خیالات کی رو میں ایک تحریر

August 28, 2019

انا نیتی ادب کی چھتری تلے، یہ کالم صیغۂ واحد کی صورت میں لکھنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ ایسا لگتا ہے اس ضابطے کا استعمال کئے بغیر اپنے احساسات سے شاید انصاف نہ کر سکوں۔ میں نظریاتی طور پر ترقی پسند لبرل مسلمان ہوں۔

آپ نے اس اصطلاح کا بے ساختہ مفہوم سمجھنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں کی ہو گی۔ وہ لوگ کم از کم اس کالم میں میرے مخاطب ہی نہیں جو اس طرح کی جرأت اظہار پر کبھی یہ فرمائے بغیر نہ رہ سکے ’’بھلا یہ ترقی پسند لبرل مسلمان کا کیا مطلب ہے‘‘۔ وہ ازراہِ مہربانی اسی پر اڑے ہیں۔ میں آگے چلتا ہوں۔

جنہیں تخلیق کے کسی بھی سمے، کسی بھی لمحے، اس کی لذت چھو کر بھی گزر گئی ہو وہ چاہے اپنے خیالات کے سفر میں ہمیشہ آپ کے ہم سفر رہے ہوں، آپ انہیں اپنے ڈبے کا مسافر ہی قرار دے سکتے ہیں، اس میں کوئی بات غلط بھی نہیں ہو گی۔ ایسی حالت میں دل چاہتا ہے کسی نہ کسی سے پورا سچ بولا جائے۔ اپنے نظریاتی اور ذاتی دوستوں سے ہی کہہ دیا جائے۔ ’’اس دوپہر کی تپش میں مجھے اکیلا کھڑا ہونے دو، افراد کے تذکرہ یا ان تک پیغام رسانی جیسی ’ضرورتوں‘ سے چاہے چند ساعتوں ہی کے لئے سہی آزادی ہی نہیں، نجات چاہتا ہوں‘‘۔

انیس ناگی نے اپنی ایک نظم میں کچھ اس طرح کی بات کہی تھی ’’جو لکھنا تھا لکھ لیا، جو پڑھنا تھا پڑھ لیا، جو کہنا تھا کہہ لیا‘‘ کسی ایسی ہی آفاقی کیفیت میں روسی ناول نگار روستو فسکی نے قلمکاری کے بجائے ’’قلم تراشی‘‘ کے بے رحم مشغلے میں مصروف لوگوں کے بارے میں کہا تھا ’’افوہ یہ داستانیں سنانے والے! کیا ان سے کوئی ایسی چیز نہیں لکھی جاتی جو کارآمد ہو، خوشگوار ہو، جسے پڑھ کر لطف آئے مگر توبہ! یہ ٹھوکروں سے گردوغبار اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں پر تو لکھنے کی قطعی پابندی ہو جاتی۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ آپ پڑھتے جاتے ہیں اور آپ سے آپ دل میں سوچتے ہیں...یہ کیا خرافات دماغ میں گھسی ہوئی ہیں فضول....اچھا ہوتا کہ ان لوگوں کو لکھنے ہی سے منع کر دیا جاتا۔ پس یہی ہے کہ انہیں لکھنا منع کر دیا جائے‘‘۔

