ننھا سپاہی

September 07, 2019

علی اکمل تصور

وہ فوجی وردی میں ملبوس تھا، اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ موجود تھی۔اس کے ہر اٹھتے قدم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جارہی تھیں۔ وہ چھٹی پر گھر واپس آ رہا تھا۔ اس کی واپسی پر خوشی کا یہ عالم تھا کہ پورے محلے میں چراغاں کیا گیا تھا۔اس کی ماں گھر سے باہر اس کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھی، ماں نے اپنے فوجی بیٹے کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔ ننھا دانش اپنی امی کے پہلو میں کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ فرط جذبات سے بولا ،’’امی ،امی‘‘ ۔’’ہوں‘‘ امی بھی اس منظر کے سحر میں گم تھیں۔ ’’میں بڑا ہوکر فوجی بنوں گا‘‘دانش پرعزم لہجے میں بولا۔

’’ ضرور بننا میرے بچے‘‘ اس کی امی نےجواب دیا۔ اس واقعے کو ابھی ایک ہفتہ گزرا تھا کہ،اس فوجی کی چھٹی منسوخ ہوگئی تھی کیونکہ پڑوسی ملک کے ساتھ حالات کشیدہ ہوچکے تھے اور دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں سرحد پر تعینات کردیں تھیں ۔محلے کے تمام لوگوں نے اسے دعائوں کے سائے میں رخصت کیا، اس کی اچانک رخصتی پر سب کی آنکھیں نم تھیں، مگر اس کی ماں صغریٰ مسکرا رہی تھی۔ ا س نے کہا،’’جا بیٹا رب کے حوالے‘‘۔ وہ فوجی جوان دھرتی ماں کے دفاع کے لیے روانہ ہوگیا ۔

سرحد پر پڑوسی ملک جارحیت سے باز نہیں آرہا تھا ، پاک فوج کے جوان اسے منہ توڑ جواب دے رہے تھے۔ اماںصغریٰ کا بیٹا اولین صف میں لڑ رہا تھا۔ مشین گن کی فائرنگ سے اس نے دشمن کی پیش قدمی روک رکھی تھی۔ دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور تھا ۔ پاک فوج کے جوان بھاگتے دشمن کا تعاقب کررہے تھے۔ دشمنوں نے بوکھلا کر ٹینک سے ایک گولہ داغا ۔وہ خون میں نہا گیا ،اس نے زخمی حالت میں بھی مشین گن پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور دشمن پر آگ و آہن برساتا رہا ۔جلد ہی وہ زخموں کی تاب نہ لانے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچ چکا تھا، جس کی آرزو ہر سپاہی کے دل میں ہوتی ہے ۔

چھ فوجی جوانوں نے اس کا تابوت اٹھا رکھا تھا ۔ اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جارہی تھیں ۔ہر چہرہ سوگوار تھا ۔ ہر آنکھ نم تھی۔ دانش کی امی بھی رورہی تھیں،مگر شہید ہونے والے فوجی کی ماں کے چہرے پر بلا کی طمانیت تھی۔ شہید کی ماں نے تابوت میں لگے شیشے سے اپنے بیٹے کا دیدار کیا۔ اشارے سے اسے بوسہ دیا اور بولی،’’ جا بیٹا تجھے رب کے حوالے کیا‘‘۔

دانش ابھی دس سال کا چھوٹا بچہ ہی تو تھا ۔ اس نے ان مناظر کا گہرا اثر لیا تھا ۔ رات سونے سے پہلے اس نے اپنی امی سے پوچھا،’’ امی،’’ فوجی انکل کو کیا ہوا؟ ‘‘

’’ وہ پاک وطن کا دفاع کرتے ہوئےشہید ہوگیا ‘‘۔ امی کی آواز میں درد تھا ۔

’’میں بھی بڑا ہوکر شہید بنوں گا‘‘ اس کی بات سن کر امی تڑپ کر رہ گئی اور اپنے لخت جگر کو آغوش میں لے لیا۔

دانش ماں کے ردعمل پرحیران ہوا اور کہنے لگا کہ،’’ امی، صغریٰ خالہ تو اپنے بیٹے کے شہید ہونے پر نہیں روئیں‘‘۔

’’ چپ کر جا دانش‘‘۔ اس کی ماں جھنجھلا کر بولی۔

اگلے دن دانش خود ہی صغریٰ خالہ کے ہاں چلا گیا۔’’خالہ، ’’ میں بڑا ہوکر فوجی بنوں گا اور آپ کے بیٹے کی طرح شہادت حاصل کروں گا‘‘۔

صغری نے دانش کو فرط محبت میں اپنی آغوش میں لے لیا اور اسے خوب پیار کیا۔’’میں قربان میرے بچے ، اللہ تجھے سلامت رکھے۔‘‘ صغری کے چہرے پر ایک سوگوار سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’خالہ،ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔‘‘ دانش کچھ سوچتے ہوئے بولا،’’ وہ کیا بیٹا‘‘۔ خالہ صغریٰ نے پوچھا، ’’ آپ اپنے بیٹے کی شہادت پر نہیں روئیں تھیں لیکن جب میں نے اپنی امی سے شہید بننے کا ذکر کیا تو وہ زاروقطار رونے لگیں ، ایسا کیوں ہے ؟

وہ اس لیے بیٹا کہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے ، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں،مگر ہمیں ان کی زندگی کا ادراک نہیں ہے ۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ۔ میرا بیٹا وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوا ہے ۔ وہ زندہ ہے‘‘۔

’’دفاع خالہ صغریٰ خالہ کی بات سن کر دانش چونک پڑا ’’دفاع کا ذکر تو امی نے بھی کیا تھا ،یہ دفاع کیا ہوتا ہے؟

