اپولو مشن

August 26, 2019

منیب احمد

چاند شروع سے ہی سائنس دانوں کی توجہ کا مر کز رہا ہے ۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے چاند پر انسان کو بھیجنےکا اعلان کرنے کے بعد پہلی دفعہ میں انسان کو چاند کی سطح پر نہیں اتارا بلکہ اس سے پہلے چاند کی طر ف بہت سی خلائی گاڑیاں بھیجی گئی تھی اور اس خلائی مشن کو ’’اپولومشن ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔امریکا کے لئے اپولو مشن کا اصل مقصد انسان کو چاند تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اسے زمین پر صحیح سلامت واپس لانا بھی تھا۔ چوں کہ چاند زمین سے تقریباً تین لاکھ کلومیٹر دور ہے اور زمین سے اتنا زیادہ فاصلہ انسانی تاریخ میں پہلے کبھی طے نہیں کیا گیا تھا اس لئے اپولو مشن میں 12اپولو خلائی گاڑیاں چاند کی طرف ایک ایک کرکے بھیجی گئی اور ہر خلائی گاڑی چاند پر نہیں اتری بلکہ کچھ گاڑیاں زمین کا چکر لگا کر زمین پر ہی واپس آگئی اور کچھ چاند کی طرف بھیج دی گئی جن میں سے اپولو3(جس میں تین خلاباز موجود تھے) راستے میں بھی آکسیجن سلنڈر پھٹنے سے تباہ ہوگئی اور اسی کے ساتھ یہ انسانی تاریخ میں زمین سے بہت زیادہ فاصلے پر ہلاکتیں قرار پائی۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کا چاند پر انسان کو بھیجنے کا مقصد وہاں پر زندگی تلاش کرنا تھا

اپولو7 کی خلائی گاڑی کو 25دسمبر 1968ءکو چاند کی طرف روانہ کیا گیا ،جس میں تین خلاباز (فرینک بورمین، جیمز لوول اور ولیم انڈرز) موجود تھے لیکن یہ خلائی گاڑی چاند کی سطح سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر اس کا چکر لگا کر زمین پر واپس آ گئی۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا جب اس نے – سیارہ زمین کو پہلی بار دور سے دیکھا۔ اپولو 7 سے لی گئی تصاویر کو دیکھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ اس کائنات میں ہماری حیثیت کتنی کم ہے ۔اپولو 7 کے زمین پر واپس آنے کے بعد ناسا نے انسان کوچاند پر اتارنے کا حتمی اعلان کیا تھا اور 16 جولائی 1969 ء کو اپولو11 کی خلائی گاڑی تین خلا بازوں کو لے کر چاند پر روانہ ہوئی ۔زمین سے روانگی کے 5 دن بعد 21 جولائی 1969 ء کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح 7 بجکر50 منٹ پر خلائی گاڑی چاند کی سرزمین پر اتری۔ ماہرین فلکیات نے اس مقام کو ’’ٹرانسکویلیٹی بیس ‘‘ یعنی امن مرکز کا نام دیا ۔

اپولو کی اس خلائی گاڑی کے دو حصے تھے جن میں سے ایک حصہ الگ ہوکر چاند پر اترا، جسے چاند گاڑی ’’ایگل ‘‘کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ پائلٹ گاڑی ’’کولمبیا‘‘تھی جوکہ چاند کے گرد چکر لگاتی رہی۔ چاند پر ایگل کے اترنے کے تھوڑی دیر بعد جب امریکی خلاباز نیل آرمسٹرانگ چاند گاڑی سے نکلے اور چاند پر پہلا قدم رکھا تو اس وقت ان کے الفاظ یہ تھے: ’’انسان کا یہ چھوٹا سا قدم، نوحِ انسانی کے لئے ایک بڑی چھلانگ ہے‘‘۔ خلاباز نیل آرمسٹرانگ نے جب چاند پر قدم رکھا تو چاند کی سطح پر ان کے جوتوں کے نشان پڑگئے اور چوںکہ چاند پر ہوا اور پانی موجود نہیں ہے ۔لہٰذا آج اس واقعے کو گزرے پورے پچاس سال ہوگئے ہیںلیکن وہ نشانات چاند پر اپنی اصل حالت میں آج بھی موجود ہیں ۔

اپولو 11 کے بعد مزید 5 خلائی گاڑیاں بھیجی گئی اور اس طرح آج تک کُل 12خلاباز چاند پر چہل قدمی کرچکے ہیں۔

یہ اعتراض اکثر کیا جاتا ہے کہ زمین پر تو روشنیوں سے بھرے شہروں سے بھی آسمان میں ستارے دکھائی دیتے ہیں مگر چاند پر تو نہ فضا ہے نہ اور ہی کوئی آلودگی تو تصاویر میں ستارے واضع دکھائی دینے چاہیے لیکن کوئی ستارہ نظر نہیں آتا۔یہ بات بھی حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے لیکن اگر آپ کے پاس کیمرہ ہے، بیشک موبائل کیمرہ ہو یا ڈی۔ ایس۔ ایل۔ آر۔ کیمرہ، تو آپ اس سب کی وجہ بآسانی بتا سکتے ہیں!! آپ نے اکثر یہ چیز محسوس کی ہوگی کہ اگر آپ کچھ دیر تیز دھوپ میں وقت گزارنے کے بعد اپنے کمرے میں آتے ہیں تو آپ کو کچھ وقت کے لئے پورا کمرہ سیاہ نظر آتا ہے، مگر تھوڑی ہی دیر بعد پورا کمرہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جب تیز روشنی میں ہوتے ہیں تو آپ کی آنکھیں خود کو اس طرح ترتیب میں لے آتی ہیں جس سے آپ تیز روشنی میں چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکیں لیکن جیسے ہی آپ ِکم روشنی والے کمرے میں آتے ہیں تو آپ کی آنکھوں کو کم روشنی کے حساب سے خود کو ترتیب دینے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس دوران آپ کو کمرے میں بہت زیادہ اندھیرا محسوس ہوتا ہے۔

