اگلے 4 برس میں 57 ارب روپے زرعی شعبے پر خرچ کریں گے

August 18, 2019

عکّاسی: فیاض عزیز

جنگ پینل: سلطان صدیقی،گلزار محمد خان(پشاور)

صوبائی وزیرِ زراعت، لائیو اسٹاک اورماہی پروری (فِش فارمنگ)،خیبر پختون خوا،محبّ اللہ خان1968ء میں سابق ریاست، سوات کی تحصیل ،مَٹّہ کے گائوں’’ شہ ور‘‘ میں پیدا ہوئے۔ان کا گھرانہ ریاست سوات کے حکمران، میاں گل خاندان کے ساتھ ریاستی وانتظامی امور سے وابستہ رہا۔ یوںاُس زمانے ہی سے اُن کے خاندان کا شمار سیاسی خانوادوں میں ہوتا ہے۔ محب اللہ نے ابتدائی تعلیم شہ ور (موجودہ پایو چار یونین کاؤنسل ) سے حاصل کی، میٹرک کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج ،مَٹّہ سے گریجویشن کیا۔ کالج کےدنوں میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن(پی ایس ایف) سے وابستہ رہے اور اسی پلیٹ فارم سے مَٹّہ کالج میں طلبا یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ یہ وہ دَور تھا جب محترمہ بینظیر بھٹو پارٹی قیادت سنبھالنے وطن واپس لوٹی تھیں اور پورے مُلک میں پیپلز پارٹی کا شور برپا تھا،مگر محب اللہ خان کی فیملی اُس وقت مسلم لیگ سے وابستہ تھی۔گرچہ اُن کے والد محمّدخان ڈسٹرکٹ کاؤنسل ،سوات کےرکن، جب کہ چچا زاد ڈسٹرکٹ زکوٰۃ کا ؤنسل کے چیئرمین رہے ،لیکن محبّ اللہ کوتعلیم سے فراغت کے بعد خاندانی دبائو کے نتیجے میں پی پی پی سے منسلک ہونے کی بہ جائے مسلم لیگ سے وابستہ ہونا پڑا۔تاہم، سال 2000ء میں انہوں نےخاندان سے سیاسی طور پر بغاوت کرتے ہوئے ،عمران خان کی ’’پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ سے وابستگی اختیار کرلی اور2011ء کے انٹرا پارٹی الیکشن میں تحریک ِانصاف ،ڈسٹرکٹ سوات کے سینئر نائب صد ر منتخب ہوگئے۔ سال 2013ء کے عام انتخابات میں انہیں پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا موقع ملااور کام یابی بھی حاصل کی ۔2014میں وزیرِاعلیٰ کے پی کے،پرویز خٹک کی کابینہ میں محکمہ لائیوا سٹاک اور فشریز کے قلم دان کے ساتھ معاونِ خصوصی مقرر ہوئے۔2018ء کے عام انتخابات میں انہوں نے دوبارہ کام یابی حاصل کی اور اب لائیو اسٹاک ، فشریز کے محکموں سمیت محکمۂ زراعت کے بھی صوبائی وزیر ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نےروزنامہ جنگ، پشاورکے دفترکا دَورہ کیا ، اس موقعے پر اُن سے ہونے والی بات چیت نذرِ قارئین ہے۔

