شدید مہنگائی کے باوجود اپوزیشن تحریک چلانے میں ناکام کیوں؟

September 05, 2019

بھارتی وزیراعظم کے مقبوضہ کشمیر میں تازہ ترین ظالمانہ اقدامات مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں زندہ کر دیا کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف پوری پاکستانی قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے وزیراعظم عمران خان کے پاکستانی قوم کو جمعہ کے روز باہر نکلنے کی جو کال دی تھی وہ انتہائی کامیاب ہوئی ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کے طلبہ و طالبات محنت کشوں، سرکاری و غیر سرکاری ملازمین اور ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور بزرگوں نے ریلیاں، جلسے و جلوس نکال کر کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی اور مودی ک خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا اور پوری دنیا کو ایک موثر پیغام دیا وہ وقت قریب ہے جب بھارت کو مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑے گا وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مختلف ممالک کے حکمرانوں اور وزرائے خارجہ سے بات کی اور انہیں بھارتی حکومت کے نہتے کشمیریوں پر مظالم سے آگاہ کیا اور تمام بیرونی حکمرانوں نے اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالشی کی پیشکش کی مگر بھارت نے ثالشی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ ضرورت ہوئی تو پاکستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر لیں گے چنانچہ پاکستان نے بھارت کو مذاکرات کی مشروط پیشکش کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان 23 ستمبر سے امریکہ جا رہے ہیں اور اقوام متحدہ میں خطاب کرنے کے علاوہ غیر ملکی سربراہوں سے ملاقاتیں بھی کریں مگر وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ سے قبل متعدد ممالک کے دوروں کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ موقف سے آگاہ ہوں ایسا لگتا ہے قدرت کو یقیناً اپنے بندوں پر رحم آئے گا اور انشاء اللہ مسئلہ کشمیر جلد حل ہو گا بھارت کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ناگا لینڈ نے تو باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے آسام میں 22 لاکھ مسلمانوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی ہے چند 5 ریاستوں کو چھوڑ کر باقی تمام ریاستیں انتہا درجے کی غربت، بیروزگاری علاج معالجے کے علاوہ دیگر بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں عالمی طور پر بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں آسام میں گڑ بڑ کو روکنے کے لئے 82 ہزار فوج تعینات کر دی گئی ہے ظاہر ہے فوج اس وقت تعینات کی جاتی ہے جب حالات انتہائی ابتر ہو جائیں مگر بھارتی فوج میں پاکستانی فوج کی طرح اتنی صلاحیتیں موجود نہیں کہ وہ شورش کو کنٹرول کر لیں اسکے برعکس پاکستانی فوج نے بھارت کے تربیت یافتہ اور اسلحہ سے لیس دہشت گردوں پر قابو پایا ۔عمران خان حکومت بڑی خوش قسمت ہے شدید مہنگائی کے باوجود عوام اپوزیشن کے کہنے پر سڑکوں پر آنے کے لئے تیار نہیں نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کی کسی کال پر کان دھر رہی ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت کوئی اپوزیشن پارٹی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنسیں ناکامی کا شکار ہوئی جبکہ آخری آل پارٹیز کانفرنس میں تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا کوئی بڑا لیڈر شریک نہ ہوا جس سے مولانا فضل الرحمان نے شدید غصے کے عالم میں اپنے طور پر اسلام آباد کو بند کرنے کا اعلان کر دیا در حقیقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنی اعلیٰ قیادت کے جیلوں میں جانے سے سخت پریشان ہے وہ اپنی پوری قوت میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری فریال تالپور کو جیلوں سے ہسپتال منتقل کرنے پر صرف کر رہی ہے دونوں بڑی پارٹیاں اپنے قائدین اور دیگر رہنمائوں کی گرفتاریوں پر بعض پریس کانفرنسوں اور بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں بلاول بھٹو سندھ اور گلگت بلتستان میں جلسے کر رہے ہیں اور انکے جلسوں کو بہتر قرار دیا جا سکتا ہے مگر یہ عوامی جلسے کسی حکومتی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں ہو سکتے ویسے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کے بعد اپوزیشن تذبذب کا شکار ہے مریم نواز جو کچھ عرصہ قبل سخت بیانات دیکر ہلچل مچانے کی کوششیں کرتی رہی ہیں مگر گرفتاری کے بعد وہ خود اسکے دوران مکمل خاموش ہیں۔ میاں شہباز شریف بہت سمجھدار سیاستدان ہیں وہ حالات کے مطابق چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ مریم نواز کی جارحانہ پالیسی سے متفق نظر نہیں آتے مگر انہیں علم ہے کہ عوام سڑکوں پر آنے کیلئے تیار نہیں تو چند سو کارکنوں اور عہدیداروں کو مشکل میں ڈالنے کا کیا فائدہ !مگر مریم صاحبہ نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی اور آخر وہ خود بھی جیل چلی گئیں اور اب نیب اور ایف آئی اے کی انکوائریاں بھگت رہی ہیں۔ وفاقی وزیر شیخ رشید ہمیشہ سیاسی پیش گوئیاں کرتے ہیں کچھ تو درست ثابت ہوئی ہیں مگر کچھ بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ اُن کی تازہ ترین پیش گوئی ہے کہ مسلم لیگ ن کئی ٹکڑوں میں بٹ جائے گی اور ان دھڑوں کی قیادت میاں شہباز شریف یا چوہدری نثارکریںگے ہمیں ان کی پیش گوئی کے درست ہونے کا انتظار رہے گا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ستمبر، اکتوبر میں مزید رہنمائوںکے جیل جانےکا امکان ہے جس سے اپوزیشن مزید کمزور ہو گی۔ عمران خان حکومت کو اگر خوش قسمتی سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں مگر انہیں بھی عوام کو مہنگائی سے چھٹکار دلانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی اچھا اقدام ہے مگر چینی، گھی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں سرکاری طور پر اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام کے دلوں میں لاوہ پک رہا ہو اور وہ اچانک پھٹ پڑے اور حکومت اس میں بہہ جائے۔ عوام کو زیادہ عرصہ اس بات سے بھلایا نہیں جا سکتا کہ سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے یہ مہنگائی کرنا پڑی ہے۔ عوام یہ پوچھنے میںحق بجانب ہیں کہ ایک سال سے گرفتار اُن سیاستدانوں نے اب تک لوٹی ہوئی دولت سے کتنا پیسہ ریکور کیا ہے، انہیں قید میں رکھنے کا کیا حاصل ہوا ہے۔