بیمار ہوئے جن کے سبب کیا وہ بدلیں گے پاکستان

February 13, 2013

حکمران اشرافیہ لوٹ سیل سے نہیں تھکے گی۔ پنجاب مقروض،کنگال، شرح نموشرمناک،بے روزگاری عام، تعلیم مفقود،علاج ناپید،جعلی ادویات عام ،صنعت وحرفت جام، زرعی ٹیوب ویل خشک، زراعت مفلوج، قتل و غارت، ڈکیتی، خودکشی، لاقانونیت عفریت بن چکی۔ ارادے خطرناک ، نشانہ پاکستان۔ 1999 میں پاکستان کو جس حال میں چھوڑکر گئے۔ عوام الناس جشن منانے پر مجبور ہوگئے۔ دعویٰ ہے بدل دیاہے پنجاب
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
انتہائی دکھ کی بات ہے جہاں مختلف علاقے صوبے سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہوں کیا وہاں ایک سڑک 100 ارب کی سرمایہ کاری کی متحمل ہو سکتی تھی؟ صوبے کی سالمیت کواس سے جو نقصان پہنچاکیا اس کا ازالہ ممکن ہوگا؟ مولانا عبدالستار خان نیازی ایسے سیاستدانوں کے بارے میں کہا کرتے تھے ”آنکھوں سے اندھی ،نام نور بھری“۔
چند دن پہلے جس دھوم دھڑکاسے 27 کلومیٹر روڈ 55 منٹ میں مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچانے والی جنگلہ ایکسپریس کے افتتاح نے زیادہ ہی متفکر کردیا۔ واہ واہ کے ڈونگروں میں شایدحقائق کوتواجاگر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرے۔اللہ سے یہی دعا ہے پروجیکٹ کامیاب ہو جائے ۔ یہ غریب عوام اور ٹیکس دہندگان کی ہڈیوں سے کشیدکیا مال ہے جو ایک سڑک کی نذر ہو چکا، بہت ظلم ہو گا اگرمنصوبہ ناکام رہا۔ نجانے قائدین کو کونسا احساسِ کہتری ہے کہ قومی وسائل پرترقیاتی کاموں کی تشہیرمیں فیملی پورٹریٹ جزو لاینفک بن چکیں ۔ اہلِ خانہ کی تشہیر فقط اس لیے کہ کاسہٴ گدائی میں ووٹوں کی بھیک چاہیے؟ کیا سیاسی شہرت اور شعبدہ بازی کے حصول کے لیے ہم قومی وسائل کو اپنی سیاست کا ایندھن بنانے کا عمل جاری رکھیں گے؟
پاکستان کی سیاست اور مقتدر طاقتور اشرافیہ کے لطائف اور قصے ہرزبان زدِخاص وعام ہیں۔ ایسی ہزاروں داستانوں میں ایک حکایت ۔ قائدین میں سے ایک جب مسند ِ وزارتِ عظمیٰ پر بیٹھا تووزیراعظم ہاؤس کے دورے سے شروعات ہوئیں۔ محل کے ایک کمرہ میں مشاہیرانِ ملت کی پورٹریٹس سجی تھیں۔ نو منتخب وزیراعظم نے استفہامیہ انداز میں تصاویر کی طرف اشارہ کیا تو جواب ملا کہ یہ ہمارے وہ ہیروزہیں جن کے کارناموں سے ہمارا درخشاں ماضی مزین رہا ۔ تجسس پر جب تصاویر متعارف ہوئیں۔ تو بتایا گیا ظہیر الدین بابر کس طرح سن ِبلوغت سے پہلے ہی اقتدار کی کشمکش سے دوچاررہا۔ بالآخرمحنت ، دلیری،معاملہ فہمی اور ذہانت سے عظیم مغلیہ سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ شیر شاہ سوری کی پورٹریٹ پربتایا گیا کہ یہ جنگجو پٹھان صرف چھ سال اقتدار میں رہا لیکن مملکت اور مخلوق کی کایاپلٹ گیا۔گڈ گورننس، نظم و نسق،ضوابط اورمواصلات کا مثالی نظام متعارف کرایا ۔ تجارتی سڑک اپنے وقت کا عجوبہ کہلائی۔ لاگت نہ ہونے کے برابر رہی کیونکہ اکثر جگہ اپنی مدد آپ کے اصول پر بنی۔ وزیراعظم محترم جو بہت کچھ سمجھ نہیں پا رہے تھے متاثر ہوکر سوال داغا یقینا سڑک ہزاروں میل لمبی ہو گی۔