جنگ پینل سے بات چیت کرتے ہوئے

س:زراعت کی بہتری کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟

ج: حکومت میں آنے کے فوراً بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے ایک سو دنوں میں پانچ برس کی منصوبہ بندی کا ٹاسک ملا،شعبۂ زراعت وفاقی حکومت اور وزیرِاعظم کی ترجیحات میں بطورِ خاص شامل ہے کہ مُلک کی 80،85فی صد آبادی کا انحصار اسی شعبے پر ہے، چناں چہ اس حوالے سے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اورگلگت بلتستان سمیت پورے مُلک کی مشترکہ میٹنگز ہوئیں۔1947ء سے لے کر اب تک کا تمام ریکارڈ نکالا گیا ،تو پتا چلا کہ اتنے برسوں میں یہ ایک اِن ڈور محکمہ ہی رہا ہے۔ زرعی مُلک ہونے کے باوجود پاکستان میں زراعت کا شعبہ کبھی ترجیحات میں شامل رہااور نہ ہی ضروریات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی گئی۔اس شعبے میں اگرکسی دَور میں ترقّی ہوئی، تو وہ سابق صدر جنرل ایّوب خان کا دَور ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعدیہ شعبہ توجّہ اور حکومتی سرپرستی سے محروم رہا، حالاں کہ زراعت کی ترقّی کے ساتھ لائیو اسٹاک میں بھی اضافہ ہوتا ہے، پولٹری بھی بڑھتی ہےاور ڈیری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ماضی میں تو یہی رواج تھا کہ لوگ اپنے گھروں سے گندم، جوار اور چاول اٹھا کر بازار لے جاتے اور بدلے میں کپڑا لتّا اور دیگر اشیائے ضروریہ گھر لے آتے۔یہی ’’کیش منی ‘‘ہوا کرتی تھی، اس وقت حکومت نے قومی زرعی ایمرجینسی کے تحت309ارب روپےخرچ کرنے کا پلان بنایا ہے، جس میں سے ہمیں اپنا شیئر ملے گا۔ پھر پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام(پی ایس ڈی پی) میں بھی ہمارا حصّہ بڑھا ہےاور ورلڈ بینک کے تعاون سے منصوبوں میں11.7بلین تک کااضافہ ہوا ہے۔ ہم نے جو پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا ہے، اس کے تحت اگلے چار سالوں میں ہم 44ارب روپے زرعی شعبے کی ترقی پر خرچ کریں گے ، ورلڈ بینک کی فنڈنگ بھی شامل کریں، تو یہ 57ارب روپےبن جاتے ہیں۔1947ء سے اب تک 72 برسوں میں زرعی شعبے کی ترقی پر صرف 44ارب روپے خرچ ہوئے ہیں،جب کہ ہم اگلے چار برس کے دوران57ارب روپےخرچ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

