’’ہیومن سیکورٹی‘‘ پر ہندو بنیاد پرستی کا حملہ

September 05, 2019

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہلاکت خیز اور تباہ کن اسلحے سے روایتی قومی سلامتی کو یقینی بنانے (جس میں طاقت کے توازن کی قدیم اپروچ بھی شامل ہے) کے مقابل ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کی نئی عملی نظری اپروچ کا عالمی سطح پر فروغ اور اسے بین الاقوامی ایجنڈا کے طور اختیار کرنے کے لئے ریاستی و حکومتی سربراہوں کی سہ روزہ کانفرنس (14-16؍ستمبر 2005ء) اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں ہوئی۔ اس کا لب لباب یہی نکلا کہ ریاستوں اور اقوام کی سلامتی کے روایتی، موجود، عالمی سیاست میں غالب تصور اور عمل داری کے مقابل، ایڈوانس ہیومن ویلفیئر، آزادی، اس کے قائم اور فروغ پذیر رہنے کو یقینی بناکر اقوام کی سلامتی اور عالمی امن کے عظیم اہداف حاصل کئے جائیں۔ گویا سلامتی کا روایتی تصور اور موجود عمل داری طرزِ کہن اور ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ پر عالمی اتفاق رائے آئینِ نو قرار پایا۔ یہ عالمی امن اور فلاح انسانیت کے علمبرداروں اور اس موضوع کے چوٹی کے اسکالرز اور ماہرین کی برسوں کی برین اسٹارمنگ کا حاصل تھا کہ 2005ء کی عالمی کانفرنس سے قبل اِن کا بحث مباحثہ اس کا پس منظر تھا۔

10ستمبر 2012ء کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کو بالآخر عالمی امن اور عالمی معاشرے کی ایڈوانس ویلفیئر کو یقینی بنانے کے لئے ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کے آئینِ نو کو بطور بین الاقوامی ایجنڈا اختیار کر لیا گیا۔

2005ء سے 2012ء تک اس عظیم کارِ خیر پر عالمی اتفاق کرنے میں 7سال کیوں لگے؟ اس لئے کہ یہ (سلامتی کی نئی اپروچ) اسلحے کی دوڑ اور ہلاکت خیز اور تباہ کن اسلحے کی تیاری اور فروخت کی صنعت کو ختم کرنے کا علمی اور اب سیاسی چیلنج بنتا جا رہا تھا۔ اسلحہ تیار کرنے والے طاقتور ممالک کے ’’قومی مفادات‘‘ خطرے میں پڑتے نظر آ رہے تھے لیکن انسانیت کی فلاح اور تازہ افکار پر مبنی ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کی علمی نظری بنیاد اتنی طاقتور ہے کہ اس سے ’’مہذب طاقتوں‘‘ کے انکار کی کوئی صورت نہیں بن سکتی تھی، بس وہ اس کی مزاحمت 7سال تک ہی کر سکتی تھیں۔

سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا یہ (ہیومن سیکورٹی) نیا ایجنڈا جو سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے )سلامتی کے خطرات سے دوچار ممالک کو مجبور کرنا ہے) اس سرمائے کا رخ ریاست کے عوام کی ایڈوانس ویلفیئر کی طرف موڑ سکتا ہے؟ جی نہیں ہنوز دلی دور است، دِلی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے تو یوں لگتا ہے کہ عالمی امن اور انسان کی ایڈوانس ویلفیئر کا خواب دیکھنے والی دنیا کبھی بھی ’’دلی نہیں پہنچ سکے گی‘‘۔ دنیا میں اسلحے کی دوڑ تیز تر ہو رہی ہے۔ سامراجی سوچ تیزی سے بحال ہو رہی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کا جو عمل تیزی سے شروع ہوا تھا، وہ اسرائیل کی وسعت، جنوبی افریقہ اور نمیبیا کی آزادی اور حقِ خود ارادیت کے حصول کی بنیاد پر جنوبی سوڈان اور ایسٹ تیمور کے بطور نیشن اسٹیٹ قائم ہونے کے بعد ریورس ہوتے ہوتے بحال ہو گیا۔ فلسطین اور کشمیر اس (حقِ خود ارادیت) سے محروم ہی نہیں رہے، جنہوں نے محروم کیا ان کے ظالمانہ چنگل میں ہیں اور اسلحہ بیچنے اور خریدنے والے طاقتور ممالک کی وحشیانہ پالیسیوں اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے ہیں۔ کیا یہ واقعی بھینٹ چڑھ گئے یا اس نئے ماڈل کی سامراجیت کی جکڑ بندی سے نکل پائیں گے؟

