عمر گزشتہ کے ماہ و سال

February 07, 2013

میری زندگی کے شب و روز میں بہت نشیب و فراز آئے ہیں اور میں نے یہ اونچ نیچ المعروف نشیب و فراز دونوں کا لطف اٹھایا، ہم میاں بیوی دونوں کالج میں لیکچرار تھے، میری اضافی آمدنی ٹی وی ڈراموں، شاعروں کے ”اعزازیوں“ اور کالموں کے اعزازی نما معاونوں کی مرہون منت تھی۔ ایک موٹر سائیکل ہوتا تھا، میڈ ان جاپان یاماہا، جس پر ہم پانچ افراد خانہ میں، اہلیہ اور تین بیٹے سوار ہوتے اور سیریں کرتے ہوتے! ہم چھٹی کے روز علامہ اقبال ٹاؤن کے گلشن اقبال میں جا کر پکنک مناتے، کبھی چڑیا گھر چلے جاتے، گرمیوں کی چھٹیوں میں ریل کار کے ایئرکنڈیشنڈ پارلر میں راولپنڈی جاتے اور اپنی خالہ رفیق باجی کے ہاں مہمان ٹھہرتے… اور ہاں جس یاماہا موٹر سائیکل کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ مختلف ہاتھوں میں بکتا بکاتا آج کل ایک شِیر فروش کے پاس ہے جو اس کے دونوں طرف ”ولٹوئے“ لٹکائے گھروں میں دودھ سپلائی کرتا ہے، موٹر سائیکل سے پہلے جب میں ”چھڑا چھانٹ“ تھا، میرے پاس لمبریٹا اسکوٹر ہوتا تھا جسے قومی سطح پہ شہرت حاصل ہوئی، اس کے گم ہونے پر میں نے کالم ”محترم چور صاحب“ کے زیر عنوان لکھا، تو میرے اس کالم پر احمد ندیم قاسمی، ابن انشاء، انتظار حسین، منو بھائی اور دوسرے بہت سے کالم نگاروں کے علاوہ پی پی پی کے ترجمان اخبار ”مساوات“ کے سہیل ظفر (مرحوم) نے بھی کالم باندھا اور یوں اس کی شہرت چار وانگ عالم تک پھیل گئی، جس پر چور گھبرا گیا اور اسکوٹر واپس کر گیا، میں نے اسکوٹر کی واپسی پر ”محترم چور صاحب کا شکریہ“ کے عنوان سے کالم لکھا اور ان تمام کالم نگاروں کا حوالہ دے کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ چور کس کالم سے متاثر ہو کر اسکوٹر واپس کر گیا اور نتیجہ میں نے یہ نکالا کہ اس نے پیپلز پارٹی کے روزنامہ ”مساوات“ میں سہیل ظفر کا کالم پڑھا اور اسے پارٹی کا حکم سمجھ کر اسکوٹر واپس چھوڑ گیا۔ یہ اچھا دور تھا، سہیل ظفر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بے تحاشا ہنستے ہوئے میرے اس جملے کی داد دی! اور ہاں، اس ماہ جب میں اپنے کالموں کا بل وصول کرنے دفتر گیا تو اکاؤنٹینٹ حاکم علی (مرحوم) نے فٹے سے میرے دونوں کالم ماپے اور کہا یہ اشتہار کے زمرے میں آتے ہیں لہٰذا یہ رقم آپ کے معاوضے میں سے کاٹ لی جائے گی۔ وہ ان لمحوں میں یقینا خوشگوار موڈ میں تھے کیونکہ میرے ”معاوضے“ میں سے یہ رقم اگر وضع کی جاتی تو اس ”اگرائی“ میں کئی سال لگ جاتے۔
ان دنوں علامہ اقبال ٹاؤن کے 452 جہاں زیب بلاک میں میرا ڈیرہ تھا۔ میں نے یہ گھر 9مرلے 63 فٹ کے پلاٹ پر تعمیر کیا تھا جو 1980ء کی دہائی میں رائٹرز ہاؤسنگ سوسائٹی کی طرف سے سترہ ہزار روپے میں مجھے ملا تھا اور یہ سترہ ہزار روپے بھی تین قسطوں میں ادا کرنے تھے۔ ایک لاکھ روپیہ میں نے ہاؤس بلڈنگ فنانس سے قرض لیا، کچھ پیسے پلے سے ڈالے اور یہ گھر ایک لاکھ چالیس ہزار میں تعمیر ہو گیا۔ قرض کی قسطیں 16 سال تک ادا کیں، میں نے اور میری فیملی نے اپنی زندگی کے بہترین اور خوش و خرم سال اس گھر میں گزارے، آج میں اس سے کہیں بڑے گھر میں رہتا ہوں لیکن مجھے یہ گھر بہت یاد آتا ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ، رائٹرز گلڈ کے ذیلی ادارے یعنی رائٹرز ہاؤسنگ سوسائٹی کے آفس سیکرٹری حبیب کیفوی تھے، ممتاز دانشور اور میرے دیرینہ دوست فخر زمان کے خسر، نہایت شریف انسان اور پرانی روایات کے حامل بزرگ! یہ مکان بنانے سے پہلے کی بات ہے، میں ایک دفعہ ان کے پاس گیا اور کہا ”سوسائٹی