س: اگلے چار برس کے کچھ بڑے منصوبوں سے متعلق ہمیں بھی بتائیں؟

ج:گزشتہ 72 برسوں کے دوران تمام زیرِ کاشت صوبے کے76ہزار واٹر کورسزمیں سے صرف 26ہزار کو پختہ کیا گیا ، یعنی پچاس ہزار پرا بھی کام ہونا باقی ہے۔جب کہ پانی کا زیاں روکنے، رقبے تک یکساں ضرورت کے مطابق پانی پہنچانے کے لیے انہیں پختہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ہم نے جو منصوبہ بندی کی ہے، اس کے تحت پانچ برسوں کے دوران 25ہزار واٹر کورسز کو پختہ کیا جائے گا ۔ اگر اللہ نے چاہا اور مُلک کے عوام نے دوبارہ حکومت کا موقع دیا، تو باقی 25000 کو اگلے پانچ برسوں میں پختہ کریں گے۔ جنگلات کی کمی، بارشوں اور برف باری کی کمی ، ساتھ ہی زیرِ زمین پانی کی سطح کی کمی کی جو صُورت سامنے آ رہی ہے، اس کے تدارک کے لیے واٹر کورسز کی پختگی، واٹر ٹینکس کی تعمیر اورچھوٹے ڈیمز کی تعمیر وقت کا تقاضا ہے، چناں چہ مرکزی اور صوبائی سطح پر جو منصوبہ بندی کی گئی ہے، اس کے تحت نیشنل پروگرام فار امپروومنٹ آف واٹر کورسز اِن پاکستان، فیزIIکے تحت 30ہزار آبی کھالوں کی تعمیر و پختگی، پانی ذخیرہ کرنے کے پانچ ہزارٹینکس کی تعمیر اور9سو یونٹس اراضی کی لیز کے ذریعے ہم واری، خیبر پختون خوا کے بارانی علاقوں میں پانی کے تحفّظ کے منصوبے کے تحت پانچ ہزار تالابوں کی تعمیر، آٹھ سو موجودہ ٹیوب ویلز پر شمسی نظام کی تنصیب، تین ہزار چیک ڈیمز(چھوٹے یا عارضی)کی تعمیر،330چھوٹے ڈیمز کی تعمیر،3سو ٹیوب ویلز کی تنصیب، 2050 حفاظتی پُشتوں کی تعمیر، جنوبی اضلاع میں ایک ہزار رود کوہی کی تعمیر، بارانی علاقوں میں کمانڈ ایریا ڈیویلپمنٹ آف اسمال اینڈ مِنی ڈیمزکی بنیاد ، زرعی آلات کی رعایتی قیمتوں پر فراہمی، موسمی اثرات کے مطابق گندم کی مخصوص اقسام پر تحقیقی پروگرامز متعارف کروانا اور 200ایکڑ اراضی پر جدید ٹیکنالوجی کے نمائشی پلاٹس لگاناشامل ہیں۔ اس کے علاوہ ،خیبر پختون خوا میں چاولوںکی پیداوار میں اضافے کے منصوبے کے تحت کاشت کاروں کوچاول کی مخصوص اقسام کی فراہمی،336ٹن مخصوص قسم کے چاول کی تخم ریزی، پچاس فی صدرعایتی نرخوں پر زمین داروں کو فراہمی ،چاول کے کاشت کاروں کو 709بوری فاسفورس اور پوٹاشیم کھاد کی فراہمی ، کاشت کاروں کو پچاس فی صد رعایتی نرخ پر زرعی مشینری کی فراہمی، ضرورت کے وقت کاشت کاروں کو 47مختلف اقسام کی مشینری کی فراہمی، چاول کے240ایکڑ نمائشی پلاٹ کاشت کرنا،14ہزار456ایکڑ اراضی پر کیمیائی کنٹرول، چاول کے حوالے سے نمائشوں کا انعقاد اور موسمی حالات کے مطابق مخصوص اقسام کی سفارشات متعارف کروانا، قومی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافے کے منصوبے کے تحت 50 فی صد رعایتی نرخوں پر13اقسام کی زرعی مشینری کی فراہمی، 75,500ایکڑ اراضی کو خوردنی تیل کے فصلات کےذریعے زیرِ کاشت لانا ، کاشت کاروں کو فی ایکڑ 5000 روپے سبسڈی دینا، انہیں خوردنی تیل کی فصلات کی کاشت کی طرف راغب کرنے کےلیے 70زرعی میلوں کا انعقاد، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے زمین داروں میں خوردنی تیل کی پیداوار کے لیے آگاہی مہم چلانا،60,000 ایکڑ اراضی پر نمائشی پلاٹ لگانا ، خیبر پختون خوا میں گنّے کی پیداوار میں اضافے کے منصوبے کے تحت900میلوں کا انعقاد، 25زمین دار اسکولز کا قیام،50 فی صد رعایتی نرخوں پر گنّے کے کاشت کاروں کو 3,920بوری پوٹاشیم اور فاسفورس کھاد کی فراہمی، گنّے کے کاشت کاروں میں مشینری کی تقسیم ،ایک ہزار زمین داروں کی تربیت اور بَچھڑوں کی پرورش سے متعلق آگاہی مہم میں ساٹھ فیلڈ ڈیز (field days) کا انعقاد، صوبے میں مویشیوں کو فربہ کرنے کے لیے 4000 مویشی فارمز کا قیام ( جن میں بارہ ہزار مویشیوں کو رکھنے کی گنجائش ہو گی)،1200مویشی پال حضرات کی تربیت، 150,000 مویشیوں کی ویکسی نیشن اور مویشی پال حضرات کو فی مویشی 4000 روپے سبسڈی کی فراہمی ،کولڈ واٹر فشریز کی ترقّی کے منصوبے کے تحت ٹرائوٹ مچھلی (دریائی مچھلی)کی ایک ہیچری (hatchery) کا قیام، موجودہ ٹرائوٹ ہیچریز کی مرمّت، سرد پانی کی مچھلیوں کے کاروبار کو فروغ دینے کی تربیت اور تحقیقی مرکز کا قیام، نجی سطح پر ٹرائوٹ مچھلی پالنے کے لیے 27لاکھ فش شیڈز کی فراہمی، ساتھ ہی ان فارمز کے لیے 287سائن بورڈز کی تنصیب، ماہی گیروں کو ضروری اشیا کی فراہمی کے علاوہ 175 ماہی گیروں کی تربیت کرنا بھی اس منصوبے میں شامل ہے۔ نیز، ہمارے منصوبے میں ہم نے منصوبہ بنایا ہے کہ مچھلیوں کی اچھی نسل کے انڈے درآمد کر کے ماہی پالوں میں تقسیم کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کو فیڈمیل، مچھلیوں کی پراسیسنگ کی مشنری، کولڈ اسٹوریج اور مچھلیوں کی نمائش کی پچاس الماریاں خریدنے کے لیے بلا سود قرضے بھی دیں گے۔