جو کچھ اسرائیل اپنے ناجائز قبضے اور ناجائز مملکت کے بعد وسعت پذیری اور مذہبی بنیاد کی اپروچ پر کر رہا ہے، عالمی اور علاقائی امن کے لئے نئے پُرخطر اہداف، جس کی تقلید بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کے غالب پارلیمانی طاقت میں تبدیل ہونے کے بعد آسان تر تو ہو گئی ہے لیکن خود بھارت کی سلامتی کے لئے اتنا بڑا ہی چیلنج بھی، جو مودی کے فاشسٹ اقدامات سے پیدا ہوا۔ ’’ہیومن سیکورٹی‘‘ کا فلسفہ تو بین الاقوامی ایجنڈا بننے سے پہلے ہی سکینڈے نیوین ریجن (ناروے، سویڈن، ڈنمارک اور آئس لینڈ) تک ہی اختیار ہو سکا، کچھ مغربی یورپی ممالک اس کے بینی فشری ہیں۔

عالمی سیاست کے تمام تر رجحانات اور ان سے بنتی طاقتور ہوس گیر ممالک کی پالیسیاں اور ان کے مطابق الیکشن مکمل واضح کر رہے ہیں، اپنے مقصد عظیم اور تمام تر حسن کے باوجود یہ دنیا کو کوئی فیض نہ پہنچا سکے گا۔ آخر اسرائیل، بھارت پہنچ کر پاکستان کے خلاف ہماری سلامتی کا یقینی دشمن کیوں بنتا جا رہا ہے؟ اس شیطانی کھیل سے پاکستان کو اپنی آخری عسکری صلاحیت کے استعمال کے لئے تیار نہیں کیا جا رہا؟ اور بھارت نے کشمیر پر ایڈوانس ہیومن ویلفیئر کے برعکس جو وحشت ناک حملہ کیا ہے، اور جو مسلسل جاری ہے اس پر عالمی رویہ بتا رہا ہے کہ دلّی ابھی بہت دور ہے۔

گزشتہ مردم شماری میں بھارت میں 16لاکھ مسلمانوں اور غیر ہندوئوں کو مرکزی دھارے سے کاٹ کر مخصوص ’’رجسٹرڈ شہری‘‘ بنا دیا ہے، کرناٹک کے ساڑھے 6کروڑ لنگائے اور ساڑھے تین کروڑ سکھ آبادی کو ان کی مرضی کے خلاف زبردستی آئینی طور پر ہندو بنا دیا گیا ہے۔ جس کے خلاف لنگائے مذہب کے رہنمائوں کی 60احتجاجی درخواستیں انڈین یونین کے ریکارڈ پر ہیں اور سکھ مذہب کا انندپور ریزولیشن، خالصتان کے قیام پر انہیں مذہباً پابند کر چکا ہے۔

مردم شماری میں ہونے والی بھارتی حکومتی دھاندلیاں اقلیت کی طرف سے ہر مردم شماری اور اس کے بعد مسلسل چیلنج ایبل رہتی ہیں، لیکن یونین کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ امر واقع یہ ہے کہ بھارت کی اقوام متحدہ کی کشمیر پر اور اسرائیل کی فلسطین پر قراردادوں کے خلاف مزاحمت سب سے طویل اور نتیجہ خیز ہے۔ اب مودی کی ہندو بنیاد پرست حکومت نے اپنے ہی ملک میں’’ہیومن سیکورٹی‘‘ پر سب سے بڑا حملہ کیا ہے اور بھارتی سرمائے کا تمام تر رخ اسی حملے کی طرف کر دیا ہے۔ ایسے میں کون بھارت میں سرمایہ کاری کرے گا؟

پاکستان کو چیلنج ہے وہ یہ کہ اس نے موجودہ عالمی سیاست کے تلخ حقائق میں اپنی روایتی سلامتی کے مطابق سرحدوں کی بھی حفاظت کرنا ہے اور اپنے قیام کے مقصد کے مطابق ملک کو فلاحی ریاست بھی بنانا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)