پون صدی کا مسئلہ کشمیر، نئی اپروچ کی ضرورت

September 01, 2019

کشمیر کا مسئلہ کوئی پون صدی کا تنازع ہے ، جو 20 ویں صدی کے پانچ عشروں سے زائد عرصے میں بھی حل نہیں ہو سکا اور اب 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخر میں بھی پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت ، گریہ اور ماتم پون صدی سے جاری ہے ۔ یہ پون صدی تاریخ انسانی کا وہ عرصہ ہے ، جس میں جتنی تبدیلیاں رونما ہوئیں ، اتنی پوری تاریخ انسانی میں رونما نہیں ہوئیں ۔ لیکن تنازع کشمیر جوں کا توں ہے اور یہی حقیقت اس تنازعہ کو حل کرنے کے تاریخی اسباب مہیا کر رہی ہے ۔ بشرطیکہ ہم بدلے ہوئے حالات میں مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف سے انحراف کیے بغیر اپنی اپچ ( اپروچ ) تبدیل کریں ۔ وہ اپروچ یہ ہے کہ ہم اس بات کا ادراک کریں کہ پون صدی کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ اس پون صدی میں پوری تاریخ انسانی استحصالی ، سامراجی ، نو آبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام دو عالمی جنگوں کی صورت میں اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور دنیا میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی بلاکس میں سرد جنگ شروع ہوئی ۔ یہیں سے تنازعہ کشمیر کا آغاز ہوا ۔ اس دوران دنیا میں قومی آزادی ، جمہوریت اور استبداد سے نجات کے لیے انقلابات رونما ہوئے ۔ قوموں کو آزادی ملی ۔ آمریتوں کا خاتمہ ہوا اور بڑے بڑے تاریخی تنازعات حل ہوئے ۔ پھر سرد جنگ کا عہد ختم ہوا ۔ دنیا میں امریکا کی بالادستی کا نیا عالمی نظام نافذ ہوا ۔ یہ بھی تین عشروں سے زیادہ عرصے تک چلا ۔ یہ عہد بھی اب ختم ہو چکا ہے ۔ اب ایک اور عہد جنم لے رہا ہے ۔ تاریخ انسانی میں ایک ایک عہد ہزاروں سالوں پر محیط رہا لیکن اس پون صدی میں دو عہد ختم ہوئے اور تیسرا عہد جنم لے رہا ہے ۔ اس عرصے میں جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ بہت سے تنازعات حل ہوئے اور جو حل نہیں ہو سکے ، وہ تاریخ کے قبرستان میں دفن ہو گئے لیکن تنازعہ کشمیر ابھی تک باقی ہے ، جو تاریخ کا ایک معجزہ ہے ۔ ویسے تو قومو ں اور خطوں کے درمیان تنازعات تاریخ میں حل ہوئے بغیر ختم بھی ہو جاتے ہیں اور پھر صدیوں یا ہزاروں کے بعد دوبارہ بھی جنم لیتے ہیں لیکن بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ایک تنازعہ پون صدی سے زندہ ہے اور وہ بھی تاریخ کی تیز ترین تبدیلی والی صدی ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے ، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام کی مزاحمتی تحریک صرف بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ہے ۔ لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی کے باوجود یہ تحریک ختم نہیں ہو سکی ہے ۔ تاریخ انسانی کی تیز تر تبدیلی والی اس پون صدی میں اس مزاحمتی تحریک کا باقی رہنا ان تمام کمزوریوں کا ازالہ کر سکتا ہے ، جو کشمیریوں کی تحریک مزاحمت اور پاکستانی ریاست کی پالیسیوں میں رہی ہیں ۔ کشمیریوں نے اپنی تحریک مزاحمت میں وہ قربانیاں دی ہیں ، جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے لیکن کشمیری قیادت ان چیلنجز کو شاید نہیں سمجھ سکی ، جو اسے وقتا فوقتا درپیش رہے ۔ ریاست پاکستان نے اگرچہ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن امریکی کیمپ میں رہنے کی وجہ سے وہ اس مسئلے پر مطلوبہ عالمی حمایت نہ کر سکی ۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کی وجہ سے اپنی خارجہ ، داخلہ اور ترقیاتی پالیسیوں کی قربانی دیتا رہا ۔ پون صدی میں مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بہت بربادی دیکھی مگر پاکستان بھی اس تنازع کی وجہ سے بہت قربانیاں دے چکا ہے ۔ اگر تنازعہ کشمیر نہ ہوتا تو آج پاکستان کچھ اور ہوتا ۔ یہ کشمیری عوام سے پاکستان کا ایسا رشتہ ہے ، جس سے دونوں اس لیے جڑے رہیں گے کہ دونوں کا مستقبل اس رشتے سے وابستہ ہے ۔ اب ہمیں پون صدی بعد کیا اپروچ اختیار کرنی ہے ؟ یہ آج کا اہم سوال ہے ۔ سرد جنگ کے زمانے میں دنیا کے مظلوم اور حریت پسند قوموں ، جمہوریت ، انسانی آزادیوں اور طبقاتی انصاف کے لیے جو عالمی تحریک تھی ، وہ ختم ہو چکی ہے ۔ 1947 اور 1948 ء میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مزاحمتی تحریک کو جو عالمی حمایت حاصل تھی ، وہ اب نہیں رہی ۔ 1988 اور 1989 ء میں مقبوضہ کشمیر میں بھرپور مزاحمتی تحریک کے دوبارہ ابھار کے وقت سرد جنگ کا عہد دم توڑ رہا تھا اور کشمیری عوام کے لیے عالمی حمایت کمزور پڑ رہی تھی ۔ 2010 میں مقبوضہ کشمیر میں ایک تیسرے مزاحمتی ابھار کے وقت نیا عالمی ضابطہ پورے قہر کے ساتھ نافذ تھا ۔ اب 2019 کی مزاحمتی تحریک کے ابھاروں میں یہ عالمی حمایت مزید کمزور ہو گئی ہے ۔ اگرچہ دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے لیکن مظلوم قوموں اور طبقات کی حمایت کی عالمی تحریک ابھی کہیں نظر نہیں آتی ، جو سرد جنگ کے زمانے سے تھی ۔ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہے۔ کالم کی طوالت سے بچنے کے لیے کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں ۔ عالم اسلام اگر پہلے کی طرح مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور کشمیری عوام کے موقف کی حمایت نہیں کر رہا تو اس میں حیرت کی بات نہیں۔ پون صدی نے حالات کی کایا پلٹ کر دی ہے ۔ اب ہمیں درج ذیل اقدامات کرنا چاہئیں۔