س: صوبے کی لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی کو زیرِ کاشت لانے کے لیے کیا اقدامات کیےجارہے ہیں؟

ج: اس وقت صوبے کی دو کروڑ چھےلاکھ ایکڑ اراضی میں سے صرف 45 لاکھ ایکڑ اراضی قابلِ کاشت ہے، جس میں23لاکھ بارانی اور 22لاکھ نہروں، ٹیوب ویلز،یعنی آبی کاشت کے تحت ہے۔ گومل زام ڈیم کا ایک فیز مکمل ہو چکا ہے، دسمبر تک دوسرا کینال بھی تیار ہو جائے گا،35سے 40کلو میٹر طویل ان کینالز کے ذریعے اس سال دو لاکھ ایکڑ اراضی زیرِ کاشت آ جائے گی، پھر لینڈ لیولنگ کے لیے پہلے سے موجود بُلڈوزرزکی مرمّت بھی کی جائے گی، سابق وزیراعلیٰ کے پی کے،پرویز خٹک کےدَور میں27نئے بُلڈوزر خریدے گئے تھےاور اب مزید بیس بُلڈوزر خریدے جائیں گے۔اس مقصد کے لیے چین سمیت دیگر ممالک سے زرعی مشینری کی خریداری پر بات چیت ہو رہی ہے، جب کہ نجی شعبے سے زرعی مشینری کی خریداری کے لیے وفاق کو بیس درخواستیں بھی دی گئی ہیں۔

س: زرعی زمینیں ہائوسنگ سوسائٹیز میں تبدیل ہو رہی ہیں، آبادی بڑھ رہی ہے اور زرعی اراضی ختم ہو رہی ہے، کیا اس جانب بھی حکومت کی کچھ توجّہ ہے؟

ج: پنج سالہ منصوبہ بندی کے دَوران یہ بات بھی زیرِ بحث آئی ، وزیرِاعظم کا وژن ہے کہ رہائشی آبادی کے لیے عمودی طرز پر توجّہ دی جائے اور زرعی اراضی کو زیادہ سے زیادہ بچایا جائے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی جارہی ہے، تاکہ کوئی اپنی مَن مانی نہ کر سکے، ساتھ ہی لوگوں کا مائنڈ سیٹ بھی ورٹیکل کی طرف تبدیل کرنا ہوگا ۔

س : بارانی علاقوں کے لیے چھوٹے اور بارانی ڈیمز کی اشد ضرورت ہے، اس حوالے سے کیا کررہے ہیں ؟

