ایک اور این آر او کی ضرورت کیوں؟

March 19, 2016

جہاز کے دروازے بند ہورہے تھے۔ میرے فون کی گھنٹی بجی، میں ذرا حیران تھا ،مگر فون سننا بھی ضروری تھا۔ میں کچھ دنوں کے قیام کے بعد واپس پاکستان جارہا تھا۔ میرے دوست نے فون پر بتایا’’جنرل مشرف سابق صدر پاکستان کے بارے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کا اختیار حکومت پاکستان کو دے دیا‘‘۔میں ذرا حیران تھا، اتنے میں اعلان ہوا کہ جہاز میں موبائل فون کا استعمال نہ کریں، ہم کچھ ہی دیر میں پرواز کرنے والے ہیں۔ میں نے فون بند کیا اور سوچ میں پڑگیا ۔ جب سے میاں نواز شریف اقتدار میں آئے ہیں ان کو انگنت مسائل کا سامنا ہے۔ سیاست کے بازار میں تجارت خاصی مشکل ہوتی جارہی ہے اور اوپر سے جمہوریت کی رنگ برنگی تصاویر نے سیاست کو تو آسان کردیا ہے مگر عوام کا حال برا ہے۔ اس کے گلے میں جمہوریت کا ڈھول بج تو رہا ہے مگر سر اور سنگیت نہیں ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کے نظام پر سیاستدانوں کا قبضہ ہے اور وہ اپنی من مانی کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ہمارے ساتھ نہیں، بھارت، بنگلہ دیش میں بھی جمہوریت اسی طرح اپنا کردار ادا کررہی ہے اور عوام کی محرومیوں میں مسلسل اضافہ کررہی ہے۔ عوام کی قسمت کا پروگرام تو اسی طرح چلے گا؎
پاکستان میں پی آئی اے ایک قومی ادارہ ہے اس کے پرچم بردار طیارے ساری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں، مگر میاں نواز شریف کی سرکار پی آئی اے سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ ایک طرف تو آئی ایم ایف کے قرضوں کا تقاضا ہے کہ سرکار کاروباری معاملات سے دورر ہے اور اسی وجہ سے پی آئی اے کو فروخت کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ میری مجبوری یہ ہے کہ پی آئی اے میں سفر بالکل اپنے گھر والوں جیسا ہوتا ہے ۔جو کچھ ملک میں ہورہا ہےویسی ہی صورتحال پرواز کے درمیان ہوتی ہے۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان بیٹھا تھا۔وہ اس ائیر لائن سے خاصا مطمئن تھا۔ اس نے ایک فضائی میزبان سے پوچھ ہی لیا۔ میاں صاحب کب تک دوسری ائیر لائن پی آئی اے ٹو کو لارہے ہیں۔ فضائی میزبان ذرا حیران ہوا اور بولا سرجی! ادھرتو صرف ا پنی فکر ہے کہ ہم پاکستان کے لوگوں کی خدمت کرتے رہیں، دیکھیں قسمت کتنے دن موقع دیتی ہے۔
میں نے اپنے ہمسایہ مسافر سے پوچھ ہی لیا کہ وہ کیا کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ رئیل اسٹیٹ کا کام کرتا ہے اور اس کا کام خوب چل رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم پاکستان میں یہ کام کیوں نہیں کرتے۔ پھر تمہارا تجربہ ہم سب کے کام آسکتا ہے۔ وہ مسکرایا تجربہ واہ کیا بات کی ہے۔پاکستان میں تجربہ کار لوگوں کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔ اب آپ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو دیکھ لیں اس کے لئے کوئی قانون اور قاعدہ ہے ہی نہیں۔ رئیل اسٹیٹ پر کوئی ٹیکس نہیں ہے، ٹیکس صرف بیچنے اور خریدنے والے دیتے ہیں، پھر مارکیٹ ایسی ہے کہ صرف وہ لوگ کام کرسکتے ہیں جو قانونی موشگافیوں سے واقف ہیں کسی بھی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے لئے تعلیم کی پابندی نہیں۔ پھر سرکاری مداخلت بہت زیادہ ہے اور اس وجہ سے رشوت کو فروغ مل رہا ہے۔ ایسے میں میرے جیسے لوگوں کا گزارہ ممکن نہیں۔ بلاشبہ رئیل اسٹیٹ میں بہت ہی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور اسی وجہ سے عام آدمی کے لئے گھر بنانا یا خریدنا بالکل آسان نہیں۔ میں پاکستان میں گھر بنانے کا سوچ نہیں سکتا۔ اتنی بڑی رقم یک دم خرچ کرنا زیادتی ہے۔ آپ کے سیاستدان اور حکمران خود اس کام میں شراکت دار ہیں۔ اس لئے رئیل اسٹیٹ کا کام اصولوں اور قواعد کے بغیر بھی خوب چل رہا ہے اور چلے گا اور وہ پھر یک دم خاموش ہوگیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ دکھی پاکستانی ہے جو پاکستان سے باہر رہ کر بھی ہر دم پاکستان کی خیر مانگتے ہیں۔
