کو جدیدیت خیال کرتے ہیں اور اُن کی نظر میں جدیدیت انتظار حسین اور انور سجادپردم توڑ چکی ہے۔یہ تعریف نظر ثانی کی متقاضی ہے۔انتظار حسین کو تو ما ضیٰ سے خاصا شغف تھا ۔ انہوں نے اساطیر اور داستانوں پر اپنے اسلوب کی بنیاد رکھی تھی۔ البتہ انور سجاد کو چوں کہ انگریزی ادب سے لگاؤ تھا تو تجرید و علامت کے سلسلے میں تحریک کا سبب انگریزی ادب ہی تھا۔ کیا ایسے میں افسانے کے جدید رجحانات بہتر اور نئی لسانی تشکیلات میں کوئی اہم کردار ادا کر رہے ہیں؟دراصل ہر وہ ادیب حقیقت نگارہےجومعروضی انداز سے اپنے گرد و پیش کواپنی تخلیقات میں پیش کررہا ہے۔

آج کےادیب کے مشاہدات، نظر کے زاویوں کی وسعت و گہرائی اپنے پیش روؤں سے کہیںزیادہ ہیں ، لہذاآج کا افسانہ اپنے تازہ تصو را ت ، گو ناگوں مشاہدات و تجربات، تہذیبوں کےملاپ اور انسانی المیوں کے باعث کہیں زیادہ عصری شعور کا حامل ہے۔اِس سے آگے جدیدیت کیا ہو گی؟یوں جدیدیت کو انتظار و سجاد پر ختم کر دینا یا اُن ہی سے منسوب کر دینا مضحکہ خیز ہے۔

اب افسانہ بیانیہ طرز کے اکہرے اظہاریے سے آگے نکل کر حال سے زیادہ ہم آہنگ ہوا ہے اور گردو پیش سے یگانگت محسوس کرتا ہے۔جدیدیت کی طرح حقیقت نگاری کو بھی1955 تک محدود کرنا(علامت اور تجرید سے پہلے کا دور) سراسر خلافِ حقیقت امر ہے کہ ہر عہد میں حقیقت نگاری کے معیارات اور تصورات بدلتے رہے ہیں۔حیران کن طور پر وہ زمانہ بھی تھا جب ما بعد الطبیعیاتی اور ماوائے عقل وشعور باتوں کو بھی حقیقت نگاری سمجھا جاتا تھا۔بعدا زاں عقل و شعور ، مذہب سے دوری اور جنسی رجحانات کے بیان کو حقیقت نگاری سمجھا گیا ۔مختصر یہ کہ حقیقت نگاری کے تصوارت ماحول، حالات و واقعات اور مشاہدات کے تابع ہوتے ہیں۔ہمارے عہد کا نمایاں ترین رجحان یہ ہے کہ افسانہ نگاروں کی بڑی جماعت انسان اور زندگی کو اہم ترین موضوع کے طور پر اپنے اپنے اسلوب میں پیش کر رہی ہے۔