ج: ہم نے 13 ارب روپے بارانی علاقوں میں خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ، جس میں سوائیل کنزرویشن (soil conservation)ہوگا ،8 ہزار چیک ڈیمز بنیں گےپھر چھوٹے اور بارانی ڈیمز بنائیں گے ۔ ساتھ ہی پہاڑی علاقوں میں بارشوں اور سیلابوں سے ہونے والے زمینی کٹائو کو روکنے کے لیے پشتہ جات کی تعمیرہوگی اورا سٹریم بینک یوٹیلائزیشن کریں گے، چشموں کے پانی کو زرعی استعمال میں لانے کے لیے واٹر ٹینک اور تالاب بنائیں جائیںگے، واٹر مینجمینٹ کریں گے، شجرکاری کا نیا منصوبہ بھی اسی مقصد کے لیے ہے کہ بارشیں زیادہ ہوں ، زمین کا کٹائو نہ ہو ،ماحول میں بہتری آئےاور مُلک سرسبز و شاداب ہو ۔ہمارا تو ماننا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیےاگرابھی سے ’’بلین ٹِری سونامی ‘‘اوراس جیسے دیگر اقدامات نہ کیے گئے، تو 2040 ءتک مالاکنڈ اور ہزارہ کے علاقےملتان جیسے بے آب و گیاہ ہو جائیں گے۔

س: کیاجنوبی اضلاع بالخصوص ڈی آئی خان کی بنجر زمینوں کو زیر ِ کاشت لاکر صوبے کو گندم کی پیداوار میں خود کفیل نہیں کیا جا سکتا ؟

ج: یقینا ًایسا ہو سکتا ہے ،مگر ہمیں اس حقیقت کو بھی مدّ ِنظر رکھنا ہوگا کہ اس قت ڈی آئی خان میں چھے شوگر ملز ہیں۔ گرچہ اب بھی وہاں زیرِ کاشت رقبہ کم نہیں، مگر زمین دار ،کاشت کار گندم کی بجائے گنّے کی فصل کو ترجیح دیتے ہیں ۔اس لیے میری اپنی سوچ تو یہی ہے کہ گندم کی پیداوار پنجاب پر چھوڑ دیں، ہم اپنی بنجر اراضی کوزیرِ کاشت لائیں ۔ اور پھران علاقوں کے لوگ جوچاہیں کاشت کریں۔ ہمیں زراعت اور لائیوا سٹاک کے فروغ پر توجّہ دینی ہے۔قبائلی اضلاع کے صوبے میں ضم ہونے سے یہ امکانات اوربھی بڑھے ہیں ،ضم شدہ اضلاع میں لائیو اسٹاک کے فروغ کے زیادہ مواقع ہیں۔ہم صحت بخش گوشت کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ’’ سیودی کاؤ‘‘ منصوبہ بھی شروع کر رہے ہیں ،در اصل ہوتا یہ ہے کہ مویشی پال خصوصاً دودھ، ڈیری کاکام کرنے والے افراد دودھ کی بچت کے لیےگائے ،بھینس کےچند روز یا ہفتے بھرکے بچھڑے کو انتہائی کم قیمت پرفروخت کردیتے ہیں، جو اکثر’’ چھوٹے گوشت ‘‘کے نام پر ذبح کرکے لوگوں کو کھِلا دیا جاتا ہے۔’’ سیو دی کائو ‘‘ پروگرام کے تحت ہم مویشی پال حضرات کوچھے ماہ تک بچھڑا فروخت نہیں کرنے دیں گے اور اس کے بدلے انہیں ساڑھے چھے ہزار روپے سبسڈی دیں گے۔ اس طرح تین ،چار سالوں میں120,000ہزار سے زیادہ مویشی بچائے جا سکیں گے ۔ دوسری جانب لوگوں کو یہ فائدہ ہوگا کہ انہیں صحت بخش گوشت دست یاب ہوگا۔ ہم نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مِیٹ ٹیسٹنگ لیبارٹری کا کانسیپٹ ڈویلپ کیا،مویشیوں کی ویکسینیشن کا خیال رکھ رہے ہیں، ڈینزیزکنٹرول پر بھی توجّہ ہے، تواس وقت چین سمیت کئی ممالک ہم سے تازہ، صحت مند گوشت خریدنے کے لیے تیار ہیں، چناں چہ اگر ہم ہائی ویلیوویجی ٹیبل ۔4 کیٹیکچر اور لائیوا سٹاک پر توجّہ دیں، تو صوبے کے عوام کی زندگی بہتر ہونے کے ساتھ ،انہیں روزگارکے مواقع بھی ملیں گے اور برآمدات میں بھی بہتری آئے گی۔ویسے بھی ہمارا زیادہ فوکس نوجوان پر ہے، تواگر وہ فارمز میں مویشی پالیں، حکومت سے سبسڈی بھی لیں ،توبہت فائدہ کما سکتے ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز ہم اسی سال سے کررہے ہیں ،ایکنک سے منظوری کے فوراً بعد اس سلسلے میں آگاہی مہم چلائیں گے اور لوگوں کو اس جانب متوجہ بھی کریں گے۔

