کراچی لا وارث کیوں؟

August 22, 2019

کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ شہر میں جا بجا کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، فضا میں ہر طرف بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں سندھ میں ہونیوالی بارشوں نے کچرے کے پیدا کردہ مسائل میں مزید اضافہ کر دیا تھا، کچرے کے باعث برساتی نالے اور گٹر وغیرہ بند ہو گئے تھے۔ اسی گندگی اور کچرے کے باعث شہر بھر میں پیٹ کے امراض ڈائریا اور گیسٹرو میں اضافہ ہو گیا ہے اور روزانہ سینکڑوں متاثرہ مریض اسپتال لائے جارہے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ڈائریا اور گیسٹرو کے مریض زیادہ ہونے کی وجہ سے جگہ کی کمی ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران 16ہزار سے زائد متاثرہ بچوں اور مریضوں کو مختلف اسپتالوں میں لایا گیا۔ سنگین صورتحال کے پیش نظر محکمہ صحت نے اسپتالوں میں ڈائریا کے خصوصی وارڈز قائم کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے، قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو مناسب طور پر ٹھکانے نہ لگانے سے اُن سے اٹھنے والے تعفن اور بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ کراچی شہر اور اِس کے عوام کی یہ حالت اربابِ اختیار اور متعلقہ محکموں کی جانب سے ذمہ داری دوسروں کے کاندھوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی غماز ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ نے شہر کی حالت کو مزید ابتر بنا دیا ہے، جس سے جہاں شہر کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے وہیں شہر میں جا بجا پھیلی گندگی کی وجہ سے مہلک امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ کچھ نجی ادارے اپنے تئیں شہر کی حالت کو سنوارنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہیں۔ ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے وقتی جوش و خروش کے بجائے مستقل بنیادوں پر کچرے کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست کریں۔ اس حوالے سے عوام میں شعور و آگاہی پھیلانے کی بھی اشد ضرورت ہے، شہر قائد کی حالت تبھی بہتر ہو گی جب عوام اور ادارے مل کر کام کریں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998