وزیر اعظم کا دورۂ امریکہ اور درپیش چیلنج

August 02, 2019

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورئہ امریکہ میں مسئلہ کشمیر پر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش خوش آئندا مر ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ یہ امریکی پیشکش بھی ماضی کی طرح محض بیانات کی حد تک ہو گی یا پھر اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلے گا، اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کا دفتر خارجہ اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور دنیا کو باور کرایا جائے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیئے بغیر خطے میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہے۔ امریکہ افغانستان میں شکست کھا چکا ہے وہ افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کر رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کر کے افغانستان سے نکلنے کے راستے ڈھونڈ رہا ہے تو دوسری طرف دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وزیراعظم کو اپنے دورئہ امریکہ کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔ ماضی میں پاکستان نے امریکی اشاروں پر بہت کچھ کیا ہے۔ 17برسوں تک جاری رہنے والی امریکی جنگ میں پاکستان کے 70ہزار بے گناہ افراد شہید اور 150ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ افغانستان میں عدم استحکام کی پاکستان نے بھاری قیمت چکائی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکی غلامی سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ امریکہ سمیت تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کیے جائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب امداد کے لئے کشکول اٹھانے کا سلسلہ بند ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کیپٹل ایرینا میں اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کے دوران ڈی چوک والا طرزِ عمل کسی بھی طور پر درست نہیں تھا۔ پاکستان کی عزت و وقار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا، جس سے پوری قوم کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔ پاکستانی قوم اور کشمیری عوام مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مناسب پیش رفت کے منتظر ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بھارت مذاکرات کی ٹیبل پر آیا اس نے ان کوششوں کو سبوتاژ کیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا۔ پاک امریکہ تعلقات کیا رنگ لاتے ہیں؟ اور مسئلہ کشمیر جلد حل ہونے میں امریکہ کیا کردار ادا کرتا ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو ملک کو درپیش دیگر ایشوز پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ دینی مدارس کے خلاف حکومتی اقدامات کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔ پاکستانی عوام حکومت کی جانب سے رجسٹریشن کی آڑ میں مدارس کے خلاف ہونے والی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ حکمران امریکہ سمیت اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کی غرض سے اس قسم کے اقدامات کر رہے ہیں، جن کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پوری قوم مدارس کا ہر صورت دفاع کرے گی۔ ایسی تبدیلی سرکار ملک و قوم کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ ملک میں موجود 30ہزار مدارس اسلام کا قلعہ ہیں، ان پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ 35لاکھ طلبہ اور طالبات ان مدارس میں زیر تعلیم ہیں، حکومت ان کے مستقبل سے کھیلنا بند کرے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام مدارس ملکی آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے اپنا کام کر رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ملک وقوم کی خدمت کی ہے۔ اگرحکومت اور اداروں کو کسی کے خلاف کوئی شک و شہبات ہیں تو ثبوت سامنے لائے جائیں۔ پاکستان میں متعدد بار مدارس کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں بن چکی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر وہ امریکہ کو خوش کرنے کی غرض سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے ملک کے اندر انتشار اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ ایسی صورتحال سے ملکی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں کے باعث آج پاکستان کی بیشتر آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمے کے لئے حکومت نے بڑے بڑے دعوے کیے مگر افسوس ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔ غریب اور مزدور طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور غیر یقینی مستقبل کی وجہ سے معاشرے میں خود کشیوں کے رجحان میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ نوجوانوں کے پاس ڈگریاں تو موجود ہیں لیکن ان کے لئے حکومت کے پاس روزگار نہیں ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے سب دعوے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں اور اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا۔ قومی اداروں کو کرپشن اور بدانتظامی نے تباہ و برباد ہے۔ نجکاری کے نام پر قومی اداروں کی بندر بانٹ اور لوگوں کو بے روزگار کیا جانا افسوسناک ہے۔ عوام ملک میں ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں یتیموں، بیواؤں، ضرورت مندوں اور بے سہارا لوگوں کی کفالت حکومت خود کرے۔ عوام کے لئے تعلیم کا حصول آسان ہو اور مظلوموں کو انصاف ان کی دہلیز پر ملے۔ معیشت اور بینکاری کا نظام سود سے پاک ہو۔ خدمت خلق کرنا اور ملک کو حقیقی معنوں میں مدینہ منورہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بنانا قومی مطالبہ ہے۔ بدقسمتی سے کبھی آمریت نے اس ملک کو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تو کبھی برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں نے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں۔ ملک وقوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کاسلسلہ بند ہونا چاہئے اور لوٹ مار کرنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ پاکستان مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ ملک کی صرف 5فیصد اشرافیہ وسائل پر قابض ہے اور باقی 95فیصد عوام کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومتی وزراء عوام کو جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر کبھی خود مختار معاشی پالیسی نہیں بن سکتی۔ ملک میں مسائل کے انبار لگے ہیں جبکہ حکمران مسائل کے حل پر توجہ دینے کے بجائے ڈنگ ٹپاؤ اور دکھاوے کے اقدامات کررہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)