مسئلہ کشمیر پر ترکی بھی میدان میں

August 25, 2019

پانچ اگست کو فاشسٹ مودی نے کشمیری عوام کو ان کی ترقی اور خوشحالی کا چکما دے کر جس طریقے سے ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کا ہر ذی شعور انسان فاشسٹ مودی کے یکطرفہ طور پر بھارتی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کو ختم کرنے کے گھناؤنے اقدام، کرفیو لگانے اور بلاتفریق تمام مسلم سیاسی رہنماؤں کے گرفتار کئے جانے پر حیران و پریشان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ فاشسٹ مودی نے ایک ایسی غلطی کی ہے جس کا اسے ہی نہیں بلکہ پورے بھارت کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ فاشسٹ مودی کی اس گھٹیا حرکت سے کشمیر کے تمام باشندے اور سیاسی رہنما چاہے ان کا تعلق کسی بھی نظریے سے ہو، پہلی بار کشمیر کی آزادی کے بارے میں ایک پیج پر ہیں۔

اب کشمیر کی تحریک اپنے انجام کی جانب گامزن ہے۔ ایسی صورتحال کو انگریزی زبان کا محاورہ Strike while iron is hotبڑے خوبصورت طریقے سے اجاگر کرتا ہے کیونکہ اب مذاکرات کو وقت گزر چکا ہے اور مزید 72سال دو طرفہ مذاکرات شروع کرنے پر ضائع نہیں کئے جا سکتے، اب کشمیر میں جیسے ہی کرفیو ختم ہوگا، بھارتی ظلم کی گرتی ہوئی دیوار کو آخری دھکا دینے کی ضرورت ہوگی۔ کشمیر میں مظاہروں اور کرفیو ہی کی وجہ سے سلامتی کونسل آخر کار 72سال بعد غور کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ کشمیریوں کامیابی کی جانب پہلا قدم ہے جبکہ ابھی مزید کئی ایک اقدامات کرنے، خاص طور پر مسلم امہ سے کشمیر سے متعلق حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

کتنے افسوس کی بات ہے مسلم ممالک میں سے زیادہ تر نے فاشسٹ مودی کی اس حرکت کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے، ان کو اس بات کا ہرگز احساس نہیں کہ اگر انہوں نے کشمیریوں کا اس موقع پر ساتھ نہ دیا تو کشمیر کو دوسرا فلسطین بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ فاشسٹ مودی نے آئین میں یہ تبدیلی علاقے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے کی ہے۔ اس لئے مسلم ممالک پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ کیا تمام اسلامی ممالک کشمیر کی پشت پر ہیں؟ ہر گز نہیں۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو کشمیر کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے ورنہ جس طرح عرب امارت کے بھارت میں سفیر نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے بیان دیا، اسی قسم کا بیان دیگر اسلامی ممالک کے سفیر بھی دے سکتے ہیں اور جس طرح امارت نے فاشسٹ مودی کو ملک کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے اس سے مودی کا کشمیروں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے کا مزید حوصلہ بڑھے گا، تاہم ہمیشہ کی طرح دو ہی ممالک نے کھل کر کشمیر اور پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ چین جس کو لداخ کی وجہ سے بھارت سے شکایت ہے اور اس نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے لئے بھی پاکستان کی مکمل حمایت کی۔ اس کے علاوہ جس ملک نے پاکستان کی کھل کر اور بڑے دلیرانہ انداز میں حمایت کا اعلان کیا ہے وہ بلاشبہ پاکستان کا سچا دوست اور برادر ملک ترکی ہے۔

پانچ اگست کو فاشسٹ مودی کے کشمیر سے متعلق فیصلے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے سب سے پہلے ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے کشمیر کی صورتحال سے متعلق آگاہ کیا تھا جس پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یاد رہے صدر ایردوان نے چند سال قبل اپنے دورۂ بھارت کے دوران مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے بھارت کو ثالثی کی پیشکش کی تھی لیکن بدقسمتی سے بھارتی حکومت نے ترکی کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ بعد میں کئی بار ترک صدر اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ ’’ہمیں یقین ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کیونکر مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جا سکا۔ میرے خیال میں علاقے کے عوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کئے بغیر اس مسئلے کو حل کرنا ممکن نہیں ہے‘‘۔ یہ صرف صدر ایردوان ہی کے خیالات نہیں بلکہ تمام ترک مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز قبل پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر مصطفیٰ شَن توپ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے کشمیر کی صورتحال سے انہیں آگاہ کیا تھا، ترک اسپیکر اسمبلی جناب شَن توپ نے یکم اکتوبر میں نئے مقننہ سال کے موقع پر ترکی کی قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں مسئلہ کشمیر سے متعلق کشمیری عوام کے حق میں قرارداد منظوری کیلئے پیش کی جائے گی تاکہ کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے۔

ترکی نے پاکستان کی درخواست پر بلائے جانے والے سلامتی کونسل کے اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ کشمیر کا تنازع بین الاقوامی قوانین اور باہمی مذاکرات سے حل ہو جائے گا۔ ترجمان وزارتِ خارجہ نے فریقین پر یکطرفہ اقدامات اور کشیدگی کو ہوا دینے سے گریز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں پاکستان کے یومِ آزادی اور بھارتی یومِ آزادی کو یومِ سیاہ کے طور پر منانے کے موقع پر سفارت خانہ پاکستان میں بھی تقاریب کا اہتمام کیا گیا جس میں قرآن خوانی کی گئی اور شہدا کی یاد میں مشعلیں روشن کی گئیں۔ جبکہ اس سے اگلے روز بھی استنبول اور انقرہ میں بھارت کے قونصل خانوں پر ترکوں کی مختلف این جی اوز نے کشمیری بھائیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لئے مظاہرہ کیا اور مودی کے دورۂ فرانس کے موقع پر بھی بڑی تعداد میں ترکوں نے پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے ساتھ استنبول میں بھارتی سفارت خانے کے باہر کشمیری عوام سے یکجہتی اور بھارت کے خلاف مظاہرہ کیا۔