باریک چھلنی، فخرو بھائی اور نظریہ ضرورت

February 12, 2013

راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے شہرسے کوسوں دور لاہور کی نواحی بستی میں میرا ہمسایہ بننے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس پرسکون بستی کو سیاسی آلائشات کی نذرکرنامقصودتھا؟ یا یہاں دوسرے شہروں کی طرح احتجاجی مظاہروں، دھینگا مشتی، ٹریفک جام اور بدنظمی کو فروغ دینا مطلوب تھا کہ میرا اوردیگرہمسایوں کاسکون برباد ہو؟
یہ روایت مگر حد درجہ ثقہ بلکہ آنکھوں دیکھی ، کانوں سنی ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے قائد قلعہ نما بلاول ہاؤس کی تعمیر اورسجاوٹ پرخون پسینے کی کمائی لٹارہے تھے، انہی دنوں میاں نواز شریف کے برادر خوردمیاں شہبازشریف زندہ دلان لاہور کوسفری سہولتیں فراہم کرنے کیلئے میٹروبس سروس کے منصوبے کی تکمیل میں مصروف تھے۔ شاید یہ دیہی اورشہری سوچ کافرق ہے۔
شریف برادران اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے دورِ اقتدارمیں بننے والے منصوبے مکمل ہوتے اور یہ ان کا پھل کھاتے ہیں۔ موٹروے اورمیٹروبس سروس نمایاں مثال ہے۔ ایٹمی پروگرام کے لئے ریاضت کسی اور نے کی، امریکی عتاب کا نشانہ بنے مگر 1998 میں ایٹمی تجربات کاسہرا میاں نوازشریف کے سر سجا۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ق) والے کوئی ڈھنگ کامنصوبہ بنائیں بھی تودوران اقتدار مکمل نہیں کرپاتے۔ کراچی ماس ٹرانزٹ اور لاہور میں انڈرگراؤنڈ ریلوے کے منصوبے شاندار تھے مگر فائلوں میں دفن ہوگئے۔ چودھری پرویز الٰہی کاصدقہ جاریہ 1122البتہ جاری ہے۔
میٹروبس میں سفر کے دوران جابجا سڑکوں اور چھتوں پرمرد وخواتین اور بچوں کو دیکھ کر مسافر بالخصوص مسلم لیگی شاداں تھے۔ اس پر ایک کالم نگار نے توجہ دلائی کہ بسنت کے موسم میں پتنگیں لوٹنے والے شوقین اور تماشائی آ ج میٹروبس کا نظارہ کررہے ہیں کہ اس میں لٹنے کا اسباب کس قدر ہے۔ ماضی میں اربن ٹرانسپورٹ، کارڈ سسٹم، پی سی اوز اور مال روڈ و لبرٹی مارکیٹ میں الیکٹرانک پارکنگ سٹینڈ سے لاہوری جوسلوک کر چکے ہیں وہ پرانی بات نہیں۔ میٹرو منصوبے کیخلاف تومنظم سیاسی اور ابلاغی مہم بھی جاری ہے اور اسے دیگر شہروں کی حق تلفی قرار دیاجارہا ہے۔
میٹرو بس کے معمار اور مسافر ہوں یا اسے فلاپ منصوبہ قرار دینے والے سیاستدان اور دانشور دونوں کے بحث مباحثے کااصل موضوع ان دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل پر ڈاکٹر طاہر القادری کے آئینی وقانونی اعتراضات ہیں جن کی تائید اب عمران خان اور بہت سے آئینی و قانونی ماہرین بھی کرنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان گھر کے بھیدی ہیں اس لئے ٹی وی انٹرویوز میں خوب لنکا ڈھا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو جوں کا توں برقرار رکھنے اور تیس چالیس دنوں میں پیچیدہ انتخابی عمل جیسے تیسے مکمل کرکے اقتدار منتقل کرانے کے حامی زچ ہوکرعدالت ِ عظمیٰ کویہ ترغیب دینے لگے ہیں کہ آئین جائے بھاڑ میں وہ نظریہ ضرورت کے تحت طاہرالقادری کی پٹیشن مسترد کرکے ”جمہوریت پسندوں“ سے خراج تحسین وصول کرے۔