س: مویشیوں کے لیے اسپتال ، ڈسپنسریز کی تعداد کتنی ہے اوریہ ’’ڈینریز فری زون‘‘ کیا ہے؟

ج: ہمارے 85 فی صدکاشت کاروں، زمین داروں میں سے 70 فی صد لائیو اسٹاک سے وابستہ ہیں۔ جہاں تک مویشیوں کے امراض اوران کے علاج کا تعلق ہے ،تواس مقصد کے لیے صوبے میں 1600سے زایداسپتال قائم ہیں ، جن میں آٹھ ہزار افراد پر مشتمل عملہ تعینات ہے۔ ان کے ساتھ موبائل ویٹرنری کلینکس ہیں، لیکن ہمارے حساب سے یہ کلینکس کم ہیں، ان میں اضافہ ہونا چاہیے ۔انٹرنیشنل اینیمل ہیلتھ پالیسی کے تحت ہم نے کوہستان ، شانگلہ ، بونیر اور سوات کو’’ ڈیزیزفری زون ‘‘قرار دیا تھا، کیوں کہ یہاں مویشیوں کو لازماً ویکسی نیشن کروائی جاتی ہے۔ اب ہم نے ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ٹانک کے اضلاع کو بھی ان میں شامل کرلیا ہے، جب کہ ضم شدہ اضلاع بھی ان میں شامل ہیں، ضم شدہ اضلاع میں سے ابھی دو اضلاع ڈیزیز فری زون میں شامل کیےجائیں گے ۔

س: مرغے ، مرغیاں پالنے کاکیا منصوبہ ہے ؟

ج : ’’غربت مٹائو پروگرام‘‘ کے تحت مستحق گھرانو ںکو پانچ مرغیاں اور ایک مرغا دیا جائے گا،کیوں کہ انہیں گھروں میںپالنا ہےآسان ہےاوران کی نسل بھی بہ آسانی بڑھ جاتی ہے،پھرانڈےگھر میں بہ طور خوراک اور فروخت دونوں کام آسکتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی غربت ختم کرنے کے لیے اس پروگرام سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ ویسے تو اس منصوبے کومذاق سمجھ رہے ہیں، لیکن یہ مذاق نہیں۔چین اور دیگر ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وفاق کو یہ منصوبہ خیبر پختون خوا نے پیش کیا تھا ،جسے سراہا گیا۔ ماضی میں جب پولٹری فارمز نہیں تھے ، تولوگ گھروںمیں مرغیاں ہی پالتے تھےاوران کے انڈے فروخت کر کے گھر کی دیگر چیزیں لاتے تھے۔آج بھی ایک دیسی انڈا 20،25 روپے میںفروخت ہوتا ہے ۔اس منصوبے کی کام یابی کی صُورت میں فارمی مرغیوں پر انحصار بھی کم ہو جائے گا اور لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوگی۔

س: گزشتہ دَور ِ حکومت میں بھی فشریز کا محکمہ آپ کے پاس تھا، تب اس کی ترقّی کے لیے کیا اقدامات کیےاوراب کیا کر رہے ہیں ؟