میں نے فضائی میزبان سے اخبار کا تقاضا کیا تو وہ بولی تازہ اخبار تو نہیں اور پھر یہاں سے اخبار لوڈ ہی نہیں ہوتے۔ کل کا پاکستانی اخبار مل سکتا ہے۔ میں مسکرایا اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بولی آپ پی آئی اے کا پوچھ رہے تھے اب دیکھیں ہمارے پاس جہاز کے اندر مسافروں کی تعداد کے مقابلہ میں کمبل اور تکیے کم ہیں۔ ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے جہاز کے اندر ٹی وی سسٹم دستیاب نہیں۔ میوزک آپ نہیں سن سکتے۔ مسافروں کو بتانا بھی مشکل ہے اور انتظامیہ حکومت کے رویہ سے پریشان ہے۔ ایسے میں صرف باتوں سے تو مسافروں کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ مجھے اس سے ہمددری تھی۔ میں اس کو کس منہ سے تسلی دیتا۔ مجھے معلوم ہے کہ پی آئی اے چند ماہ کی اور مہمان ہے پھر میاں صاحب کی سرکار اور ہمارے وزیر خزانہ ہر صورت دوسری ائیر لائن بنانے کے لئے منصوبہ بندی کرچکے ہیں وہ بھی سرکاری سرپرستی میں، ہمارے ہاں ہر کام سازشی انداز میں ہوتا ہے، پتہ نہیں سیاست اور سازش کا تال میل عوام کو کیوں نہیں نظر آتا۔ عوام کا حافظہ ہی نہیں نظر بھی خراب ہے۔ سو دونوں کا علاج کرانا ان کے بس میں نہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ جنرل مشرف سابق صدر پاکستان کے بارے میں سپریم کورٹ نے ایک مناسب فیصلہ دیا ہے مگر ان پر اصل مقدمہ تو آئین توڑنے کا تھا، ان کے شریک ملزم تو ملک سے باہر یا پھر میاں نواز شریف کی صفوں کے اہم لوگ ہیں۔ ایسے میں عدالت کوئی فیصلہ کیسے کرسکتی ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی معاملات میں عدالت نے سرکار کو اپنا کردار اور فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے اور وہ معاملات اب تک حل طلب ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے پانچ سال جمہوریت کے پودے کو زرخیز بنانے میں صرف کردئیے اور اب یہ کام میاں نواز شریف کو کرنا پڑرہا ہے۔ احتساب کے معاملہ پر سرکار اور حلیفوں کار دعمل ایک جیسا ہے۔ ہماری سرکار تمام عدالتوں کے فیصلوں کے احترام میں سنجیدہ نظر آتی ہے ۔ اعلیٰ عدالتی حلقے اس معاملہ پر مسلسل توجہ دلا رہے ہیں، مگر معاملے درست سمت نہیں جارہے، ابھی جب میں ملک سے باہر تھا تو سابق صدر آصف علی زرداری امریکہ میں تھے اور انہوں نے امریکی دوستوں سے ایک فارمولا پر بات چیت کی ہے جس سے ایک دفعہ پھر پاکستان کے سیاسی لوگوں کو معافی تلافی مل سکتی ہے اور احتساب موخر ہوسکتا ہے۔ مارچ کے آخری دنوں میں میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے امریکہ یاترا پر آنا ہے اور اس وقت امریکی اس معاملہ پر بات کرسکتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے دورہ امریکہ کے بعد اندازہ ہوگا کہ الیکشن قبل از وقت بھی ہوسکتے ہیں۔ امریکی دورے میں ان کی ملاقات بھارت کے اہم لوگوں سے متوقع ہے اور ہمارے ایٹمی اثاثے اور ایٹمی ہتھیار بھی امریکہ کے لئے باعث تشویش ہیں۔ ان پر بھی بات چیت یقینی ہے۔ اس معاملہ پر امریکی اس سال ہی کوئی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ اور برطانیہ پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے رابطہ میں ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کو امریکی دورہ ملتوی کردینا چاہئے کیونکہ خطہ کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ امریکی کردار سے مطمئن ہے اور ان کو یقین ہے کہ ملکی ترقی کے لئے ایک دفعہ پھر این آر او ضروری ہوچکا ہے۔ آصف علی زرداری اس پر کام کرچکے ہیں اور امریکی اور برطانوی دوست ان کو مشاورت دے رہے ہیں اس کے بعد ہی ان کا لہجہ بدلتا نظر آیا ہے۔ اب فیصلہ میاں نواز شریف اور ہمارے دوست چین نے کرنا ہے کہ آئندہ کے لئے این آر او کتنا ضروری ہے اور اب کے چین اس این آر او میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ کہ وہ آئی ایم ایف کے بعد ہماری مدد پر تلا ہے۔