کشمیریوں سے اظہار یکجہتی

September 08, 2019

کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بھر پور اظہار تو پاکستان نے کردیا اور دنیا پر واضح ہوگیا کہ کشمیری تنہا نہیں ہیں اور ان کی جدوجہد آزادی کو پاکستان کی ہر طرح کی حمایت حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ’’کشمیر آور‘‘ منا کر کیا کشمیریوں کے لئے کسی ریلیف کا انتظام کرنے میں بھی کوئی کامیابی حاصل ہوئی کہ نہیں، اس کا جواب تو نفی میں ہے کیونکہ ریاست میں کرفیو بدستور نافذ ہے اور اس میں معمولی سی نرمی بھی نہیں کی جا رہی، 90لاکھ کشمیری مسلمان اس میں گھرے ہوئے ہیں کشمیر کے صرف وہ علاقے کرفیو سے باہر ہیں جہاں مال دار ہندو پنڈتوں اور ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے جس کی دنیا کا کوئی ضابطہ اجازت نہیں دیتا، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر باقی دنیا میں بھی احتجاج ہو رہا ہے، لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ احتجاج کی اس لہر سے بھی بھارت کے حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کیونکہ انہیں بعض ’’مضبوط‘‘ یقین دہانیاں حاصل ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لئے غیر جانبدار مبصرین ریاست میں بھیجے جائیں، لیکن بھارت نے تو اپنے سیاستدانوں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی۔ دنیا سے مبصرین کو وہ کیونکر اجازت دے گا، البتہ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے سرگرم کارکن جو کسی نہ کسی طرح کشمیر پہنچ گئے تھے انہوں نے حالات کی جو تصویر کشی کی ہے وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے۔ ان کے بقول پوری ریاست میں قبرستان کا سا سناٹا ہے اور جیتی جاگتی انسانی بستیاں موت کے منہ میں جارہی ہیں ان حالات کا خود بھارتی سیکورٹی فورسز کے بعض زندہ ضمیر ارکان پر بھی اثر ہو رہا ہے اور وہ ملازمت سے استعفیٰ دے کر کورٹ مارشل کا سامنا تک کرنے کے لئے تیار ہیں۔

پاکستان کے احتجاج اور اظہار یکجہتی کے نتیجے میں اگر مبصرین کی ٹیمیں کشمیر جانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں یا کرفیو کا خاتمہ ہو جاتا ہے تویہ بڑی کامیابی ہوگی۔

5اگست سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے، اسپتالوں میں ادویات نہیں، مریضوں کا علاج معالجہ موقوف ہوکر رہ گیا ہے، ضروری آپریشن بھی ملتوی کر دیئے گئے ہیں، زندہ درگور انسانوں کے لئے خوراک کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔بھارتی سیکورٹی فورسز نے 5اگست سے پہلے ہی ریاست میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کا سلسلہ ختم کردیا تھا، کرفیو کے دوران اخبارات شائع نہیں ہو رہے ، ایک مہینہ گزرنے کے باوجود انٹرنیٹ سروسز بحال نہیں ہوئیں جو پہلے بھی وقتاً فوقتاً بند کی جاتی رہتی تھیں، لیکن اب یہ سلسلہ زیادہ وسیع کر دیا گیا ہے، مخصوص علاقوں میں بہت تھوڑی تعداد میں لینڈ لائن ٹیلی فون کام کر رہے ہیں جن پر بات کرنے والوں کا ہجوم جمع رہتا ہے۔ طویل کرفیو سے بچے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور خوراک نہ ملنے سے ان کی اموات واقع ہو رہی ہیں،میری عالمی تنظیموںسے گزارش ہے کہ وہ اشیائے خوراک اور ادویات لے کر کشمیر پہنچیں،نیزاب تک جو لوگ لاپتہ ہوئے ہیں ان کی فہرست مرتب کرکے ان کے لواحقین کو بتایا جائے کہ انہیں کس جیل میں رکھا گیا ہے، یہ وہ چند ریلیف ہیں جو کشمیریوں کو فوری طورپر درکار ہیں اور ان پر توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی بے شک فیصلہ کن موڑ پر آگئی ہے اور دنیا بھر میں لوگوں کو اس بات سے آگاہی ہو رہی ہے کہ کشمیری کس حال میں ہیں۔پاکستان کے عوام نے ایک بار پھر کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ ان کی جائز، منصفانہ اور مبنی برحق جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی ہر جمعہ کو اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہیں گے، لیکن اس موقع پر حکومت پاکستان کو اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز تر کرنے کی ضرورت ہے ان حالات میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ تھرمیں جلسہ عام کرنے جارہے ہیں، حالانکہ انہیں جلسے کرنے کی بجائے سفارتی طور پر زیادہ سرگرم ہونا چاہئے اور ان ملکوں کے دارالحکومتوں میں ہونا چاہئے جو بھارت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، کشمیر پر پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ سید فخر امام کو بھی بیرونی دوروں پر ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اخباری بیانات ان سفارتی سرگرمیوں کا متبادل نہیں ہوسکتے، جن کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو متاثر کیا جاسکے۔ سلامتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں اگرچہ کشمیر کو ایک بار پھر متنازع معاملہ قرار دے دیا تھا لیکن اس پر مطمئن ہوکر بیٹھ رہنا قرین انصاف نہیں ہے۔ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر ان اقدامات پر غور کیا جائے جو پہلے تو کشمیریوں کی زندگیوں کو بچائیں اور پھر ایسی حکمت عملی اپنائیں کہ یہ خطہ جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں نہ آجائے، جو لوگ ایٹمی جنگ کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتے رہتے ہیں وہ بھی اپنی اداؤں پر غور کریں تو اچھا ہوگا، جنگ کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور ایٹمی جنگ تو اربوں انسانوں کو پل بھر میں نگل جائے گی۔

یورپی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال تشویشناک قرار دیتے ہوئے بھارت سے کہا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کئے جائیں،اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے والے آرٹیکل370اور35 اے بحال کئے جائیں،کشمیر کا مستقبل طے کرنا چاہئے، کرفیو ہٹایا جائے، مودی انتظامیہ کا رویہ افسوسناک ہے، سخت کرفیو کے نفاذ اور مواصلاتی رابطوں کی معطلی کے باعث وادی اور جموں کے پانچ اضلاع کا 1ماہ سے دُنیا سے رابطہ منقطع ہے اور معمولاتِ زندگی بُری طرح مفلوج ہیں، تعلیمی ادارے طلبا و طالبات سے خالی ہیں اور گلیاں و بازار سنسان پڑے ہیں۔