بالکل اسی طر ح کیمرے میں بھی دو طر ح کی ترتیبیں پائی جاتی ہیں جو تیز اور ہلکی روشنی میں تصاویر لینے میں مدد دیتی ہیں۔ ان ترتیبوں کو ’’ایکسپویر سیٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپولو مشن کے وقت کیمرے اتنے جدید نہیں تھے کہ ان میں یہ صلاحیت پیدا کی جاسکے کہ وہ خود کو روشنی کے حساب سے ڈھال لیں ،اسی لیے اپولو 11 میں استعمال ہونے والے کیمرے کی ترتیب زمین سے ہی کرکے بھیجی گئی تھی۔ چونکہ چاند کی سطح سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے بہت زیادہ روشن تھی ۔لہٰذا کیمرے کی ترتیب اس طرح کی گئی تھی کہ وہ چاند کی روشن سطح اور خلابازوں کو صحیح طرح سے ریکارڈ کرسکے۔ اس ترتیب کی وجہ سے ستاروں کی مدھم روشنی کو یہ کیمرہ ریکارڈ نہ کرسکا ،جس کی وجہ سے ہمیں تصویروں میں ایک بھی ستارہ نظر نہیں آتا۔

اگر ستاروں کی تصویر لینی ہوتی تو اس کے لئے ایکسپویر سیٹنگز کم کرنی پڑتی ،مگر اس سے ہوتا یہ ہے کہ کیمرہ ستارے تو دکھاتا لیکن خلاباز اور چاند کی سطح بِنا کسی شکل و صورت کے سفید دکھائی دیتی ہے۔ایک اہم اعتراض کو اپولو کے خلاف اُٹھا یا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اپولو 11 کی تصویروں میں چیزوں کے سائے مختلف اسمات میں بن رہے ہیں ،جس سے ثابت ہوتا ہے کہ روشنی کا ذرایع سور ج نہیں بلکہ اسٹوڈیو میں موجود فلیش لائٹ تھی ۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ روشنی ایک سیدھ میں سفر کرتی ہے اور زمین پر سورج کی روشنی سے بننے والے سائے ایک سید ھ میں بنتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج زمین سے تقریبا 10ً لاکھ کلومیٹر دور ہے اور اتنی دوری پر روشنی کی شعائیں ایک سیدھ میں آ جاتی ہیں لیکن اپولو 11میں سائیوں کی اسمات دیکھ کر اس کی حقانیت پر شک سا ہونے لگتا ہے پر ایسا ہرگز نہیں ہے۔

سائنسدان آیزک نیوٹن کےپہلے قانون کے مطابق خلا میں اگر کوئی چیز رکی ہوئی ہو تو اسے حرکت میں لانے کے لئے قوت لگانی پڑتی ہے ،اسی طرح اگر کوئی چیز حرکت میں ہو تو اسے روکنے کے لئے بھی قوت درکار ہوتی ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے۔اپولو مشن میں جو کیمرے چاند پر لے جائے گئے تھے وہ اس طر ح بنایا گیا تھا کہ کیمرے کو کم یا بغیر حرکت دئیے اردگرد کے زیادہ حصے کی تصویر آرام سے لی جا سکے ۔اس کیمرے میں ’’فش آئی لینز‘‘ یعنی مچھلی کی آنکھ کی طرح کا لینز استعمال کیا گیا تھا۔ یہ لینز اس طرح کا ہوتا ہے کہ جیسے ایک مچھلی اپنی آنکھ کو بنا حرکت دئیے تمام منظر دیکھ لیتی ہے اسی طرح اس کیمرے کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔کیمرے کی حرکت کو اس لیے تر جیح نہیں دی گئی،کیوں کہ چاندپر کشش ثقل نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا اگر کیمرے کو ہلایا جاتا تو خلا بازوں کو بہت زیادہ قوت لگا کر اسے ساکن رکھنا پڑتا ،تا کہ تصویر صحیح آئے ۔

•ناسا نے چاند پر دوبارہ انسانی مشن کیوں نہ بھیجا؟اکثر یہ سوال کیا جا تا ہے کہ ناسا نے دوبارہ انسان کو چاند پر بھیجنے کی کوشش کیوں نہیں کی ،حالاںکہ اب تو جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کائنات میں زمین کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی زندگی کو تلاش کررہا ہے اور اسی مقصد کے لیے چاند پر بھی گیا تھا ، تا کہ یہ چاند کا ماحول دیکھ سکے۔ مگر اپولو مشن میں چاند پر جانے والے 12 خلابازوں کی مدد سے ہم یہ بات جان چکے ہیں کہ چاند پر فضا نہ ہونے کی وجہ سے دن کے وقت تیز درجہ ٔحرارت اور رات کے وقت جماتی سردی ہوجاتی ہے جو کہ انسانی زندگی کے لیے کسی بھی طر ح موثر نہیں ہے۔اب انسانیت کا اگلا ہدف سیارہ مریخ ہے لیکن اگر انسان کی بنائی خلائی گاڑیوں کی بات کریں تو 1980ء کی دہائی میں خلا میں بھیجی گئی ،ناسا کی وویجر 1 اور 2 اب ہمارے نظام شمسی سے باہر جاچکی ہیں اور ملکی وے کہکشاں میںاپنے راستے پر گامزن ہیں ۔