ہرمعاملے میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت کاڈھنڈورا پیٹنے والوں کو الیکشن کے التوا کاخدشہ تو محسوس ہو رہا ہے مگر وہ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ آخر اس وقت امریکہ پاکستان میں جلدازجلد انتخابات پراصرارکیوں کررہاہے؟ وہ انتخابی امیدواروں کی پیشگی جانچ پڑتال اور بدنام زمانہ کرپٹ افراد کے انتخابی عمل سے اخراج پرراضی کیوں نہیں؟ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں امریکہ کی مدد نہ کرنے اوروزارتِ خارجہ سے استعفیٰ دینے والے مخدوم شاہ محمود قریشی کے خلاف الزام تراشی کی مہم میں اچانک تیزی آگئی ہے؟ تبدیلی کا نعرہ لگانے اور پرجوش و پرعزم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے والے عمران خان اور ڈاکٹرطاہر القادری کو کسی مشترکہ انتخابی پلیٹ فارم کی تشکیل سے روکنے اور دونوں کوتنہا پروازکے مشورے دینے والوں کے مقاصدکیا ہیں اور عمران خان پراندرونی اور بیرونی دباؤ کیوں بڑھ گیا ہے کہ وہ تنہا انتخا ب لڑیں اور نوجوان نسل کی مایوسی میں اضافہ کریں؟ لیکن شیخ الاسلام کی قبائے فضیلت تار تارکرنے سے کسی کو فرصت ملے تو وہ غور بھی کرے۔
جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی نیک نامی اور غیرمتنازع شخصیت کو مخصوص نوعیت کے انتخابی نتائج کی نقاب پوشی کا ذریعہ بنانے والوں کے عزائم تو واضح ہیں کہ 2008 کی طرح مغرب نواز حکومت تشکیل پائے اور سپریم کورٹ بھی ایک بار پھر نظریہ ٴ ضرورت کو زندہ کرے مگر کیا نظریہٴ ضرورت نے موت سے حیات کا سفرطے کیا توصرف خاندانی اور موروثی سیاست کے ہاتھ کی چھڑی بنے گا یاچھڑی والوں کے جیب کی گھڑی بھی؟ یہ سوال اہم ہے مگر کسی کی زبان پر نہیں۔
1997 میں صدر فاروق احمد خان لغاری نے نادہندگان کے بارے میں ترمیمی آرڈی ننس جاری کیا توجسٹس (ر) فخر الدین ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ اب ان کی سربراہی میں الیکشن کمیشن الزامات کی زد میں ہے۔65 کروڑ روپے کی کھسر پھسر انہوں نے بھی سنی ہوگی۔ ڈاکٹرشاہد مسعود کے پاس اوربھی بہت سی معلومات ہیں جنہیں وہ کسی وقت افشا کریں گے۔ امیدواروں کی چھان پھٹک کے لئے آئینی دفعات کو غیرموثرکرنے کی مہم شدومد سے جاری ہے اور انتخابی اصلاحات کا جومسودہ الیکشن کمیشن نے حکومت کوبھیجا وہ تاحال قانونی شکل اختیارنہیں کرسکا۔ اطلاعات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اپنی ساکھ اور الیکشن کمیشن کا اعتبار برقراررکھنے کیلئے جانچ پڑتال کی سخت اورباریک چھلنی استعمال کرنے کے حق میں ہیں مگر تعاون ڈاکٹر طاہر القادری کے سوا کہیں سے نہیں مل رہا۔ ایسی صورت میں شریف النفس چیف الیکشن کمشنر کیلئے استعفے کے سواکوئی چارہ نہیں تاکہ وہ اپنے ضمیراور قوم کے سامنے سرخرو رہیں۔
کل کلاں کوکوئی یہ بھی نہ کہہ سکے کہ صدر آصف علی زرداری لاہور کے نواحی قلعہ نما گھر میں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔ میاں شہباز شریف میٹروبس دوڑانے میں مگن، نواحی بستی کے مکینوں اورپولیس اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں تلاشی اور احتجاجی مظاہرین کی ہنگامہ آرائی کاسامنا تھا مگر ایک بااصول اورایماندار سابق جج کے ساتھ کیا گزری کہ عمربھر کی کمائی سیاست کے کھیل میں لٹ گئی کسی کوخبر تک نہ ہوئی۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نیک نام سربراہ اور ارکان یہ نوبت نہیں آنے دیں گے اور انشاء اللہ نظریہ ٴ ضرورت بھی کفن پھاڑ کر بولنے سے رہا۔