’’ بیٹا ، جب دشمن ہماری سرحدوں پر یا ہمارے ملک پر حملہ کرے تو اس کو ایسا کرنے سے روکنا اور د او ان سے مقابلہ کرانا ہی وطن کادفاع کہلاتا ہے ۔‘‘

’’اچھا اچھا سمجھ گیا،دفاع سرحد پر کیا جاتا ہے اور یہ کام فوجی ہی کرتے ہیں ‘‘۔

’’نہیں بیٹا دفاع ہم سب کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔‘‘

’’میں سمجھا نہیں خالہ جان‘‘۔ دانش نے حیران ہوکر کہا۔

’’ اسکول جانا اور تعلیم حاصل کرنا تم پر فرض ہے جومحرکات تمہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکیں وہ تمہارے دشمن ہیں اور ان محرکات سے اجتناب اور گریز بھی دفاع کی ایک قسم ہے ۔‘‘خالہ نے سمجھانے کی کوشش کی۔

گرمیوں کے دن تھے، گھر کے تمام افراد چھت پر سورہے تھے۔ ایک رات کھٹکے کی آوازسے دانش کی آنکھ کھل گئی ، اس سے سر اٹھا کر دیکھا گھر کے تمام افراد سورہے تھے۔وہ اسے اپنا خیال سمجھا۔اس نے پھر کھٹکے کی آواز سنی۔ کھٹ پٹ کی آواز پڑوس سے آرہی تھی۔ وہ چپکے سے اٹھا اور منڈیرسے پڑوس کے گھر کے صحن کا منظر دیکھا وہ یوں پیچھے ہٹا ،جیسے اس کا ہاتھ بجلی کے ننگے تار سے چھو گیا ہو ۔ وہ چپکے سے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ بغیر آواز پیدا کیے بیرونی دروازے کی کنڈی کھولی اور گلی میں چلا آیا ۔ گلی میں سے نکلتے ہی اس نے سر پٹ دوڑ لگا دی ۔اس کے چاروں طرف اندھیرا اور خاموشی کا راج تھا ۔ موڑ مڑتے ہی وہ سڑک پر چلا آیا ۔ سڑک ویران تھی، اچانک اس نے اپنے عقب میں روشنی محسوس کی، اس نے پلٹ کر دیکھا ۔ یہ گاڑی کی ہیڈ لائٹس تھیں وہ گاڑی کی سمت میں دوڑنے لگا ۔ گاڑی بھی اسی طرف آرہی تھی۔ جیسے ہی وہ گاڑی کے قریب پہنچا ۔ چند افراد کود کر گاڑی میں سے نیچے اترے اور انہوں نے دانش کو دبوچ لیا۔وہ گھبراگیا۔

’’سر،یہ کوئی گھر سے بھاگا بچہ معلوم ہوتا ہے‘‘ ۔ ایک پولیس والے نے کہا۔

دانش نے دیکھاوہ ایک پولیس موبائل تھی ۔’’ڈاکو‘‘اس نے جلد ی سے کہا۔‘‘

’’ڈاکو؟ کہاں ہیں ڈاکو‘‘؟ آفیسر ہنس دیا۔’’ ہمارے پڑوس میں ‘‘دانش نے بتایا ۔ تم نے کیا دیکھا ، انسپکٹر نے اس سے پوچھا ۔‘‘’’ وہ تعداد میں تین ہیںا ور گھر کے افراد کو باندھ رہے تھے ۔‘‘

’’ ٹھیک ہے چلو ۔‘‘ آفیسر نے کہا دانش کی رہنمائی میں پولیس موبائل اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئی ۔ انسپکٹر نے فون پر ہیڈ کوارٹر اطلاع کردی تھی ۔ دانش پولیس والوں کے ساتھ جائے واردات کے سامنے پہنچ چکا تھا۔ انسپکٹر نے دروازے پر دبائو ڈالا ۔ دروازہ اندر سے بند تھا ۔دانش اپنے گھر کی طرف دوڑا وہ دروازہ کھلا چھوڑ گیا تھا ، اس نے دروازہ اندر سے بند کیا اور خاموشی سے اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا ۔

گھر کے تمام افراد پرسکون نیند کے مزے لے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد ایک زوردار دھماکا ہوا ۔ سوئے ہوئے لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ایک عجیب سا شور سنائی دے رہا تھا ۔ پولیس آپریشن کامیاب رہا ، ایک ڈاکو مارا گیا،دو ڈاکو گرفتار ہوچکے تھے۔ پولیس دیوار پھاند کر نوید کے گھر میں داخل ہوئی تھی ۔ لوگ حیران تھے کہ پولیس کو اس کی خبر کیسے پہنچی ۔ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ،’’ آپ لوگ نہیں جانتے کہ اس محلے میں ایک بہادر ننھا سپاہی رہتا ہے‘‘ ۔انسپکٹر نے دانش کو اپنے پاس بلایا اور کہا،’’ یہ ہے،’ بہادر ننھا سپاہی‘ ، جس کی بدولت آج مجرم کیفر کردار تک پہنچے‘‘۔

ساری بات کا علم ہونے پر دانش کے ابو حیرت سے گم صم کھڑے تھے انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ، ایک ڈرپوک بچہ اتنی جرات کیسے کرسکتا ہے ؟۔لوگوں کے ہجوم میں خالہ صغرٰی بھی موجود تھی وہ آگے بڑھی اور دانش کو سینے سے لگا کر بولی،اس میں حیرت والی کون سی بات ہے؟ یہ پاکستانی مسلمان بچہ ہے ۔ انہیںیہ ہمت اور جرات وراثت میں ملی ہے۔