ج : کالام کے اوریجنل برائون ٹراؤٹ، یعنی لوگڈ واٹر فش کے فروغ کے سلسلے میں 1967ء میں مدین میں ایک ہیچری قائم تھی، جب کہ پورے مالاکنڈ ڈویژن میں کو لڈواٹر فش کے حوالے سےصرف 15 پرائیویٹ فش فارمز تھے۔ہم نے کوشش کی اور پبلک ،پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ففٹی ففٹی کی بنیاد پر کولڈواٹر فش ہیچریز، پندرہ سے دو سو تک بڑھادیں، نتیجتاً کولڈ واٹر فش کی پیداوار 50میٹرک ٹن سے بڑھ کر 3000 میٹرک ٹن تک جا پہنچی۔ اب موجودہ اے ڈی پی میں50 اور پی ایس ڈی وی کے تحت 287 مزید ہیچریز بنائی جائیں گی۔ یعنی 300 سے زیادہ کا مزید اضافہ ہوگا ، تُرکی کے دورے کے بعد ہم نے اُن کے ایک آئیڈیے کا اطلاق یہاں کیا، وہ یہ کہ ایک جگہ قریب قریب فش فارمز بناکرانہیں’’ٹرائوٹ ویلیجز‘‘ کانام دیا ۔ دو ویلیجز ہم بنا چکے ہیں، اس کاایک فائدہ تو یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے فارمز ہوں گے،تو ان کی نگرانی ،دیکھ بھال آسان ہوگی ۔پھر ہم فش کیچ کلچر کوبھی فروغ دینا چاہتے ہیںکہ لوگ فارمز جائیں مچھلیاں پکڑیں ، خریدیں ، پکائیں اور پکنک منائیں۔ہم دبیر میں ایک ماڈل ویلیج بنا رہے ہیں۔ ناروے میں ٹراؤٹ مچھلیاں زیادہ ہیں، وہاںسے ایک وفد آیا تھا، ہم نے انہیں وِزٹ کروایا، تووہ بہت خوش ہوئے ، ان کا کہنا ہےکہ ہم پاکستان آکر یہاں سے ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں، ہم نے پوچھا کہ ناروے میں آپ کو زیادہ سہولتیں اور مواقع حاصل ہیں، پھر آپ یہاں کیوں آنا چاہتے ہیں؟تو ان کاکہنا تھا کہ وہاں آلودگی بہت ہوگئی ہے، جب کہ یہاں کا ماحول زیادہ مناسب اورموافق ہے ۔حکومت پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ پرائیویٹ ہیچریز کو بھی سیڈ دیتی ہے اور کولڈ واٹر ایریاز میں دریائوں میں بھی سیڈ چھوڑتی ہے تاکہ دریائی مچھلیوں کی نسل ختم نہیںہو بلکہ پیداوار میں اضافہ ہو۔ جہاں تک دریائوں میں مچھلیوں کی افزائش میں کمی کا تعلق ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ غیر قانونی فِشنگ ہے۔ لوگ دریائوں میں ڈائنامائیٹ مارتے ہیں، دریائی پانی میں کرنٹ چھوڑتے ہیں، جس کے باعث بڑی تعداد میں مچھلیاں مرجاتی ہیں۔ شکار کرنے والے تو چند ایک مچھلیاں پکڑتے ہیں،لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کی اس حرکت کی وجہ سے نہ جانے کتنی چھوٹی بڑی مچھلیاں مررہی ہیں۔ مئی سے اگست کے آخر تک مچھلیوں کا بریڈنگ سیزن ہوتا ہے، ایک مادہ مچھلی میں ایک لاکھ سے 5 لاکھ تک انڈے ہوتے ہیں، غیر قانونی شکارکرنے والے اگر ایک بھی مادہ مچھلی ماردیں،تواس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔سو، میری شکاری بھائیوں سے دست بستہ اپیل ہے کہ وہ مخلوقِ خدا پر رحم کریں اورمُلک و قوم کے مفاد میں انہیں مارنے سے گریز کریں۔

