جبری شادی کا شکار برطانوی عورت ہنی مون پر شوہر سےبچ کر بھاگ نکلی

July 17, 2019

لندن (پی اے) جبری شادی کی شکار ایک عورت اپنے شوہر سے بچ نکلی، جبکہ وہ ہنی مون پر تھی۔ برطانوی خاتون نے جس کی پولیس اور بارڈر فورس کے اہلکار شناخت بتانا نہیں چاہتے تنہا واپس ہیتھرو پہنچ کر اہلکاروں کو الرٹ کردیا، یہ واقعہ اس وقت ہوا جب اسکاٹ لینڈ یارڈ نے جبری شادی کے خلاف آگہی میں اضافے کے لئے برطانیہ کے معروف ترین ائر پورٹ پر آپریشن شروع کیا ہے۔ پولیس افسران بارڈر فورس کے ساتھ برطانیہ واپس آنے والی جبری شادی کی شکار خواتین اور اس شعار کے ذمہ دار افراد اور ختنہ، غیرت کے نام پر بدسلوکی اور بریسٹ آئرننگ کے خطرے کی شکار خواتین کی شناخت کریں گے۔ آپریشن جبری شادی کے خلاف ایک ہفتے کے طویل قومی کریک ڈائون کا حصہ ہے جسے آپریشن لائم لائٹ کا نام دیا گیا ہے، جس کا زور ان ملکوں سے آنے اور ان ملکوں کو جانے والی پروازوں پر ہے جہاں یہ شعار عام ہے۔ بارڈر فورس نیشنل لیڈ فار سیف گارڈنگ اینڈ مارڈرن سلیوری امینڈا ریڈ نے بتایا کہ دو ہفتے قبل ہمارے پاس ہیتھرو پر ایک لڑکی کا کیس تھا جس کی جبری شادی ہوئی تھی۔ وہ ہنی مون پر گئی اور پھر ہنی مون سے فرار میں کامیاب ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے شوہر کو جو برطانوی ہے علیحدہ وطن واپسی پر روکا گیا۔ تاہم وہ یہ نہیں کہیں گی کہ آیا اس کے خلاف جرم کی تحقیقات ہو رہی ہے یا نہیں، یہ ایک جاری مقدمہ ہے، ان کے لیے یہ پہلا کیس ہے۔ انہیں ٹھیک ٹھیک یہ یاد نہیں کہ وہ کہاں ہنی مون پر تھی۔ اس نے واپسی پر ڈیکلریشن دیا تھا۔ جبری شادی، ختنہ اور جدید غلامی کی شکار خواتین کا پتہ لگانے کے لئے ایزی جیٹ سمیت ائر لائنوں کے چیک ان اسٹاف اور کیبن کے عملے کی تربیت کی جارہی ہے۔ تاہم پولیس نے زور دیا ہے کہ ائر پورٹ کی مداخلت آخری چارہ کار ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ریپ اینڈ ہارم فل پریکٹسز پارٹنر شپ ٹیم کے انسپکٹر ایلن ڈیوس نے کہا ہے کہ جبری شادی ایسا جرم ہے جس کے تباہ کن اثرات ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ایک خفیہ نقصان دہ شعار رہا ہے، ہمیں اس کو تبدیل کرکے معمول کی بات چیت بنانا ہوگا۔ ویسٹ مڈ لینڈز پولیس کے ڈیٹکٹو سارجنٹ ٹروڈلی گٹنز نے کہا ہے کہ فورسڈ میرج پروٹیکشن آرڈرز حکام کو دستیاب ایک ٹول ہیں۔ عدالتیں ایک ہی گھر میں رہنے والے والدین سمیت اہل خانہ پاسپورٹ کے لئے درخواست دینے یا تقریبات کا انتظام کرنے کو روک سکتی ہیں اور اس کی خلاف ورزی ممکنہ مجرمانہ قانون شکنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ2008ء میں نافذالعمل ہونے کے وقت اور دسمبر2018ء کے درمیان1849ء سول آرڈرز کی منظوری دی گئی۔ جبری شادی وہ ہے جس پر ایک یا دونوں فریقین رضامند نہیں ہوتے، اسے2014ء میں مخصوص جرم بنایا گیا، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا7سال ہے۔ گزشتہ سال ہوم آفس نے جبری شادی کے1764مشتبہ کیسوں میں متاثرین کی مدد کی، جن میں574میں18سال سے کم عمر کے افراد شامل تھے۔ کیسوں کا تعلق74مختلف ملکوں سے تھا، سب سے زیادہ عام پاکستان کا سفر تھا اور اس کے769کیس تھے۔ بنگلہ دیش کے157اور بھارت کے110کیس تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے، کیونکہ جرم کی رپورٹ نہیں کی جاتی۔ شاران پروجیکٹ چیریٹی کے بانی پولی ہارر نے کہا ہے کہ جبری شادی کے متاثرین کی شناخت2تا80سالہ عمر کے درمیان ہوئی۔ این ایس پی سی سی کے ترجمان نے کہا ہے کہ بچوں کی دبائو کے تحت یا جبری طور پر شادی کرنا غیر قانونی ہے اور اس میں جسمانی، جنسی اور جذباتی بدسلوکی ملوث ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات بچے بولنے میں خوف محسوس کرتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کی صورتحال پر کوئی کنٹرول نہیں۔ وہ والدین کو مشکل میں ڈال دیں گے یا ان کے والدین ان سے قطع تعلق کرلیں گے۔ تاہم یہ بہت اہم بات ہے کہ وہ بات کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ چائلڈ لائن سے ہمیشہ بات کرسکتے ہیں۔ وقت کی کوئی قید نہیں، وہاں ہمیشہ ایک کائونسلر ان کی بات سننے اور مدد کے لئے تیار ہے۔