جنرل اختر حسین ملک

September 07, 2019

تحریر:راجہ عطا المنان۔۔۔لندن
‎6ستمبر کا دن پاکستان میں یوم دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے-‎اس کی اہمیت امسال اس وجہ سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کچھ ماہ سے جاری کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب انڈیا نے آرٹیکل 360کو revoke کر کے کشمیر میں کرفیو لگا دیا اور کشمیری عوام پر ظلم اور جبر کی یہ داستان کئی ہفتوں سے جاری ہے اور دو ممالک کے درمیان تناؤ سخت ہوتا جا رہا ہے اور جنگ کے سائے سروں پر منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ‎جنگ کبھی مسائل کا حل تھی اور نہ ہے لیکن جب کسی ملک پر حملہ کر دیا جائے یا قبضہ تو اس ملک کے باشندوں کا اپنا دفاع کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ ‎کچھ ایسا ہی ستمبر 1965 میں ہوا اور ہندوستانی فوج نے پاکستان پر مختلف محازوں پر حملہ کر دیا۔ پاکستانی فوج نے بڑی مہارت اور دلیری سے اپنے سے کئی گناہ بڑی فوج کا مقابلہ کیا اور دشمن کو منہ کی کھانا پڑی۔‎آج میں اسی جنگ کے ایک ہیرو اور پاکستانی فوج کے جوانمرد جانباز کا ذکر کروں گا۔اس کا نام جنرل اختر حسین ملک ہے۔ آپ ملک غلام نبی اعوان جو ایک سکول ہیڈ ماسٹر تھے کے گھر پنجاب کے ایک گاؤں پنجوڑی میں پیدا ہوئے۔آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں چلے گئے اور اپنی تعلیم اور ذہانت کی بنیاد پر جلد ہی آفیسر ٹریننگ کے لئے بھیج دئیے گئے اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر کمیشن حاصل کیا۔‎تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستانی فوج کا حصّہ بنے۔آپ ایک انتہائی قابل،دلیر، پر اعتماد، حاضر جواب اور ہر دلعزیز شخصیّت کے حامل تھے اور آرمی کے رینکس میں آپ کی بڑی عزت تھی۔ ‎آپ خاص طور پر آپرشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام کے ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔‎رن آف کچھ میں کامیابی کے بعد آپریشن جبرالٹر کے ذریعہ پاکستانی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی مدد سے انڈین آرمی کو پیچھے دھکیلنا چاہا۔ اسکے جواب میں انڈیا نے آزاد کشمیر میں حملوں کی کوشش کی۔ ‎پاکستان آرمی نے یکم ستمبر 1965کو آپریشن گرینڈ سلام لاؤنچ کیا۔ اسکا مقصد 12th division سے پریشر ہٹانا تھا کیونکہ انڈیا بار بار حملہ کر رہا تھا اور پاکستان مظفر آباد کو بچانا چاہتا تھا۔‎ اکھنور سیکٹر کو چار انڈین انفینٹری بٹالین دفاع کر رہی تھیں۔ پاکستانی فوج کی کمانڈ اس عظیم جرنیل کے ہاتھ میں تھی اور آپ 12th Infantry Division کے GOC تھے اور اس قوت اور حکمت سے حملہ کر کے چمب جوڑیاں پر بہادری سے لڑے اور اکھنور پر قبضہ کر لیا اور انڈین فوج کو پیچھے دھکیل دیا اور ایسی پوزیشن پر آ گئے جہاں سے انڈیا کو مقبوضہ کشمیر سے راستہ کاٹ دیا جائے اور ترسیل روک دی جائے۔ ایسے میں صدر ایوب خان کے ایک غلط فیصلے نے کامیابی کے آخری مراحل میں صورتحال بدل دی جس میں جنگ کے دوران ہی اکھنور میں فوج کی کمان چینج کر دی گئی اور جنرل اختر ملک کی جگہ جنرل یحیٰی کو کمان دے دی گئی۔ اس میں جو وقت لگا اس سے انڈین فورسز کو دوبارہ اپنی پوزیشن بہتر کرنے کا اور مزید کمک حاصل کرنے کا موقع مل‎ گیا۔‎اس بارے میں پاکستان کے ایک جانے پہچانے لکھاری قدرت اللّٰہ شہاب نے لکھا کہ ایک ایسے وقت میں جب جنرل اختر ملک اکھنور کے راستے جب سری نگر میں داخل ہونے والے تھے۔ ان کو غلط وقت پر تبدیل کر کے جنرل یحیٰی کو کمان دے دی گئی اور مقصد شاید یہ تھا کہ پاکستان اکھنور میں مزید کامیاب نہ ہو اور یحیٰی خان نے یہ کام اچھے طریقہ سے کیا۔‎ ذوالفقار علی بھٹو نے اس بارے میں کہا کہ اگر جنرل اختر ملک کو چھمب جوڑیاں میں نہ روکا جاتا تو انڈین آرمی کو اور زیادہ نقصان ہونا تھا لیکن ایّوب خان اپنے چہیتے جنرل یحیٰی خان کو ہیرو بنانا چاہتے تھے۔‎بحوالہ Pakistan's Drift into Extremism: Allah, the Army, and America's War on Terror By Hassan Abbas Pg 51 اور‎‏* General Akhtar Hussain Malik, Daily Imroze, Lahore, 22 August 1971‎جنرل اختر حسین ملک 1941 سے 1969 تک سروس میں رہے اور 22 اگست 1969 کو وفات پائی۔آپ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدہ پر فائز تھے اور 1947 اور 1965 کی جنگ میں حصہ لیا اور آپ کو فاتح اکھنور کے ٹائٹل سے بھی جانا جاتا ہے۔‎آپ کی بہادری اور کارناموں کو سراہتے ہوئے آپ کو دوسرے بڑے فوجی اعزاز ہلال جرأت سے نوازا گیا۔‎آخر میں حملہ آور ملک کے وزیر اعظم کے الفاظ پر میں اس مختصر تعارف کو ختم کرتا ہوں جہاں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے یہ کہا کہ کسی بھی حال میں جنرل اختر حسین ملک کو ختم کرو کیونکہ وہ ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر ہمارے ٹھکانوں پر نشانے لگوا رہا ہے۔‎ لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک قوم کے ایک ایسے ہیرو تھے جن کا نام پاکستانی بچوں کو بھی یاد ہے۔ وہ بہادری اور استقامت اور اولوالعزمی کی ایک مجسم تصویر بن کر ابھرے اور اہل پاکستان کے ذہنوں پر چھا گئے۔‎(روزنامہ جنگ کراچی 9 ستمبر 1969ء صفحہ4)‎جماعت احمدیہ کے ایک مشہور مخالف شورش کاشمیری نے جنرل اختر حسین ملک کے حق میں یوں مدح سرائی کی۔
‎دہلی کی سر زمیں نے پکارا ہے ساتھیو
‎اختر ملک کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلو
‎گنگا کی وادیوں کو بتا دو کہ ہم ہیں کون
‎جمنا پہ ذوالفقار چلاتے ہوئے چلو
‎اس کے سوا جہاد کے معنی ہیں اور کیا؟
‎اسلام کا وقار بڑھاتے ہوئے چلو‎
(رسالہ چٹان 13 ستمبر 1965ء صفحہ 6)