مثبت جواب پاکر گویا ہوئے کہ”اس کا مطلب ہوا سوری صاحب نے لمبا ہی مال بنایا ہوگا“۔ حکایت کے جھوٹ سچ سے قطع نظر کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں کہ ہمارے قائدین کی ”دیانتداری“ کے اوپر ایسے بے شمار لطائف اور داستانیں ”لوک کہانیاں“بن چکی ہیں۔سوال یہ نہیں کہ بقول پیپلز پارٹی کئی بلین روپے کا کمیشن کھایا گیا۔مجھے خادمِ اعلیٰ کی اس بذلہ سنجی سے بھی کوئی غرض نہیں کہ 30 بلین میں ساراپروجیکٹ مکمل ہوا۔بفرض محال پروجیکٹ تعلیم اورصحت کے سالانہ بجٹ میں مختص رقم سے دگنی مالیت میں مکمل ہوا تو اس سے بھی صرف ِنظر ہو سکتا ہے۔ اگر ثمرات پنجاب کو انتظامی، معاشی بحران سے نکال پاتے، شرح نمو بہتر اور روزگار عام ہوجاتا، امن بحال رہتا، صنعتیں چل پڑتیں،مہنگائی دم توڑ جاتی ، زراعت مثالی اورٹیوب ویل خشک نہ ہوتے ،پٹوارخانہ اور تھانہ”عام آدمی“کی دسترس میں ہوتا۔عالم پناہ آپ کی ترجیح ایک ایسی سڑک ٹھہری جس کا ٹینڈر ہوانہ بجٹ میں حصہ مختص کیا گیا ۔منصوبہ کابینہ کو سنگھایا گیا نہ ہی صوبائی اسمبلی کو خاطر میں لایا گیا۔اس کے اوپر انگلیاں اٹھنا ایک لازم امر۔کیا پیپلز پارٹی کو بھی ایسی کھلی چھٹی مل سکتی تھی ۔ ”نیچرل گیس“ جس کی غیر موجودگی قیامت ڈھارہی ہے کو رکوا کر اگر سووموٹو لیا جا سکتا تھا توجنگلہ ایکسپریس سے صرفِ نظر کیوں۔ رینٹل پاور پلانٹ اسیکنڈل کے ”ڈانڈے“ترک کمپنی سے ہی تو ملتے تھے۔ ترک کمپنی سے جلناجب ثابت ہوہی گیاتھا توسڑک پروجیکٹ کا پھونک پھونک کرجائزہ کیوں نہیں لیا گیا؟رینٹل پاور سیکنڈل کی داغ بیل ترک کمپنی کی مرہونِ منت تھی تویہاں ترک کمپنی کو کیوں نہیں کھنگالہ گیا؟ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایسا پروجیکٹ شروع کرتی توکیا عدالتیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھتیں؟ مجھے حیرت ہے کہ تحریک انصاف ایک سال سے کیوں انڈے سینچ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایاگیا؟ بدنیتی اور نالائقی منظرِعام پر آ ہی چکی تو تحریک انصاف کا عدالت ِعالیہ کا دروازہ نہ کھٹکھٹانانالائقی سمجھا جائے یا کاہلی تصور کیا جائے؟ کیا قوم کی بدقسمتی کی رات نے ختم نہ ہونے کی قسم کھا لی؟ مال مفت کاہوتودل کا بے رحم ہونالازم ۔
سیاسی دکانداری کو چمکانے کے لیے 100 ارب کی سرمایہ کاری جبکہ لاہور کی ٹریفک کی فوری ضرورت تو گڈگورننس،ٹریفک قوانین پر عملداری اورپبلک بسوں کی تعداد میں اضافہ تھا ۔حکمران اشرافیہ کی غیر قانونی تجاوزات جس نے اہم سڑکوں کو اپنی تحویل میں لے رکھا ہے اولین ترجیح تو ان کو مسمار کرنا تھا۔عقل کو ششدر کرنے والی ابھی کل ہی کی خبر من وعن پیشِ خدمت ہے ۔”سیکورٹی خدشات، شریف کمپلیکس کے گرد 150 مربع کلومیڑ تک تعمیرات پر پابندی عائد۔ آئندہ سے جاتی عمرہ کے گردونواح میں کسی سرکاری یا نجی ہاؤسنگ سکیم کی منظوری نہیں دی جا ئے گی“۔جاتی عمرہ کے گردونواح میں پابندی کے پیچھے اصل راز کیا ہے؟ اس میں پوشیدہ ہے پڑوسیوں کی زمینیں زبردستی ہتھیانے کا فارمولا۔