لازوال ملی نغموں کے خالق ’کلیم عثمانی‘

August 28, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

لازوال ملی نغموں کے خالق ’کلیم عثمانی‘

کئی لازوال فلمی گیتوں اور ملی نغموں کے شاعرکلیم عثمانی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے لیکن ان کے تحریر کردہ گیت اور ملی نغمے آج بھی دلوں کو گرما دیتے ہیں۔

برِصغیر کی فلمی تاریخ میں کچھ نغمہ نگار ایسے بھی تھے جنہیں صرف گیت نگاری کی وجہ سے ہی شہرت نہیں ملی بلکہ انہیں ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا، ان میں ایک نام کلیم عثمانی کا بھی تھا جنہوں نے بے مثال فلمی گیت تخلیق کئے اور اس کے علاوہ ایک خوبصورت غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔

کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اور وہ 28 فروری 1928ء کو دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے۔ 1955ء میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا جس کے موسیقار فیروز نظامی تھے، اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے نغمے لکھے۔

1966ء میں فلم، ہم دونوں کے لیے لکھی غزل نے کلیم عثمانی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

بعدازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے، جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔

فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ”اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں“ تحریر کیا۔

روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔

اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ”یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے“ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔

1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔

کلیم عثمانی، 28 اگست 2000ء کو لاہور میں وفات پا گئے لیکن ان کے فلمی گیت اور غزلیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