س : گزشتہ دَور ِ حکومت میں لائیو اسٹاک کا محکمہ بھی آپ کے پاس تھا، اس کی بہتری کے لیےکیا اقدامات کر رہے ہیں ؟

ج : جیسا کہ میں نے بتایا کہ ہر ضلعے میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال سمیت چھوٹے بڑےاسپتال اور ڈسپینسریز کی تعداد 1600، جب کہ مزید 1800 کے قیام کی ضرورت ہے۔تو ہم نے ایگری کلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میںایک لائیو انفارمیشن کال سینٹر قائم کیا ہے، جس میں محکمۂ زراعت ، محکمۂ لائیوا سٹاک اور محکمۂ فشریز کے الگ الگ ڈیسکس ہیں،جہاں متعلقہ ماہرین بیٹھتے ہیں۔ان ڈیسکس سے لوگوں کو مختلف قسم کی فصلوں کی بوائی ، کٹائی ، دیکھ بھال ،کس وقت کو ن سی کھاد دینی ہے ، لائیوا سٹاک کے حوالے سے ویکسی نیشن، بیماریوں ، علاج اور بچائو کے حوالے سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ساتھ ہی ایس ایم ایس سروس کے ذریعے بھی اطلاعات، معلومات ، ہدایات اور مشورے بھیجے جاتے ہیں۔

س: ریسرچ کے حوالے سے کیا کررہے ہیں ؟

ج: گندم کی مختلف اقسام پرپہلے بھی بہت کام ہوااوراب ہم مزید کر رہے ہیں۔چاول عموماً اُس زمین میںہوتےہیں ،جہاں پانی کا بہائو ہو ، دریائوں کے کنارے عموماً چاول کی فصلوںکے لیےمختص ہوتے ہیں،تو ہم نے دیگر خشک زمینوں پر بھی یہ فصل اُگانے کے حوالے سے کام کیا ہے، جس میں سوات کے موٹے چاول کے حوالے سے تجربہ کام یاب رہا۔ دیگر بنجر اور بارانی اراضی پر فصلیں اُگانے کے حوالے سے تحقیق اور نیشنل آئل سیڈ کرافٹ ان ہینسمینٹ (National oil seed craft enhancement) پرکام جاری ہے ، 70 ہزارایکٹر رقبے پر آئل سیڈ کی کاشت ہوگی۔

س:اپنی نجی زندگی سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج : میری نے ارینجڈ میرج ہے، پانچ بچّے ہیں۔ آج کل سیاسی و حکومتی ذمّے داریوں کی وجہ سےزیادہ تر وقت پشاور ہی میں گزرتا ہے، جب کہ بیوی بچّے گائوں میں ہوتےہیں،لیکن مَیں پھر بھی ہر ہفتے گھرجاتا ہوں۔ گر چہ گھر والوں کو وقت نہ دینے پر مجھ سے شکایت رہتی ہے، لیکن چھوٹا بیٹا اکثر مجھ سے سیاست سے متعلق سوالات پوچھتا رہتا ہے۔ اُسے سیاست سے خاصی دل چسپی ہے۔ مَیں پہلے پشتو فلمز دیکھتااور موسیقی شو ق سے سُنتا تھا،پر اب وقت نہیں ملتا۔بچپن میں آرمی جوائن کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن جب کالج میں سیاسی سرگرمیوں میں انوالو ہوا تو ہرطرف سے دھیان ہٹ گیا۔

س: اسپورٹس سے شغف ہے؟پسندیدہ کھیل،کھلاڑی کون ساہے؟

ج: زمانۂ طالب علمی میں گائوں میں والی بال شوق سے کھیلتا اورکرکٹ شوق سے دیکھتا تھا ۔ عمران خان پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ انہی کی وجہ سے بعد میں کرکٹ کھیلنی بھی شروع کی ۔عمران خان کے علاوہ عبدالقادر ، وسیم اکرم اور انضمام الحق بھی پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ عمران خان پہلے اسپورٹس میں ہمارے آئیڈیل تھے اور 2000ء سے لے کر آج تک سیاست میں آئیڈل ہیں۔