قابلِ احترام قائدین بس اتنا بتا دو ”کافی کب کافی ہو گا “۔شہنشاہ ایران اورحسنی مبارک کے انجام سے سبق سیکھو۔شہنشاہ کو اپنے ملکیتی جزیرے میں اپنی قبر نصیب نہ ہوئی۔ دربدر کی ٹھوکریں کھاتا لاوارثوں کی طرح دفنایا گیا۔یہ منصوبے اور بیوپار تو آپ کو پاکستانی بل گیٹس بنا چکے جبکہ سیاسی اللے تللوں بناعوام الناس روٹی کے لقمہ کو ترس گئے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تبدیلی اشاروں کنایوں میں بھی نظر آئے تو مفلوک عوام کا وارفتگی دیدنی ہوتا ہے۔ نالائق آپ۔ تجربہ گاہ پنجاب کیوں؟ نااہلی کی قیمت کروڑوں اربوں میں ٹیکس دہندوں کے پیسوں سے آخر کب تک؟ 1993 میں آپ نے جیل روڈ پر ایک مزاحیہ انڈرپاس بنوایا ۔یہ انڈرپاس حماقت کی یادگار کے طور پر آج بھی موجود۔ ڈر کے مارے نہر سے ہٹ کرشاید اس لیے بنایا گیا کہ کہیں نہر غصہ میں انڈر پاس کو دبوچ نہ لے۔ٹریفک کے لیے خطرناک ترین یہ انڈرپاس بے شمار انسانی جانیں لے چکاکوئی جواب دہ نہیں۔انجینئرنگ کا یہ ناقص نمونہ حکمرانوں کی ذہنی استعداد کی تماشگاہ بن چکا۔ذرا بتائیں اس پل کی ٹیکنیکل ٹیم کوکتنے انعامات و کرامات سے نوازا گیاتھا؟ساڑھے تین سال تو ہوش آیا نہیں۔الیکشن سر پر آئے تو حلوائی کی دکان ماما کی فاتحہ خوانی ۔ عمران خان کی سیٹی نے خوابِ خرگوش سے بیدار کیا۔زرداری نواز رشتہ جو ایک جاں میں ڈھل چکا تھا اور بچوں کو منتقل ہوا ہی چاہتا تھا عمران کے ظہور نے بدمزہ کر دیا۔لاہور واگزار کروانے کے لیے بھاگم بھاگ لیپ ٹاپ ، یوتھ فیسٹیول اور جنگلہ ایکسپریس میں اماں تلاش کی۔کوشش رائیگاں ہی جائے گی۔عزت مآب چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر صاحب ،عام آدمی کی آہ و بکاپبلک منی کے بہیمانہ استعمال پر شوروغوغاآپ کی توجہ کا متقاضی ہے۔ پنجاب حکومت کے مالی اور انتظامی معاملات کامنظرِ عام پر آناقومی مفاد میں ہے۔ اس پر کمیشن بٹھاکر حقائق تک پہنچناہی انصاف اور آئین کے تقاضے پورے کرے گا۔ پچھلی 4 دہائیوں سے حکمرانوں نے کرپشن اور شعبدہ بازی کی جو داغ بیل ڈالی آج آکاش بیل بن کر وطنِ عزیز کو زردی مائل کر چکی ۔
اگر عوام کی تکلیف کا احساس نہ کیا گیا اور بھیڑیوں کا چارہ بننے دیاگیاتو یاد رکھیے انقلاب فرانس جب آیا تھا تو حکمران اشرافیہ کو چاپ بھی سنائی نہیں دی تھی ،پارلیمان کام کررہی تھی آئین اور عدالتیں موجود بلکہ غریبوں کی اشک شوئی میں مگرمچھ کے ٹھسوے بہانے میں مصروف ۔ نتیجہ کیا نکلا۔المناک ۔ شعبدہ بازی سے ستائی عوام ٹھ کھڑی ہوئی نہ ایم این اے بچا نہ ایم پی اے ۔ایک ایک کو چن کر قتل کردیا گیا۔ لاشوں کو گلی کوچوں میں گھسیٹاگیا۔ یہ الیکشن پاکستان کے مستقبل کو بچانے کا آخری موقع ہے۔تبدیلی کے آگے شعبدہ بازی ناکام ہو گی تو ملک کا مستقبل محفوظ ہو گا۔
نوٹ :تحریک انصاف کے لیے ایک خوش آئند پہلو۔ 23 مارچ مینار پاکستان پر جمہوریت ڈے کے جلسے پر فری بس سروس آپ کے رحم وکرم پر ہوگی۔اپنی گاڑیاں اپنی سہولت کے سٹاپ پر پارک کر کے خادم اعلیٰ کے اس تحفے پر آپ بھی واہ واہ کریں۔