بردکھوا سے آر سی مصحف تک

July 14, 2019

حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
وہ اور ہی زمانہ تھا جب رسماً بھی کوئی رواج نہ پڑا تھا کہ جس سے خدا سنجوگ جوڑے گااس سے کہیں ملاقات ہی کرلیں یا پھر کوئی دوسرا شخص اس ملاقات کا ذریعہ ہی بن جائے کہ جس سے جسکی شادی ہونا ہے اس سے کہیں چوری چھپے تانک جھانک ہی کرلیں۔ اسلام سے ہٹ کر کبھی ہم نے زندگی گزاری تو وہ معاشرے و کلچر کے مطابق ہی گزاری بلکہ مذہب سے زیادہ معاشرتی و سماجی طریقے سے ہی عام لوگ اپنی زندگی گزارتے ہیں جیسا اور جو کچھ معاشرے میں رائج ہے یہ اسی پر چلتے ہیں۔ اب اگرچہ زمانہ وہ نہیںکہ سات پردوں میں بیٹھی عورت کو اسی سات پردوں میںچھپا کے پیا دیس نکال دیا جائے اور دونوں صورتوں میں بلکہ کسی بھی صورت میںخواہ وہ عورت غیروں سے آئی ہو یا پھر کزن سے شادی ہو دونوںصورتوں میں اس نے کبھی اپنے منگیتر کو شادی یا منگنی سے پہلے دیکھا ہو۔ بلکہ بہت سے لوگوں کے رواج کے مطابق تو شادی کے کئی دن بعد دولہا کو دلہن دیکھنے کی اجازت ملتی تھی۔ جنسی رویوں میں تبدیلی آتی رہتی ہے ایک شخص جب مذہب و سماجی پابندیوں سے فرار چاہتا ہے تو ٹک کر بیٹھنا اسکی سرشت میںہی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے ڈھب اور ڈھنگ پر زندگی گزارنے لگتا ہے وہ بھی باغیانہ طریقے سے۔ پھر جہاںانسان کے سکون و آرام، تسکین روح و بدن کی اور لذت نفس کی بابت معاملہ ہو تو وہ سیلفش سا ہوجاتا ہے۔ اپنے جذبات کے اظہار کے راستے دیکھتا ہے اپنے تاثرات اور جذباتی معاملے بیان کرنے کو بے چین رہتا ہےاس کیلئے اسے کسی اجازت کی ضرورت نہیںہوتی۔ تبھی پھر پابندیاںکم ہوئیں تو تانک جھانک کا دور آگیا لوگ آنے جانے تانکا جھانکی میںکسی کو پسند کر بیٹھتے اور پھر اپنی والدہ بہنوں اور بھابیوں کے ذریعے رشتہ بھیجتے یعنی پرپوزل بھیجتے۔ پھر دور اور آگے کو سرکتا ہے۔ میلے جو علاقائی سطح پر منعقدکئے جاتے ہیں وہاں کوئی لڑکی پسند آئی تو اگلے میلے کی بھیڑ میںلڑکا لڑکی کو اپنی آرزو بیان کردیتا ہے کہ مجھے آپ پسند آئی ہیں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ہوتے ہوتے پھر کیمرے کا دور چلا تو لڑکے تٓصاویر بنانے کے بہانے شادی گھر میںجانا شروع پھر وہاںکیمرے کی آنکھ سے دیکھتے دیکھتے لڑکی جو بھی پسند آتی اس پر نظر رکھتے۔ لڑکی کو بھی پتہ لگانے میں دیر نہیں لگتی کہ اس کیمرے والے بائوجی کو ہم پسند آگئے ہیں کیونکہ کیمرہ ہاتھ میںلینے والا کم از کم سوٹ تو صاف ستھرے پہنتا ہے۔ پھر وہ لجائی، اترائی دوستوںکے جھرمٹ میں سے جھانکتی لڑکے کو نظروں سے پیغام بھیجتی یوں پھر بات آگے بڑھتی کہ ولیمے کی دعوت تک کام پکا ہوچکا ہے یعنی کہ گٹھ جوڑ مہندی مایوں سے شروع ہوکر ولیمہ تک انجام پذیر رہتا ہے۔ کبھی ایک زمانے میں مثال قائم ہوئی تھی بر دکھواکی، جس کے دو مطلب نکالے جاتے تھے ایک تو یہ کہ والدین اور دیگر بہنیں بھابیاں بر دیکھ لیتے ہیں پسند آنے پر پھر بر دکھوا کی رسم ہوتی ہے کہ بات پکی ہوگئی یعنی لڑکی ہماری ہوئی۔ اب حالیہ دور جس میں ہم داخل ہوچکے ہیں۔ اس میںوہ مثال فٹ بیٹھتی ہے کہ ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘۔ اب کوئی چاند تارے توڑ کے لانے والی بات نہیںکرتا، عاشقی و معشوقی کا دور بھی نہیںرہا کہ بندہ اس سرور ہی میں آدھی زندگی گزارلے، اب کسی کیلئے دریا میںچھلانگ بھی نہیںلگائی جاتی اب کوئی زہر بھی کسی کیلئے کیوں کھائے، اب ہمارے جیالے پوتوں کو والدین کیطرف سے بر دیکھنے کی محتاجی بھی نہ رہی کہ وہ بے چارے بر دیکھنے سے لیکر آرسی مصحف کی رسم کے درمیان اپنی آرزوئوں کو مچلتے دیکھتے۔ اب تو سیدھی سی بات ہے کہ لڑکے بہت سی لڑکیاں دوست بنا کر ان میں سے من بھاتی کو منتخب کرکے اسے من کی مستیوں کے لوازمات کیساتھ پرپوز کرنے لگے ہیں۔ جس میں رومانوی سامان ہوتا ہے۔ جی ہاں دور اب نیا شروع ہوچکا ہے۔ بر دکھوا و آرسی مصحف سے پہلے آگے تک کی لائف پارٹنر میںخصوصیات دیکھ کر انہیںایک رسم کے مطابق ’’پرپوز‘‘ کرلیا جاتا ہے۔ ہم بات کو صرف لکس ٹائم ایوارڈ تک محدود نہیں رکھنا چاہتے کہ جس کے چرچے ہر جا پہنچ چکے ہیں کہ ایوارڈز کی شام کو رومانوی بنادیا گیا ہے کہ لکس ایوارڈ لینے والوں سے زیادہ لمحات وہ قیمتی تھے جب ایک میزبان اداکار نے ایک ابھرتی ہوئی اداکارہ اقراء عزیز کو شادی کی پیشکش کردی یعنی پرپوز کردیا جو کہ اقراء عزیز نے بخوشی قبول کرلیا۔ اب ہم نے وہ سین تو نہیںدیکھا کہ جس میںیاسر حسین اقراء عزیز کو پرپوز کرتے ہوئے دوزانو ہوکر اسکے سامنے پھول ادب سے پیش کررہے تھے یا پھر ہیرے کی انگوٹھی لے کر آئے تھے یا کوئی محبت کی خوشبو ہی پیش کی ہو۔ بہرحال یوکے یورپ و امریکہ میں بر دکھوا ٹائپ ماحول تو ہے مگر کچھ منفرد سا، وہ ایسے کہ والدین (یہ ایشین والدین) خاص کر ایشین والدین اپنے بچوںکو ان کی حیثیت کے مطابق بر دکھاتے ہیں۔ پھر بچے آپس میںملنا شروع ہوتے ہیں کبھی بات بن جاتی ہے کبھی نہیںبنتی جن کی بن جاتی ہے وہ پھر رومانوی لوازمات لیکر پہنچ جاتے ہیں پرپوز کرنے جیسے انگوٹھی، پھول اور پرفیومز وغیرہ، پھر جس ریسٹورنٹ میںپرپوز کیا جاتا ہے وہاںکا ماحول سرپرائزنگ ہوتا ہے، کسٹمرز سے لیکر ویٹرز اور منیجر تک کو معلوم ہوتا ہے مگر لڑکی کو سرپرائز دیا جاتا ہے پرپوز کرکے۔ سنا ہے لندن کے بہت سے ریسٹورنٹ پرپوزل کے جوڑے کو فری ڈنر بھی کھلا دیتے ہیں۔ پھر لڑکیاںانگوٹھیاں فخر سے دکھاتی ہیںکہ کتنی قیمتی ہیںبلکہ لڑکیاں سونے کے زیورات سے زیادہ ڈائمنڈ کی انگوٹھیاں زیادہ پسند کرتی ہیں اور ان کی قیمت کئی ہزار پائونڈ تک پہنچی ہوتی ہے۔ پرپوز کرنے کے ڈھنگ بہت اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ ہالی ووڈ کے ایکٹرز اس میں بہت آگے ہیں۔ ایک رئیلٹی شو کا بڑا مشہور کردار(Kimkar Dashin)کم کرڈاشین کو جب اس کی منگیتر سنگر کیمی ویسٹ Kany Westنے پرپوز کیا تو پورے سٹیڈیم کو ہائر کیا پھر اسی ہائر شدہ سٹیڈیم میں اسکی پسندیدہ گلوکارہ سے گانے سنوا کر پرپوز کیا۔ بات وہی ہے بردکھوا و آرسی مصحف کی لیکن اب آرسی مصحف پہلے ہوجاتا ہے بُر دیکھنے کیساتھ۔