پڑھانے کا لائسنس؟

July 18, 2019

سندھ کے وزیر تعلیم نے صوبائی اسمبلی میں تسلیم کیا ہے کہ سیاسی مداخلت اور سفارش نے سرکاری اسکولوں کا نظام خراب کیا ہے بی ایڈ کی ڈگری فروخت ہو رہی ہے جو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے 50 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ اس خرابی کے پیش نظر صوبے میں نجی و سرکاری درسگاہوں کے اساتذہ کے لئے نیا نظام لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی رو سے تعلیمی قابلیت اور مقررہ ٹیسٹ پاس کرنے والے اساتذہ کو ہی پڑھانے کا لائسنس جاری کیا جائے گا۔ جہاں تک اساتذہ کے تعلیمی معیار اور قابلیت کا تعلق ہے یہ صورتحال محض سندھ تک محدود نہیں ،گزشتہ چند برسوں سے چاروں صوبوں میں چھپے بھوت اسکولوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں جبکہ بیشتر نجی اسکولوں میں مطلوبہ تعلیمی قابلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کم تنخواہوں پر اساتذہ بھرتی کرنے کا رجحان عام ہے اس کے نتیجے میں اساتذہ کی اکثریت محض سطحی علم تک محدود ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے اداروں میں طالب علموں کی اکثریت Conceptual Studies سے نابلد ہے ۔اساتذہ کی تربیت اور وسعت مطالعہ کے لئے بی ایڈ اور ایم ایڈ کا نظام رائج ہے جو اب محض ڈگری کے حصول تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت سندھ نے اس صورتحال کے تناظر میں لائسنسنگ کا نظام لانے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ بعض ممالک میں پہلے ہی متعارف ہے اور یقیناً ان طالب علموں کے لئے نہایت موزوں ہے جو مستقبل میں درس و تدریس کو پیشے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے ہوں لیکن وطن عزیز میں ڈگریوں کی طرح لائسنسوں کے حصول میں بھی شفافیت پیدا کرنا ایک چیلنج سے کم نہیں۔ ان حالات کے تناظر میں اساتذہ کی ٹریننگ اور اسکولوں کے معائنے کا خامیوں سے پاک پرانا نظام بحال ہونا چاہئے۔ ٹیچنگ اسٹاف کے باقاعدگی کے ساتھ اجلاس اور ان میں نصابی اور غیر نصابی اہداف کا تعین ایسے امور ہیں کہ جن کے ماضی میں نہایت کامیاب تجربات ہو چکے ہیں تا ہم سرکاری اور نجی دونوں سطحوں پر اساتذہ کی یکساں اور معقول تنخواہوں کا تعین بھی ہونا چاہئے۔