کی رکنیت کے لئے میں نے جو دو سو روپے جمع کرائے تھے! براہ کرم میری رکنیت منسوخ کرکے یہ رقم مجھے واپس کر دیں مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔“ حبیب صاحب نے اپنے سامنے دھرے حقے کا ایک لمبا کش لیا اور کہا ”اگر اتنی ہی ضرورت ہے تو کسی دوست سے ادھار لے کر کام چلا لو“ میں نے عرض کی ”میرا کوئی دوست اتنا مالدار نہیں کہ دو سو روپے کی خطیر رقم مجھ ادھار دے سکے“ اس پر انہوں نے حقے کا ایک اور کش لیا اور کہا ”اگر تم نے یہ پیسے واپس لے لئے تو تم اور تمہارے بچے کبھی اپنی چھت تلے نہیں رہ سکیں گے … یہاں سے بھاگ جاؤ اور آئندہ اس کام کے لئے کبھی میرے پاس نہ آنا“ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو ہمیشہ نور سے بھری رکھے۔ وہ سچ کہہ رہے تھے۔
میں نے ماڈل ٹاؤن لاہور اور ونڈسر پارک اچھرہ میں زندگی کے بے شمار ماہ و سال کرائے کے گھروں میں گزارے چنانچہ اقبال ٹاؤن میں اپنا گھر میرے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھا۔ اس گھر میں کیسی کیسی محفلیں منعقد ہوئیں اور اس میں ادب، صحافت اور سیاست کے کن مشاہیر نے شرکت کی ان کا احوال پھر کبھی سہی، فی الحال اپنی زندگی کا ایک رخ آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو میں نے غالباً آج تک آپ سے نہیں کیا، میں ساری عمر خدا کی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کا بھی شکر گزار رہا ہوں، چنانچہ جب میرے پاس موٹر سائیکل تھا تو اس پر سواری کے دوران اس کی کوئی نعمت یاد آ جاتی تھی، تو میں موٹر سائیکل ایک جانب کھڑی کرکے اس کے اسٹیئرنگ پر سجدہ ریز ہو جاتا تھا، آج میرے پاس گاڑی ہے اور میرا یہ معمول آج بھی یہی ہے، میں گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کے ایک گھونٹ اور سردیوں میں نرم لحاف کے میسر آنے پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ باری تعالیٰ میرے ہم وطنوں کی بھی وہ ساری ضرورتیں پوری کر، جن سے وہ محروم ہیں! میں ایک دنیادار آدمی ہوں! لیکن میرے دل کے کسی گوشے میں ایک فقیر بیٹھا ہوا ہے جو میری تمام تر کوشش کے باوجود کہیں نہ کہیں سے میرے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ میں کبھی کبھار بابا شاہ جمال کے دربار پر حاضری دیتا ہوں اور وہاں سرور و مستی کے عالم میں پڑنے والی میلہ دھمال کا نظارہ کرتے ہوئے خود کو بہت مشکل سے اس منظر کا حصہ بننے سے روکتا ہوں۔ سوائے ایک موقع کے، میرے ایک دوست مظفر بخاری (مرحوم) کے گھر ڈیوس روڈ پر ڈنر تھا، وہاں رات کے دو بج گئے، میں موٹر سائیکل پر واپس اپنے اچھے والے گھر کی طرف جا رہا تھا، پلازہ سینما کے پاس شاہ عنایت قادری کے دربار کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا تین ملنگ درویشی لباس میں ڈھول کی لَے پر رقص کر رہے تھے، اس وقت سڑکیں ویران پڑی تھیں، دور دور تک آدم نہ آدم زاد، بس تین درویش اور ان کا مستانہ وار رقص! میں موٹر سائیکل سے اتر کر ان کے قریب جا کھڑا ہوا مگر وہ مجھ سے بے خبر اپنے ”یار“ کو منانے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ منظر آہستہ آہستہ مجھ میں سرایت کرتا چلا جا رہا تھا اور پھر میں بھی بے خبر رہا جب درویشی لباس میں ملبوس ان تین درویشوں کے ساتھ سوٹ میں ملبوس ایک دنیادار شخص بھی شامل ہو گیا اور اس وقت تک رقص کرتا رہا جب تک صبح کی سپیدی رونما نہ ہوئی اور سڑکوں پہ لوگوں کی آمد و رفت شروع نہیں ہو گئی… تب اس دنیادار شخص نے اپنے موٹر سائیکل کو کک ماری اور دوبارہ مکروہات سے لتھڑی ہوئی زندگی میں واپس آ گیا۔