انقلابی رہنما سی آر اسلم کی یاد میں

July 20, 2019

تحریر: پرویز فتح ۔۔۔ لیڈز
10جولائی برصغیر کے عظیم مارکسی دانشور، انقلابی رہنما اور پاکستان میںترقی پسند تحریک کے بانیوںکے سرخیل سی آر اسلم کی بارہویں برسی تھی جو 10جولائی 2007کو اپنے دوستوں، ساتھیوں اور رفیقوں سے 70سالہ طویل رفاقت نبھا کر رخصت ہوگئے تھے۔ بلاشبہ سی آر اسلم ترقی پسند تحریک کا ایک اہم باب تھے۔ انیسویں صدی میں انگریز سامراج نے اپنی کپڑے کی صنعت کا خام مال پیدا کرنے کے لئے پنجاب میں آبپاشی کے لئے نہروں کا جال بچھایا تو زیر کاشت آنے والے علاقوں میںوسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ انہی نقل مکانی کرنے والوںمیں جالندھر کے محمد اولیاء بھی تھے جو شیخوپورہ کے قریب شاہ کوٹ کے ایک گائوں کوٹ نظام دین میںآباد ہوئے۔ 15 جنوری 1909ء کو یہیں ان کے بیٹے چوہدری رحمت اللہ پیدا ہوئے جو سیاسی حلقوںمیں سی آر اسلم کے نام سے جانے گئے۔ ان کے والد ایک چھوٹے کسان تھے۔ زمین کم تھی اور آمدنی محدود، اس لئے ان کے والد انہیںمیٹرک کے بعد کالج میں داخل نہ کروا سکے۔ لہذا سی آر اسلم نے کھیتی باڑی میںاپنے والد کا ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا اور پرائیوٹ طور پر اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ پہلے انہوںنے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا بعد میں انگریزی کے امتحانات پاس کرکے ایف اے اور بی اے کی اسناد حاصل کیں۔ اس دوران پنجاب میںآبیانے کی شرح میں اضافے پر کسانوں نے بغاوتیں شروع کردیں۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں اور عالمی کسادبازاری سے برطانوی سامراج کی صنعت تباہ ہوچکی تھی اور اس کو تشکیل نو بھی نوآبادیاتی نظام اور محکوم ممالک کی لوٹ مار سے بھی کرنا درکار تھی۔ کسانوں کی تحریکیں زوروں پر تھیں اور بھگت سنگھ کے والد سردار کشن سنگھ بھی اس تحریک کی رہنمائی کرنے والوں میں شامل تھے۔ سی آر اسلم کے والدمحمد اولیاء بھی اس تحریک سے منسلک ہوگئے اور اس طرحسی آر اسلم کو بھی اپنے والد کے ساتھ اس تحریک کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کے مواقع ملتے رہے۔ کسانوں کی اس تحریک کے سی آر اسلم کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کئے اور انہیںمحنت کش اور پسے ہوئے مظلوم و محکوم طبقات کی تحریک اور ترقی پسند نظریات سے گہری دلچسپی ہونے لگی اور وہ محنت کشوں کی جدوجہد کے ہمدرد بن گئے۔ جب ان کے بڑے بھائیوں نے تعلیم مکمل کرلی تو ان کے والد نے سی آر اسلم کو پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور مٰں داخل کروا دیا۔ لاہور میںقیام کے دوران وہ ادبی محفلوں میںشرکت کرنے لگے جس کے باعث حمید نظامی (جو گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل میں بھی ان کے ساتھ تھے)، عبدالستار نیازی اور محمد شفیع (م۔ ش) جیسے رجعت پسندوںسے ان کی دوستی ہوئی اور وہ ایک کمرے میںاکٹھے رہنے لگے۔ یہیں سے ان کے اشتراک باہم سے ہفت روزہ نوائے وقت کا اجراء کیا گیا جو اب روزنامہ ہے۔ یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ نوائے وقت کا ڈیکلریشن ابتداً سی آر اسلم کے نام پر جاری کروایا گیا تھا کیونکہ اس کام کےلئے حمید نظامی کی اہلیت آڑے تھی۔ اس طرحہفت روزہ نوائے وقت کے پہلے پبلشر اور ایڈیٹر سی آر اسلم تھے۔ 1936ء میں انہوںنے لاء کی ڈگری حاصل کی تو تلاش روز گار کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ 1939ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو انہیںاکائونٹنٹ کی آسامی پر تعینات کردیا گیا۔ 1940ء میں انھیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی باقاعدہ رکنیت بھی مل گئی۔ پارٹی رہنما کامریڈ ہزارہ سنگھ کے مشورے پر انہوںنے 1941ء میں ایف سی کالج لاہور میں شعبہ معاشیات میں ایم اے میں داخلہ لیا تاکہ طبقات کے درمیان تفریق طبقاتی لوٹ کھسوٹ، مارکسزم اور جدلیاتی مادیت کو زیادہ واضح اور بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اسی سال انہیںآل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی پنجاب شاخ کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ 1943ء میںانہوںنے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کرلی جو محض پارٹی رہنما دادا فیروز الدین منصور کے اسرار کے باعث ہی مکمل ہوسکا۔ اپنے دیہی پس منظر کے باعث وہ کسانوں میںکام کرکے انہیں ان کے مسائل کے حوالے سے منظم کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی کے اصرار پر انہوںنے مزدوروں میںکام کرنا شروع کردیا۔ لیبریونین میںمختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد 1948ء میں وہ نارتھ ویسٹ ریلوے ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے جس کے صدر مرزا محمد ابراہیم اور نائب صدر نامور شاعر فیض احمد فیض تھے۔ 1948ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کی دوسری کانگریس کے موقع پر سی آر اسلم، مرزا ابراہیم، سوبھوگیانچندانی، جمال الدین بخاری اور پروفیسر ایرک سپرین ریلیگیٹ منتخب ہوئے لیکن مرزا ابراہیم ریلوے کی تاریخی ہڑتال کی کال دینے کے باعث گرفتار کرلئے گئے تھے جبکہ سی آر اسلم ہڑتال منظم کرنے کی مصروفیت کے سبب شرکت نہ کرسکے۔ اس کانفرنس میںفیصلہ کیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میںالگ اور مغربی پاکستان میں الگ پارٹی ونگ قائم کیا جائے۔ سید سجاد ظہیر کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا اور ایک سینٹرل کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں پروفیسر ایرک سپرین، مرزا ابراہیم، سی آر اسلم، سبط حسن، مرزا اشفاق بیگ، محمد حسین عطا، سوبھوگیانچندانی اور جمال الدین بخاری شامل تھے۔ سی آر اسلم پاکستان بننے کے بعد پہلی مرتبہ 1948ء میںگرفتار ہوئے تھے۔ ابتداً انہیں سینٹرل جیل لاہور میں محبوس کیا گیا، بعد ازاں انہیں میانوالی جیل منتقل کردیا گیا۔ 1951ء میںسی آر اسلم نے عام انتخابات میںلائلپور (فیصل آباد) میں چوہدری فتحمحمد اور چوہدری محمد شریف اور لاہور میں مرزا محمد ابراہیم کی انتخابی مہم میں تندہی سے کام کیا۔ اس کے بعد سی آر اسلم کو لاہور، مظہر علی خان اور پروفیسر صفدر میر کو لائلپور میں علیحدہ علیحدہ انتخابی مہم منظم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ کے یہ پہلے انتخابات تھے جن میں انتخابی دھاندلی کی بنیادیں بڑی مہارت کے ساتھ استوار کی گئیں جو اب تک مسلسل ارتقاء پذیر ہیں۔جولائی 1954ء میںکمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ عوامی تنظیموںکو خلاف قانون قرار دے دیا گیا اور اس کی ساری لیڈرشپ کو پس دیوار زنداں بھیج دیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد سی آر اسلم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور جب حسین شہید سہروردی نے نہر سوئز پر حملہ کے موقع پر برطانیہ کی حمایت میںبیان جاری کیا تو اس جماعت میں شامل تمام ترقی پسندوںنے مولانا بھاشانی کی قیادت میںاس طرز عمل اور سامراج نوازی کی پوری قوت کے ساتھ مزاحمت شروع کردی۔ 1957ء میں ملک بھر کے ترقی پسندوںنے جن میں مشرقی پاکستان سے مولانا بھاشانی اور مسیح الرحمان جبکہ مغربی پاکستان سے میرغوث بخش بزنجو، میاں افتخار الدین، سی آر اسلم، میاں محمود علی قصوری، خیربخش مری، خان عبدالغفارخان شامل تھے ملا کر نیشنل عوامی پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ اس جماعت کی تشکیل پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی، صوبائی خودمختاری اور امریکی معاہدات کی مخالفت جیسے اصولوں کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔ لیکن سی آر اسلم اور ان کے ساتھیوں نے جو طبقاتی سیاست پر یقین رکھتے تھے پارٹی تنظیم کے ساتھ ساتھ محنت کشوں، مزدوروں اور کسانوں کو دوبارہ منظم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ دیہاتوں میں جگہ جگہ جاکر کسان کمیٹیاں بنائیں اور صنعتی اداروں میں ٹریڈ یونینوں کو منظم و فعال بنایا۔ 1963ء میں انہوںنے چوہدری فتحمحمد اور سردار شوکت علی کی مدد سے ملتان میںکسان کانفرنس منعقد کرکے پاکستان کسان کمیٹی نئے سرے سے منظم کرنے کا آغاز کیا۔ جس کے باعث ایک طرف تو کسانوں کو بڑے پیمانے پر منظم کرنے میںمدد ملی تو دوسری طرف کسان کانفرنسیں منعقد کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس طرح چنی گوٹھ، ٹانڈہ، لودھراں، سبی، پشاور اور سرائے عالمگیر میں بڑی کسان کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ ادھر انہوںنے مرزا ابراہیم اور کنیز فاطمہ کی مدد سے کراچی، کوئٹہ، گوجرانولہ، لاہور اور پشاور میںلیبر کانفرنسیں منعقد کرکے صنعتی مزدوروں میںپارٹی کے اثرکو بڑھانے کا کام شروع کردیا۔ اس عرصہ میںچین اور سوویت یونین کی پارٹیوں کے اختلافات نے سراٹھایا جس کے باعث دنیا بھر کے ترقی پسند چین نواز اور روس نواز دھڑوں میں منقسم ہوگئے۔ نشینل عوامی پارٹی بھی اس تقسیم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور دو دھڑوں ولی گروپ اور بھاشانی گروپ میں تقسیم ہوگئی۔ سی آر اسلم بھاشانی گروپ مغربی پاکستان کے لیڈر تھے۔23مارچ 1970ء کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میںمنعقد کی جانے والی تاریخی کسان کانفرنس کی تیاری، انتظامات اور انعقاد میںسی آر اسلم نے کسان رہنما اور کانفرنس کے آرگنائزر چوہدری فتح محمد اور دیگر ساتھیوں کی جس طرح مدد اور رہنمائی کی وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ اس کانفرنس میں3لاکھ سے زائد کسانوں، مزدوروں، طلباء، خواتین اور دانشوروں نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کے اثرات اتنے گہرے اور دوررس ثابت ہوئے کہ تمام سیاسی جماعتوں یہاں تک کہ جماعت اسلامی کو بھی اپنے منشور میںزمین کی حد ملکیت کو شامل کرنا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان کے ساتھیوں نے 23مارچ 1971ء کو خانیوال میں کنونشن کرکے پاکستان سوشلسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی تو سی آر اسلم اس کے صدر عابد حسن منٹو اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ سی آر اسلم کو ہر مارشل لاء دور میں جیلوں میں ڈالا گیا جس میں ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء شامل تھے۔ 1999ء میںپاکستان کی تین بڑی ترقی پسند جماعتوں نے باہمی انضمام کرکے نیشنل ورکرز پارٹی کی بنیاد رکھی سی آر اسلام اس کے سرپرست اعلیٰ، عابد حسن منٹو صدر، یوسف مستی خان جنرل سیکرٹری اور طاہرہ مظہر علی خان نائب صدر منتخب ہوئے۔ کارکنوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت ہمیشہ سی آر اسلم کے لئے اولین ترجیح رہی اور اس مقصد کے لئے وہ ساری زندگی شہر بہ شہر اور گائوںگائوںسفر کرتے رہے۔ کارکنوں کی تربیت کے لئے وہ پارٹی لٹریچر اور پارٹی اخبار کی اشاعت پر زور دیا کرتے تھے۔ 1969ء میں انہوں نے ہفت روزہ عوامی جمہوریت کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔ نظریاتی اور سیاسی سوچ و فکر کے اعتبار سے سی آر اسلم کی استقامت کو اگر کوہ گراں قرار دیا جائے تو قطعاً بے جا نہ ہوگا۔ ستر برس پہلے برصغیر کے عوام کے لئے بہتر زندگی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا اور اس کے حصول کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا تھا آخری سانس تک وہ صدق دل سے اس پر عمل پیرا رہے۔ اس طویل جدوجہد اور پرآشوب زندگی میںکبھی ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہ آئی۔ سی آر اسلم ہر اس شخص کو اپنی محبت اور اعتماد کا اہل قرار دیتے جس کی نظریاتی وابستگی یعنی ترقی پسندی پر انہیںیقین ہو۔ یہ ان کی نظریاتی زندگی کا روشن پہلو تھا۔ انہیںاپنے آدرشوں سے اس قدر پیار اور والہانہ عشق تھا کہ جو کوئی اس رشتہ عشق سے وابستہ ہوا گویا وہ ان کی توجہ خاص کا مستحق ٹھہرا۔ سو میں ان فردوں میں سے ایک تھا جنہیں اس آفتاب و ماہتاب کی توجہ اور ضوفشانی حاصل رہی۔سی آر اسلم ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے چمک دھمک سے بھرپور اعلیٰ عہدوں اور وزارتوں کو کبھی قبول نہیں کیا تاہم ان کے پھیلائے ہوئے شعور اور آگہی سے آنے والی نسلوں کی نظریاتی و سیاسی رہنمائی ہوتی رہے گی اور وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