پاکستان میں تو ٹھوکروں سے گردوغبار اٹھانے والے قلمکاروں نے حشر بپا کر رکھا ہے۔ ان پر کون پابندی لگائے۔ مثلاً برصغیر کے مذہبی رہنمائوں کی اکثریت، آٹے میں نمک برابر تعداد کو نکال کر، عورت کے موضوع پر اپنی ایسی شرعی تعبیر کے نظام حیات کی مبلغ شارح اور طاقتور وارث ہے کہ End Of the Dayمرد کے مقابلے میں ایک تسلیم کردہ ان دیکھی، غیر تحریری اور غیر اعلان شدہ مکمل غلامی عورت کا مقدر بن چکی ہے۔ برصغیر میں ان مذہبی رہنمائوں کی ’’دینی تعبیروں‘‘ کے مطابق تحریر کردہ گزشتہ تقریباً سو برس کی کتب یا افکار کے مجموعی جائزے میں عورت کے مقام کی اس ایک حیثیت کے علاوہ کوئی دوسری مجموعی حیثیت سامنے آہی نہیں سکتی۔ اپنے اس ’’دینی جہاد‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’اسلام میں عورت کی عظمت‘‘ جیسے موضوعات پر ان کی اجارہ داری ایک علیحدہ و سماجی عمل ہے جس میں انفرادی واقعات کے بیانیے سے End of the Dayعورت کی اس ’’غلامانہ تقدیر‘‘ کی موجودہ حقیقت کے متعلق عام آدمی کے ذہن کو عجیب قسم کے فکری اور عملی تشنج میں مبتلا کرتے رہتے ہیں مگر واقعاتی منظر کیا ہے؟

یہ پاکستان، افغانستان اور بھارت میں مسلمان عورت کو اس ’’غلامانہ تقدیر‘‘ کا مستقل شہری بنا دینے میں کامیابی کے باوجود مسلمان عورت کا سفر ان مذہبی رہنمائوں کے خود ساختہ ذہنوں اور ان کی فکر کے سایوں میں پلنے والے دانشوروں کی ذہنی دینی تعبیر کے قریب سے بھی ہو کے نہیں گزرا۔

مسلمان عورت نے پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبے میں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ آج پاکستان کی ہر ماں، بیٹی اور بہن شاہراہ حیات کے ہر موڑ اور ہر شعبے میں پورے جوبن کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ تینوں ملکوں کی ماحولیات کے مطابق عملی صورتحال میں درجہ بدرجہ فرق ضرور ہے۔ وقت کے ساتھ یہ فرق کم حتیٰ کہ ختم ہو جائے گا۔ ان رہنمائوں کی ’دینی تعبیروں‘ نے اس سفر میں جان لیوا حد تک رکاوٹیں پیدا کیں۔ اب بھی ان کا یہ ’جہاد‘ جاری ہے لیکن جس طرح برصغیر میں مسلمان ماں، بیٹی اور بہن پردہ قائم رکھتے ہوئے ہر شعبے میں اتنا آگے بڑھی کہ یہ مذہبی طبقہ اس منزل سے نہ نظر آنے والی دوری پر کھڑا ہے۔ اس لئے کہ ان کی ’دینی تعبیریں‘ سرے سے ’اسلام‘ سے کوئی علاقہ ہی نہیں رکھتیں کیونکہ یہ ان کی ایک قسم کی ’مقدس دماغی جارحیت‘ ہی کہلا سکتی ہے جس کا انہیں ان تینوں ملکوں کے مسلم معاشرے میں حالات و واقعات کے مطابق خوب موقع ملا ہوا ہے۔

موجودہ ہنگامہ خیزی کی مدت زیادہ سے زیادہ ایک دہائی پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ سچے لکھاری پورا کیا آدھا سچ بھی نہیں لکھ سکتے۔ وہ پاکستان میں ظالموں، باغیوں، عوام کی توہین کے مترکبین افراد اور گروہوں کے ریاستی جبر و ستم کی حقیقی تصویر کشی ناممکن پاتے ہیں۔ ایسے دانشوروں کا بھی انہیں پتا ہے جو سرمائے کی فرعونیت اور ریاست گردی کے نتیجے میں پیدا شدہ عوامی نفرت و غضب کے شعلوں کو ہلکی پھلکی تنقید کے حربے سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر حق پرست لکھاری ظالموں، فرعونوں، متکبر دولت مندوں، اقربا نواز حکمرانوں، بدمعاش ریاستی اہلکاروں، مذہبی اجارہ داروں اور سمجھوتہ باز دانشوروں کو جتنا ایکسپوز کر سکتے ہیں کرتے رہیں کہ سچ کے سورج کی ایک کرن بھی ان سارے اندھیروں کو ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور یہ سحر طلوع ہو کر رہے گی۔