1 ۔ ہمیں اپنی سفارت کاری کو تیز کرنا ہو گا ۔ یہ سفارت کاری ریاستی بھی ہو سکتی ہے اور عوامی سفارت کاری بھی یعنی پبلک ڈپلومیسی کا سہارا لینا ہو گا ۔ 2 ۔ ہمیں میڈیا خصوصا سوشل میڈیا پر اپنی مہم کو بھی تیز کرنا ہو گا کیونکہ یہ عالمی تحریک کا متبادل ہے ۔ 3 ۔ ہمیں ریاستی اور عوامی سفارت کاری کے لیے اپنی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی مدد حاصل کرنا ہو گی اور پاکستان میں سیاسی تقسیم اور افراتفری کا تاثر ختم کرنا ہو گا۔4 ۔ چین مسئلہ کشمیر کا فریق ہے ۔ اسے اس مسئلے میں مکمل طور پر اس لیے ملوث کرنا ہو گا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کا اقدام سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی عالمی سازش ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ 5 ۔ پاکستان کو یہ اپروچ کرنا ہو گی کہ کشمیر وادی سندھ کا ناگزیر حصہ ہے ۔ کشمیریوں کے ساتھ وادی سندھ کے اس رشتے کو پاکستان نے کبھی اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کی۔